"FBC" (space) message & send to 7575

چاک چکر

گزشتہ حکومتیں خصوصاً مسلم لیگ نون کی حکومت ملک کے ساتھ وہ کچھ کرگئی کہ حالات سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے‘ بجلی کے مسائل اس معاملے میں قابل ذکر ہیں کہ سابقہ حکومت نے مہنگے وسائل سے بجلی کی پیداوار اور آئی پی پیز کے ساتھ جو سودے کئے ان کے عوض ملنے والی گراں قدر بجلی مسلسل قومی خسارے میں اضافے کا سبب بن رہی ہے؛چنانچہ یہ جانے والوں کا ہی کیا دھرا ہے کہ حکومت کو ایک مرتبہ پھر بجلی کے نرخوں میں 1.95پیسے فی یونٹ کا اضافہ کرنا پڑ ا ہے۔ سابق حکومت تو یہ فیصلے کر کے رخصت ہو گئی مگر اس کا بوجھ موجودہ حکومت کو اٹھانا پڑ رہا ہے جو ان اڑھائی برسوں کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 61 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے پہلے بجلی کا اوسط ٹیرف 9.50پیسے فی یونٹ تھاجو اس وقت 15.30پیسے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے۔ اس طرح صارفین کو 650ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا اور اس کے اثرات عام آدمی سے لے کر صنعت کار تک ہر طبقے کے صارفین پر مرتب ہو رہے ہیں اور مہنگی بجلی جہاں عام آدمی کے مالی وسائل پر بے پناہ بوجھ کا سبب بن رہی ہے وہیں اس سے تیار ہونے والی صنعتی مصنوعات بھی عالمی منڈی میں مقابلے کی سکت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا ذکر کرتے ہوئے وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ توانائی کے مسائل موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے ہیں اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف اور صرف مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت کی وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ اُنہوں نے یہ نشاندہی بھی کی تھی کہ جانے والی حکومت جاتے جاتے اُن کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھا گئی تھی جنہیں صاف کرنے کے لیے موجودہ حکومت کو بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ملکی معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکی ہے۔ 
بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد خود وزیراعظم صاحب کو بھی صورت حال کی وضاحت کرنا پڑی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ صارفین کو سستی بجلی دے کر ملک پر قرضہ نہیں چڑھا سکتے۔یاد رہے کہ حکومت کے پہلے دوسالوں کے دوران ملکی قرضوں میں گیارہ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو چکا تھا جس سے ملک کا مجموعی قرضہ 36ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اُس کے بعد کے چھ ماہ کے دوران جتنا قرض لیا گیا‘وہ اس کے علاوہ ہے۔ان نئے قرضوں میں بہت بڑا حصہ ان قرضوں کی ادائیگی کی غرض سے لیے گئے قرضوں کا ہے جو پچھلی حکومت نے لیے اور موجودہ حکومت کو ان کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔
دوسری جانب مہنگائی ہے کہ قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہی‘ 55 روپے فی کلو والی چینی 100روپے تک پہنچ گئی ہے‘ شہریوں کو تھوڑی بہت تکلیف آٹا مہنگا ہونے سے بھی اُٹھانا پڑی‘ جبکہ بناسپتی گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی مہنگائی عوام کے لیے ایک نئی پریشانی کی صورت میں نمودار ہوئی ہے؛ تاہم مہنگائی کے مسائل میں بدانتظامی کا بھی خاصا عمل دخل ہے۔ ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ جیسے مسائل اسی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔تاہم وزیر اعظم نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویومیں واضح طور پر کہا ہے کہ ماہ ِرمضان کے دوران ذخیرہ اندوزی یا اشیا کے نرخوں میں خود ساختہ اضافہ روکنے کی ہدایات ابھی سے جاری کر دی گئی ہیں۔وزیر اعظم صاحب کی جانب سے ہدایات کا اجرا خوش آئند ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ہدایات پر من و عن عمل بھی کروایا جائے۔ انتظامی معاملات میں سب سے بڑا خلا عمل در آمد کا ہے۔ حکومتی سطح پر فیصلے کر لیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا اور تازیانہ عوام پر برستا ہے۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ سیاسی رہنما گھنٹوں تک پریس کانفرنسز کرتے رہتے ہیں اور واضح ثبوتوں کے ساتھ جانے والوں کے کارنامے بتاتے ہیں؛ لیکن متعلقہ فورمز پر ان کی کارکردگی تاحال مایوس کن ہے۔ ہررو ز وزرا اور حکومتی ترجمانوں کے بیانات اخبارات میں نمایاں جگہ پاتے ہیں لیکن عوام ہیں کہ اب ان پر بھروسہ کرنے کو ہی تیار نہیں۔ وہ چند باتیں ہیں جو روز دہرائی جاتی ہیں، اسی وجہ سے عوام کو حکومت پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ اگر خارجہ محاذ کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت کی کارکردگی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے، ملائیشیا میں پاکستانی طیارے کے ضبط کیے جانے سے ملکی ساکھ کو کافی زک پہنچی ہے، اگرچہ حکومتی موقف ہے کہ عدالت نے حکومت کو سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ دیا تاہم عوام اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر بھارتی لابی پوری کر رہی ہے جو گزشتہ پندرہ سالوں سے سری واستو نامی گروپ بنا کر جعلی میڈیا اداروں کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا میں مصروف تھی۔ ای یو ڈس انفو لیب میں اس کا پول بھی کھل چکا ہے کہ کس طرح جعلی این جی اوز، جعلی میڈیا آئوٹ لیٹس اور دیگر ادارے بنا کر پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم چلائی گئی۔ آج کل بھارتی حکومت اپنے ہی کسانوں کے ہاتھوں رسوا ہورہی ہے۔ جو دوسروں کو پریشان کرتا ہے تو پھر قدرت خود اُس کے لیے پریشانی کا سامان پیدا کر دیتی ہے۔ 
اگرچہ اس وقت تنگی ہے، مہنگائی ہے اور حکومت اسے تسلیم بھی کر رہی ہے لیکن اس سے نمٹنے کے بجائے ساری ذمہ پچھلی حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ بھی ریت رہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومتوں پر سارا ملبہ گرا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے۔بھلے گزشتہ حکومت جاتے جاتے اِس بات کا پورا انتظام کرکے گئی تھی کہ آئندہ حکومت کو کسی کروٹ چین نصیب نہ ہو اور وہ ہمہ وقت پریشان ہی رہے لیکن موجودہ حکومت کو بھی مسندِ اقتدار پر بیٹھے ڈھائی سال کا عرصہ گزر چلا ہے، اگر پچھلی حکومت نے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائی تھیں تو انہیں صاف کرنا کس کا کام تھا؟ حکومت گزشتہ ڈھائی سالوں میں یہ بنیادی ذمہ داری بھی ادا نہ کر سکی؟
اس وقت عالم یہ ہے کہ انتظامی اداروں میں وصول کی جانے والی ''فیس‘‘ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ شاید فیس وصول کرنے والوںکو بھی اِس بات کا احساس ہے کہ آج کل زور و شور سے احتساب کی جو باتیں ہو رہی ہیں‘ اگر وہ پکڑے گئے تو اُنہیں سخت سزا بھگتنا پڑ سکتی ہے اِس لیے رسک الاؤنس کے طور پر اُنہوں نے ''فیس‘‘ میں اضافہ کر دیا ہے ۔ حکومتی رٹ محض چند سیاسی ناموں تک ہی محدود نظر آتی ہے، اگر بلاتفریق حکومتی ڈنڈا سب پر برس رہا ہوتا تو کسی کو بھی حکومت کے اقدامات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملتا مگر حکومت سب کو تنقید کی راہ خود دکھلاتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اپنی سب سے بڑی دشمن یہ حکومت خود ہی ہے۔ آج حکمران سابقین پر غلطیوں کا ملبہ ڈال رہے ہیں، آج کے حکمران رخصت ہوں گے تو نئے آنے والے چاک چکر کا نیا سلسلہ شروع کر دیں گے اور سب چیزوں کا ذمہ دار اِس حکومت کو ٹھہرائیں گے‘ کہ اس نے ہماری راہ میں بارودی سرنگیں بچھائیں، چاک چکر کا نیا مرحلہ کیسے کیسے رنگ دکھا سکتا ہے، اِس پر پھر کسی وقت بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں