"FBC" (space) message & send to 7575

شاید مائنڈ سیٹ تبدیل ہو جائے

ملک کے دارالحکومت میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں ایک نوجوان کے قتل کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے۔ یہ واقعہ 2جنوری کو پیش آیا تھا۔ کار سوار نوجوان کو 17گولیاں ماری گئی تھیں۔ حسبِ روایت ابتدائی طور پر کار سوار نوجوان‘ جس کی شناخت اسامہ ستی کے نام سے ہوئی‘ کو ڈکیٹ ٹائپ شخص قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اعلیٰ پولیس افسران بھی واقعہ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس ترجمان بتاتا ہے کہ پولیس کو فلاں کالونی میں ڈکیتی کی اطلاع ملی تو علاقے میں گشت پر مامور پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے، وہاں اُنہوں نے ایک مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی لیکن گاڑی نہ رکنے پر اُس پر فائرنگ کی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ فائرنگ کے نتیجے میں کارسوار نوجوان جاں بحق ہوچکا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ چار پانچ اہلکار ایک نہتے نوجوان پر گولیاں برسا کر اُسے جان سے مارڈالتے ہیں اور پھر اُسے ڈاکو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے حقائق سامنے آنا شروع ہوئے‘ جھوٹ کا پردہ فاش ہوتا چلا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجوان اسلام آباد کا رہائشی تھا جو اپنے والد کے کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جب اپنے نوجوان بیٹے کی ہلاکت کی خبر اُن تک پہنچی ہوگی تو اُن پر کیا بیتی ہوگی؛ البتہ اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ جب اُنہیں یہ معلوم ہوا ہوگا کہ اُن کے بیٹے کو ڈاکو قرار دیا جارہا ہے تو تب اُن کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ صورتحال جیسے ہی واضح ہوئی توپولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا اور واقعے کی تحقیقات شروع ہوگئیں۔ حکومت کی طرف سے ایک جوڈیشل انکوائری کمیشن ترتیب دے دیا جاتا ہے اور اسے پانچ روز کے اندر رپورٹ فراہم کا پابند کیا جاتا ہے۔ اِسی کمیشن کی رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے جس میں ہوشربا حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔
کمیشن کے حقائق جاننے سے قبل یہ امر ذہن میں رکھیے گا کہ یہ واقعہ ملک کے کسی دوردراز علاقے میں نہیں بلکہ دارالحکومت میں حکومتی مشینری کی عین ناک تلے پیش آیا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اسامہ ستی کو اُس وقت گولیاں ماری گئیں جب اُس نے گاڑی روک دی تھی، پولیس کے اِس اقدام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقتول سے پوچھ گچھ کرنا نہیں بلکہ اُسے مارنا ہی مقصود تھا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ گرفتار ہونے والے پانچ میں سے چار پولیس اہلکاروں نے کار کے چاروں اطراف میں کھڑے ہوئے کر گولیاں برسائیں، گولیوں کے نشانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گولیاں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر چلائی گئیںجبکہ پولیس کا موقف تھا کہ گاڑی نہ روکے جانے پر ہنگامی طور پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ رپورٹ میں اعلیٰ افسران کی طرف سے ملزمان کا ساتھ دینے کی کاوشوں کا پردہ بھی چاک کیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ اسامہ ستی پر فائر کی جانے والی 22گولیوں کے خول 72گھنٹوں بعد فرانزک کے لیے بھجوائے گئے، اِس سے واضح ہوتا ہے کہ افسران‘ ملزمان کی حمایت کررہے تھے۔ رپورٹ میں کچھ مزید حقائق بھی واضح کیے گئے مثلاً یہ کہ پوری دنیا میں یہ طریقہ رائج ہے کہ پولیس تب تک کسی پر گولی نہیں چلائے گی جب تک ملزم کی طرف سے پہلے فائرنگ نہ کی جائے لیکن مذکورہ واقعہ میں اِن قواعد کو یکسر نظرانداز کیا گیا، یہ ایکشن واضح کرتا ہے کہ پولیس کا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔ 
اہلکاروں کی بے حسی کا اندازہ لگائیے‘ رپورٹ بتاتی ہے کہ گولیاں مارے جانے کے بعد مقتول کی گاڑی کے ارد گرد پولیس کی گاڑیاں کھڑی کردی جاتی ہیں تاکہ واقعہ کو عوام کی نظروں سے چھپایا جاسکے۔ رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوا کہ مقتول کوہسپتال لے جانے کے بجائے وہیں سڑک پر پڑا رہنے دیا گیا اور اس کے مرنے کا انتظار کیا جاتا رہا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ریسکیو 1122کو مبینہ طور پر غلط ایڈریس بتا کر مِس گائیڈ کیا گیا تاکہ ریسکیو کا عملہ بروقت جائے وقوعہ پر نہ پہنچ سکے۔ پھر مقتول کے والدین کو اِس واقعے کے خبر چار گھنٹوں بعد کی گئی۔ اندازہ لگائیے کہ جب یہ سب کچھ کیا جاتا رہا ہوگا تب ایسا کرنے والوں کے تکبر کا کیا عالم ہوگا۔ وہ یہ سب کچھ اِس یقین کے ساتھ کررہے ہوں گے کہ اُن سے کس نے پوچھنا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ دو‘چار روز کی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اِس کے لیے ہمیں دہائیوں تک کوشش اور محنت کرنا پڑی ہے۔ قوانین کو طاقتوروں کے گھر کی باندی بنانا پڑا ہے، کمزوروں کو سبق سکھانا پڑا ہے، تب کہیں جاکر یہ مائنڈ سیٹ بن پایا ہے۔
یہ غالباً 2013-14ء کی بات ہے جب کراچی کے ایک پارک میں سرفراز نامی ایک نوجوان کو ایک اہلکارنے گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ اتفاق سے اِس قتل کی وڈیو سامنے آگئی تھی۔ وڈیو میں نوجوان کے سر پر بندوق تانے اہلکار کے چہرے پر موجود تکبر اور طاقت کا نشہ آج بھی اکثر نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اسامہ ستی پر فائرنگ کرتے وقت بھی اہلکاروں کے چہروں پر غالباً ایسے ہی تاثرات موجود ہوں گے۔ شاید اُن کے ذہن میں یہ بھی آیا ہو کہ اگر یہ کیس اچھالا بھی گیا تو بعد میں مقتول کے ورثا پر دباؤ ڈالنے سے صلح تو ہوہی جائے گی۔
کراچی والے مذکورہ واقعے میں ملوث اہلکار سزائے موت سے بچ گیا تھا کیونکہ مقتول کے بھائی نے عدالت کے سامنے پیش ہوکر بیان دیا تھا کہ ہم نے ملوث اہلکار کو معاف کردیا ہے۔ اب یہ معافی تلافی کیسے ہوتی ہے‘ یہ سب کے علم میں ہے۔ ابھی سانحہ ساہیوال کو بھی گزرے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ دوسال پرانی ہی تو بات ہے۔ یہ ہولناک واقعہ 19 جنوری 2019ء کو دن دہاڑے ایک قومی شاہراہ پر پیش آیا تھا۔ اندھا دھند گولیاں برسا کر دوخواتین سمیت چار افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ حسبِ روایت پہلے پہل اِس واقعہ سے لاعلمی کااظہار کیا گیا، پھر اِس واقعے کودہشت گردی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ حقائق سامنے آنے پر غلطی تسلیم کرلی گئی مگر شاید ہی کوئی حکومتی اہلکار ایسا ہوگا جس نے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا دعویٰ نہیں کیا ہوگا۔ وزیراعظم نے بھی ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنانے کا وعدہ کیا تھا؟ بعد میں اس کیس کا کیا ہوا؟ چھ کے چھ اہلکاروں کو شک کافائدہ دے کر بری کردیا گیا۔
یہ تو دیگ کے چند دانے ہیں ورنہ تو پوری کی پوری دیگ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یوں بھی ہم نے اِس فن میں جو یکتائی حاصل کی ہے، اُسے کہیں نہ کہیں تو اپلائی کرنا ہی ہے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے اصول کو دن رات محنت کرکے مضبوط بنایا گیا ہے، اب اُس کی کمزوری تو برداشت نہیں کی جا سکتی۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ دہائیوں کی محنت کو دوچار بیانات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ اب اسامہ ستی والے کیس کو بھی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیے جانے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اب کے کوئی انہونی ہو جائے۔ کوئی ایسا کرشمہ ہو ہی جائے کہ طاقتوروں کو احساس ہونے لگے کہ اُن کی بھی جوابدہی ہو سکتی ہے، اُنہیں بھی اپنے کیے کی سزا مل سکتی ہے ورنہ ظلم تودن رات بچے جَن ہی رہا ہے۔ انصاف پہلے صاحبِ اولاد ہوا نہ اب اِس کی کوئی زیادہ توقع ہے۔ بس ایک خواہش ہے کہ شاہراہوں پر ، تھانوں میں اور گھروں میں شہریوں کی جان و مال سے کھیلتے اِن اہلکاروں کو کسی طور یہ احساس تو ہو کہ اب طاقت کے بے جا استعمال کا دور لد چکا ہے۔ یہ خواہش بھی دل میں اِس لیے موجزن ہے کہ ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ آس اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بس اِسی 'اکھان‘ کے سہارے اُمیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ شاید اسلام آباد والا واقعہ ہی کوئی ایسی مثال قائم کردے جو پہلے کبھی سامنے نہ آئی ہو۔ خدا کرے کہ لوگوں کو دبا کر رکھنے والا مائنڈ سیٹ اب تبدیل ہوجائے۔ جن کے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کی جاتی ہیں‘ اُنہیں دبا کر رکھنے کی روایتیں ختم ہو جائیں۔ شاید طاقت کے بے جا استعمال کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہو ہی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں