"FBC" (space) message & send to 7575

جنگلی حیات کی بقا کے لیے

جنگلی حیات سے ہمار ا عشق‘ یوں جان لیجئے کہ بچپن سے ہی ہے۔ ہم درجنوں بار اپنے بچپن کی یہ باتیں بیان کر چکے ہیں کہ اکثر اوقات صبح کے وقت آنکھ کھلتی ہی پرندوں کی چہچہاہٹ سے تھی۔ تب ایئرکنڈیشنر وغیرہ تو ہوا نہیں کرتے تھے سو راتیں چھت پر ہی گزرتی تھیں۔ بار ہا ایسا ہوا کہ جب صبح کے وقت پرندوں کی چہچہاہٹ سے آنکھ کھلتی تو منڈیر پر اِن کی ایک طویل قطار دیکھنے کو ملتی۔ طوطے، مینا، ہدہد اور نجانے کس کس اقسام کے پرندے دیکھنے کو ملتے تھے۔ کئی مرتبہ تو اپنی چارپائی پر بے حس و حرکت پڑے اِنہیں دیکھتے اور اِن کی آوازیں سنتے رہتے تھے مبادا ہمارے حرکت کرنے سے یہ اُڑ جائیں۔ پھر یوں ہوتا کہ یہ اپنی اپنی بولیاں بول کر اُڑ جاتے اور ہم اِنہیں دوبارہ دیکھنے کے لیے اگلی صبح کا انتظار کرتے۔ اب چھتوں پر سونے کا رواج رہا نہ پرندوں کی وہ قطاریں باقی رہیں۔ نجانے یہ سب کے سب کہاں چلے گئے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے ہمارا یہی عشق پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدر منیر صاحب سے قربتوں کا باعث بنا اور یہ تعلق آج بھی قائم ہے۔ گاہے گاہے اُن کے دفتر کا چکر بھی لگتا رہتا ہے کہ پنجاب میں جنگلی حیات کے بارے میں تازہ ترین صورت حال سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔کبھی کبھار حیرت بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ کیسے اِس مقصد کے لیے اتنا وقت نکال لیتے ہیں مگر جو مشکل راہوں پر چلنے کی ٹھان لیتے ہیں‘ انہیں ہمسفر بھی مل ہی جاتے ہیں۔ ایک روزہم پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن کے دفتر پہنچے تو وہاں محکمہ جنگلی حیات کے افسران اور اہلکار بھی بڑی تعداد میں موجود تھے لیکن محفل کا ماحول کافی کشیدہ سا تھا۔ بحث اِس مدعے پر چل رہی ہے کہ جس معاشرے میں انسانوں کی قدر نہ کی جاتی ہو وہاں جنگلی حیات کی بقا کیسے ممکن ہو سکتی ہے یا اُس کی اہمیت کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ بدر صاحب کافی جوش کے ساتھ دلائل دے رہے تھے کہ اگر جنگلی حیات کے بارے میں ہمارا یہی رویہ رہا تو پھر ہم قدرت کے مزید خوب صورت شاہکاروں کو کھو دیں گے۔ بات میں وزن تو تھا کہ جنگلی حیات کے بارے میں ہماری غلط سلط سوچوں کے باعث فطرت کے شاہکار ہم سے روٹھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ جنگلی حیات کے بارے میں ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا پڑے گی، ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو بتانا پڑے گا کہ جنگلی حیات کی ہماری زندگیوں میں کتنی اہمیت ہے اور یہ بھی کہ یہ صرف دیکھنے میں ہی بھلے محسوس نہیں ہوتے بلکہ یہ ہمارے ایکو سسٹم کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ اُن کی بہت سی باتیں ہماری معلومات میں بھی کافی اضافہ کر رہی تھیں۔ یہ ہم جانتے تھے کہ وہ خلوصِ نیت سے جنگلی حیات کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اِس بارے میں وہ اتنے جذباتی بھی ہیں۔ ویسے جو بھی انسان جنگلی حیات کی اہمیت کو سمجھتا ہے‘ پرندوں اور جانوروں سے پیار کرتا ہے‘ اُس کا وائلڈ لائف کے موجودہ حالات پر جذباتی ہونا بنتا ہے۔ اِس حوالے سے تو ہم شاید اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے گڑھا کھود رہے ہیں۔ دوسری طرف محکمے کے ذمہ داران اپنے حالات کا رونا رو رہے تھے کہ اُنہیں وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں تان اِسی بات پر ٹوٹی کہ جو کوئی جتنا بھی کر سکتا ہے‘ اتنا ہی کر لے تو یہ بھی بہت ہے۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ حالات میں تبھی بہتری آ سکتی ہے کہ جب ہم کسی بھی معاملے کی سنگینی کو ذاتی طور پر محسوس کریں۔ محکمے بھی ایک حد تک اپنی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اُن کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کا مؤثر ہونا بہرحال ہمارے رویوں سے ہی مشروط ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ہم بلاوجہ بڑی تعداد میں پرندوں کو شکار کرکے اُن کے ساتھ تصاویر کھنچوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ موسم سرما کے دوران سائبیریا اور دیگر سرد ترین علاقوں سے تقریباً 10 لاکھ کے قریب مہمان پرندے ہمارے ہاں آتے ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد واپس نہیں جا پاتی۔ اِن کی بہت بڑی تعداد کو شکاری اپنی بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بنا لیتے ہیں اور پھر فخر سے اپنے ''کارناموں‘‘ کی تشہیر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں کہ فلاں ریسٹورنٹ پر تیتر، بٹیر، تلور، اڑیال یا ہرن کا گوشت دستیاب ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ فروخت غیر قانونی طور پر ہی ہوتی ہے۔
اِن حالا ت میں جب ہم کسی کو خلوصِ نیت سے جنگلی حیات کی بقا کے لیے کام کرتے دیکھتے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہمیں پوٹھوہار کے علاقے میں جانے کا موقع ملا تو یہ جان کر دل باغ باغ ہو گیا کہ پنجاب کی شان سمجھے جانے والے اُڑیال کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے تک معدومی کے خطرے سے دوچار جانور پینگولن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل چینی اس جانور کا گوشت بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ اِس جانور کے جسم پر موجود سپیاں‘ جنہیں چھلکے بھی کہا جاتا ہے‘ مختلف اشیا کی سجاوٹ میں کام آتی ہیں ۔ بس یہی دوچیزیں اِس کی بقا کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ پوٹھوہار میں بکثرت پائے جانے والے اِس جانور کو سپیوں کے لالچ میں مار دیا گیا یا پکڑ کر چین سمگل کر دیا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ معصوم جانور معدومی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اس پر ہم نے کافی آرٹیکلز لکھے اور دنیا ٹی وی کے لیے متعدد رپورٹس بھی بنائیں۔ دراصل کسی بھی قوم کے مجموعی رویوں میں تبدیلی کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن انسا ن جو کچھ خود اچھا کر سکتا ہے‘ اُسے ضرور کرتے رہنا چاہیے۔ 
شاید یہ ایسے ہی لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب پنجاب میں جنگلی حیات کے بارے میں اچھی اچھی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ بلاشبہ جنگلی حیات کے تحفظ یا اِس میں اضافے کی بنیادی ذمہ داری تو محکمہ تحفظِ جنگلی حیات پر عائد ہوتی ہے؛ تاہم ضروری ہے کہ عوامی سطح پر بھی جنگلی حیات کی اہمیت کے حوالے سے شعور اُجاگر کیا جائے۔ اپنے بچوں کو بتایا جائے کہ یہ چرند پرند اور جانور ہماری دھرتی کا حسن ہیں۔ سب سے ضروری تو یہ بات ہے کہ یہ جو جنگلی حیات کا غیر قانونی شکار کرنے والے شکاری ہیں‘ اِنہیں بلاوجہ شکار سے روکا جائے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ 2020ء کے دوران غیر قانونی طور پر شکارکرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے گئے اور اُن سے جرمانوں کی مد میں بھاری رقوم وصول کی جا چکی ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ سلسلہ اِسی طرح جاری و ساری رہے اور جنگلی حیات کے بارے میں اچھی اچھی خبریں سامنے آتی رہیں۔ ایسے احباب کی حوصلہ افزائی بھی بہت ضروری ہے جو تحفظ جنگلی حیات کے لیے انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ جو لوگ انفرادی سطح پر کچھ اچھا کر رہے ہیں‘ کم از کم اُن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ بہرحال اُمیدِ واثق ہے کہ وائلڈ لائف کے لیے کام کرنے والے ان رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بقائے جنگلی حیات کے لیے اپنی سی کوششیں جاری رکھیں گے کہ بقائے جنگلی حیات ہمارے لیے‘ ہماری زمین کے لیے اور ہمارے ایکو سسٹم کے لیے اشد ضروری ہے۔ ہمیں نہ صرف خود اِس کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا بلکہ اپنے نئی نسل کو بھی اِس بارے بھرپور آگاہی فراہم کرنا ہو گی۔ یقینا ایسے کام کے راستے میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں لیکن کام کرنے والوں کا ضمیر تو مطمئن ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر سکتے تھے‘ اُنہوں نے کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں