"FBC" (space) message & send to 7575

مضبوط پیغام

سرحدکے اُس پار‘ بھارت میں یہ عالم ہے کہ کوئی اقلیت محفوظ ہے نہ اُن کے مذہبی مقامات۔اقلیتوں کی جانیں محفوظ ہیں نہ املاک کہ مضبوطیٔ اقتدار کے لیے ہر ممکن طریقے سے ہندو اکثریت کو خوش کرنا ہی مودی حکومت کا مقصد ٹھہرا۔ اس کے برعکس سرحد کے اِس پار یہ صورت حال ہے کہ ایک سمادھی جلائے جانے پر ملک کے منصف ِاعلیٰ نے ازخود نوٹس لیا۔حکومت اپنے طور پر حرکت میں آئی اور ذمہ داران کے خلاف نہ صرف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ بیشتر افراد اِس وقت پولیس کی حراست میں ہیں۔سمادھی جلائے جانے کا یہ واقعہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں پیش آیا۔یہ علاقہ دارالحکومت پشاور سے قریب 123 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس ہائی وے پر واقع ہے۔ غالباً 1997ء کی بات ہے‘ جب مجھے بھی اِس علاقے میں جانے کا موقع ملا تھا۔ اُسی دوران یہ معلوم پڑا کہ اِس شہر کے علاقے ٹیری میں ایک ایسی سمادھی موجود ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے ہندویوگی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ تجسس پیدا ہوا تو اِس کے بارے میں کچھ مزید معلومات حاصل کیں۔ معلومات میں کچھ یوں اضافہ ہوا کہ سمادھی ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں پرانے وقتوں میں سادھو‘ سنت بیٹھ کر گیان دھیان کیا کرتے ہیں۔صاحبانِ علم کی طرف سے بتایا گیا کہ اب تو اِس علاقے میں ہندو آبادی نہیں ہے لیکن تقسیمِ ہند سے پہلے یہاں کافی ہندوآباد تھے۔ ایک بہت مشہور ہندو گروپرما ہنس تھے‘ جو اِس سمادھی میں پوجا وغیرہ کیا کرتے تھے۔1919ء میں گروپرما ہنس کا دیہانت ہوگیا تو اُنہیں جلانے کے بجائے‘ اُن کی وصیت کے مطابق اِس مقام پر دفن کردیا گیا جس کے بعد یہ جگہ ہندوؤں کے لیے متبرک بن گئی۔ دوردراز سے ہندو اِس جگہ پر حاضری دینے کے لیے آتے اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے۔ اِس کے ساتھ ایک چھوٹا سا مندر بھی بنا دیا گیا تھا۔ بتانے والوں کی باتیں ہمارے تجسس میں مسلسل اضافہ کررہی تھیں جس کے نتیجے میں وقت نکال کر ہم اِس مقام کو دیکھنے جا پہنچے۔ تب یہ دیکھ کر کافی اچھا محسوس ہوا کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے مذہبی مقامات کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ تب ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں اب بھی ہندویاتری آتے ہیں اور یہاں پر اپنی رسومات ادا کرتے ہیں لیکن اب اُن کا یہاں قیام وقتی ہوتا ہے۔ تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے بھی ایک تاریخی مقام کو دیکھ کر اچھا محسوس ہوا تھا کہ تاریخ تو اقوام کا مشترکہ اثاثہ ہوتی ہے۔ اب دودہائیوں کے بعد سمادھی میں توڑ پھوڑ کی بابت معلوم پڑا تو کسی قدر افسوس ہوا لیکن خوشی اِس بات کی ہوئی کہ حکومت اور عدلیہ نے اِس پرفوری رد عمل کا اظہار کیا۔چیف جسٹس صاحب کی طرف سے ریمارکس دیے گئے کہ سمادھی کو نذرِآتش کرنے کی ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہونے سے ہمارے ملک کے بارے میں کیا تاثر گیا ہوگاَ؟ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انتظامیہ کی بھی اچھی خاصی سرزنش کی گئی۔ بہرحال کچھ افراد کے اِس انفرادی اقدام پر اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کی طرف سے سامنے آنے والا رد عمل بہت حوصلہ افزا قرار دیا جاسکتا ہے۔ بے شک ملک کی عدلیہ اور حکومت نے کرک واقعہ پر اپنی ذمہ داریوں کو خوب نبھایا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کیس کو حتمی نتیجے تک بھی پہنچایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی مؤثر روک تھام ہوسکے۔ 
اس وقت گڑ بڑ کرنے والے کم از کم 109افراد زیرِحراست ہیں جبکہ مقدمے کے اندراج میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کی معطلی کی خبریں بھی سامنے آچکی ہیں۔ سمادھی جلائے جانے کے واقعہ پر حکومت اور عدلیہ کی طرف سے جو پیغام دیا گیا ہے‘ وہ بہت ہی واضح اور غیرمبہم ہے کہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کا ہرممکن تحفظ یقینی بنایا جائے گا بلکہ اُن کی املاک کی حفاظت بھی کی جائے گی۔ اعلیٰ حکومتی شخصیات کی طرف سے ایسے ہی مثبت عزائم کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہوچکا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سمادھی کی ازسرنو تعمیر کی جائے گی۔ یقینا یہ بہت مضبوط پیغام ہے جسے مزید مضبوط ہونا چاہیے ۔ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمارے ملک کی اکثریت یہاں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے بہت اچھا رویہ رکھتی ہے۔ کبھی کبھار کوئی ناخوشگوار واقعہ سامنے آتا ہے تو اِس پر عمومی طور پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران اکثر مختلف اقلیتوں سے بھی ملنے ملانے کا موقع ملتا رہتا ہے جو اکثریت کے رویے پر زیادہ تر اطمینان کا اظہار ہی کرتی ہیں۔ یہ اِنہی حالات کا نتیجہ ہے کہ ہماری اقلیتیں زندگی کے ہرشعبہ میں ترقی کررہی ہیں۔ 
یہ سب کچھ ہمارے ہمسایہ ملک کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ آج بھارت میں اہلِ اسلام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اُس پر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بھارتی حکومت نے تو شاید تہیہ کررکھا ہے کہ وہ ہر صورت اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں کو اُن کے حقوق سے محروم کرکے دم لے گی ۔ سرحد کے اُس پار مذہبی آزادیوں کے حوالے سے ایک امریکی ادارے کی رپورٹ ہمارے سامنے پڑی ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نامی یہ ادارہ دنیا کے مختلف ممالک میں مذہبی آزادیوں پر نظر رکھتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے اِس ادارے کی سامنے آنے والی رپورٹ میں اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت میں کچھ عرصہ پہلے این آرسی کا متنازع قانون بھی متعارف کرایا گیا تھا جس کے باعث کم از کم 19لاکھ مسلمان بھارتیوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ اِس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اِس قانون کے متعارف کرائے جانے سے مسلمانو ں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ادارے کی طرف سے امریکی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ اِس حوالے سے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ وہاں مذہبی آزادیوں کی صورت حال میں بہتری آسکے۔ 
بھارت میں اب تو یہ عالم ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے اپنے سرمایہ دار دوستوں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ہی کسانوں کو احتجاج پر مجبور کردیا ہے۔ پورے بھارت کے کسان دہلی کے گرداگرد دھرنے دیے بیٹھے ہیں لیکن مجال ہے جو بھارتی حکومت کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے ایک متنازع قانون کے تحت سرکاری منڈیاں ختم کردی ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کسان اپنی اجناس لے جا کر اِن منڈیوں میں اپنی پسند کے نرخوں پر فروخت کرسکتے تھے۔ اب منڈیوں کے ختم ہونے سے یہ سرمایہ کاروں کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ یہ بات بھارتی کسانوں کو قبول نہیں ہے جن کی حالت پہلے ہی کافی پتلی ہے۔ یہ سلوک اُن کسانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں ہر سال خود کشیاں کرتے ہیں۔ اب مودی حکومت اُن کی کمر توڑ دینے پرکمربستہ ہوچکی ہے۔بھارتی کسانوں کی مجبوری کا اندازہ لگائیے کہ دہلی کی خون جمادینے والی سردی کے باوجود وہ اپنے دھرنے ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یقینا یہ اُن کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف مودی حکومت ہے کہ اُنہیں زندگی کے حق سے ہی محروم کردینا چاہتی ہے۔ جس حکومت کا اپنے ہم مذہب لوگوں سے یہ سلوک ہے‘وہ اقلیتوں کے حقوق کا کیا تحفظ کرے گی۔بھارت میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی بدولت بھارتی نام نہاد سیکولرازم کا پردہ تیزی سے سرکنے لگا ہے۔ یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ سیکولر ازم کے پردے میں کس طرح اکثریت کواقلیتوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ ہم بھارتی حکمرانوں کے اِس رویے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہاں بسنے والی اقلیتوں کو اُن کے تمام حقوق دئیے جائیں جس طرح ہمارے ہاں بسنے والی اقلیتوں کو اُن کے حقوق حاصل ہیں۔ کرک کے ناپسندیدہ واقعہ کے صورت میں اِن حقوق پر زد پڑی تو نہ صرف حکومت کی طرف سے بھی فوری طور پر مثبت رد عمل سامنے آیا بلکہ عدلیہ بھی حرکت میں آ گئی۔ یہ سب کیلئے جہاں ایک مضبوط پیغام ہے وہیں یہ بھارت کیلئے ایک سبق بھی ہے۔ اب یہ الگ بات کہ موجودہ بھارتی حکمرانوں نے کسی بھی اچھی بات پر کان نہ دھرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں