"FBC" (space) message & send to 7575

وقت اُنہی کا ہوتا ہے…

پھر وہی ہوا جو فطر ت کے اُصولوں کے ساتھ کھلواڑ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی برپا ہوئی تو اِس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ خزانہ تو پہلے ہی اللے تللوں کے باعث خالی ہوچکا تھا۔ آخری فرمانروا نے تمام عمر بغیر کسی مشکل کے حکمرانی کی تھی جس کے باعث وہ خاصے سہل پسند ہوچکے تھے۔ جنگ بھلا اُن کے بس کی بات کہاں رہی تھی۔ یہی حال دوسرے اُمرا اور فوج کا تھا۔ انگریزوں کی حتمی فتح سے پہلے ہی تحریک آزادی دم توڑ چکی تھی اور بالآخر انگریزوں نے فیصلہ کن فتح حاصل کرلی۔ 21 ستمبر 1857ء کو میجر ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کرلیا۔ حکمرانی سے تو ہاتھ دھونا ہی پڑے لیکن اپنے شہزادوں اور بے شمار دوسرے پیاروں کی دائمی جدائی کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ جلاوطن ہوکر رنگون پہنچے۔ زندگی کے باقی ایام اپنے ساتھ جلاوطن کیے گئے اہل خانہ کے ساتھ ایک مختصر سے احاطے میں بنے ہوئے چند کمروں اور اُس کے بعد ایک انگریز افسر کے گیراج میں گزارنا پڑے۔ بے بسی سی بے بسی تھی، کہاں ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت کی فرمانروائی اور کہاں ایک مختصر سا احاطہ۔ تیموری خاندان کا آخری فرمانروا رنگون میں زندگی کے چار سال ہی گزار سکا اور بالآخر 7 نومبر 1862ء کو یہ کہتا ہوا دارِ فانی سے کوچ کرگیا کہ
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دوگز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
331 سالوں کی فرمانروائی کا یہ انجام کہ جس کا کبھی مغلوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا لیکن وہ ایک بات فراموش کربیٹھے تھے کہ وقت ہمیشہ اُسی کا ہوتا ہے جو اِسے اپنے قابو میں رکھنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ آج ہم انگریزوںکو غاصب تو قرار دیتے ہیں لیکن اِس پر کم ہی بات ہوتی ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے اُنہیں اپنے وطن سے سات سمندر دور کامیابی دلا ئی تھی۔ شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ جب 1600ء کے لگ بھگ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد شروع ہوئی تھی تو اِن کی زیادہ تر آمد کلکتہ، ہگلی اور مدارس کی بندرگاہوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ بے شمار حوالے ثابت کرتے ہیں کہ تب مچھروں اور دیگر نامساعد حالات کے باعث اوسطاً دوانگریز روزانہ اپنی جان کی بازی ہار جاتے تھے لیکن اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ تمام تر حالات کے باوجود شاید ہی کوئی اِس مرگ آباد سے واپس گیا ہو۔ ایک بالکل انجان دیس میں آکر اُنہوں نے نہ صرف سروائیو کیا بلکہ اپنی حکومت بھی قائم کی... لیکن کیسے؟وقت کو اپنی مٹھی میں کرکے! سات سمندر پار پیش آنے والی مشکلات کا سامنا اور سخت محنت اور بہترین نظم و ضبط قائم کرکے۔
اِس حوالے سے ایک تحریر پڑھنے کو ملتی رہتی ہے کہ صبح ٹھیک چار بجے انگریز یونٹوں میں بگل بج اُٹھتا تھا۔ بگل کی آواز سنتے ہی انگریز افسران اور اہلکار صبح کی ڈرل کے لیے اُٹھ جاتے ہیں۔ آن کی آن میں سویلین انگریز بھی بیدار ہوکر ورزش میں مصروف ہوجاتے اور انگریز خواتین گھڑ سواری کے لیے نکل جاتیں۔ گویا انگریزوں کی یونٹس اور علاقوں میں زندگی پوری طرح سے بیدار ہوجاتی تھی۔ دوپہر تک یہ لوگ تقریباً اپنا کام ختم کرچکے ہوتے۔ مصنف کے مطابق یہ انگریزوں کا ہرروز کا معمول ہوتا۔ ایک طرف انگریز افسران اور اہلکار اپنا تمام کام تقریباً ختم کرچکے ہوتے تھے تو دوسری طرف یہی وہ وقت ہوتا تھا جب دہلی کے شاہی محلوں میں زندگی بیدار ہورہی ہوتی تھی۔ آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے اِس لیے اُنہیں مشاعرے منعقد کرنے کا بہت شوق تھا۔ عمومی طور پر مشاعروں سے اُنہیں اُس وقت فرصت ملتی جب انگریز علاقوں میں زندگی بیدار ہورہی ہوتی تھی۔ اِس بات کے بے شمار حوالے ملتے ہیں کہ اُس دور میں دہلی میں حکمرانوں کے ناشتے اور انگریزوں کے لنچ کا وقت تقریباًایک ہی ہوا کرتا تھا۔ انگریز لنچ کررہے ہوتے تھے تو محلات میں ناشتے کا اہتمام شروع ہوجاتا تھا۔ اِس سے پہلے کنیزیں نقرئی برتنوں میں بھرے پانی میں خوشبویات ڈال کر ظلِ سبحانی اور دیگر شہزادوں کے منہ دھلاتیں۔ تولیہ بردار ماہ جبینیں اِن کے چہرے خشک کرتیں، پھر حکمرانوں کے تلووں پر زیتون کے تیل کی مالش ہوتی تاکہ تمام دن کی مصروفیات کے باعث تھکن سے بچا جاسکے۔ اِس کے بعد کہیں جا کر اُمور سلطنت نمٹائے جانے کی باری آتی۔ اب بھلا وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے اور وقت کو عیاشیوں میں ضائع کردینے والے ، دونوں کیسے برابر ہوسکتے تھے۔
یہ صرف ایک مثال ہے کہ جب ہم فطرت کے خلاف چلتے ہیں تو یہ فراموش کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت کسی کیلئے تبدیل نہیں ہوتی۔ ایک قانون طے کردیا گیا ہے کہ جو محنت کرے گا، جو رب کائنات کے اصولوں کی پیروی کرے گا، وہی کامیاب و کامران رہے گا۔ اسلام کے ابتدائی دور کی شاندار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جب تک اہل اسلام اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے رہے تب تک دنیا اُن کے آگے جھکی رہی۔ آج ہم امریکا، چین، کینیڈا وغیرہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن آپ دیکھیں گے کہ اِن سب میں صبح سویرے بیدار ہونے کی مشترکہ عادت پائی جاتی ہے۔ نوے فیصد امریکی رات سات ‘ ساڑھے سات بجے تک ڈنر کر لیتے ہیں تاکہ صبح جلدی اُٹھنے کیلئے اپنے بستروں کا رخ کرسکیں۔ آج چین کو بڑی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہیں کہ پوری چینی قوم صبح چھ سے سات بجے تک ناشتہ کرچکی ہوتی ہے، وقت کی پابندی اُن کی سرشت میں شامل ہوچکی ہے۔ اِن بڑی طاقتوں یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں میں وقت پر اپنی ڈیوٹی پر نہ پہنچنے کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ڈیوٹی پر پہنچنے کا وقت نوبجے ہے تو لوگ ٹہلتے ٹہلتے ساڑھے نو‘ دس بجے اپنی ڈیوٹیوں پر پہنچ رہے ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ لوگ قطاروں میں لگے ہوں اور صاحب میٹنگ کے بہانے آرام کررہے ہوں۔ جو محنت کرے گا‘ وہی کامیاب ہوگا۔ کامیابی اُسی کا نصیب بنتی ہے جو محنت کر ے اور فطرت کے اصولوں کو اپنائے۔
معلوم نہیں ہم کون سی دنیا میں رہتے ہیں کہ سب قباحتوں کے دلدادہ ہیں اور کامیابی کی اُمید بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بھی یہ کوشش کی گئی کہ مارکیٹیں وغیرہ رات کو جلد بند کر دی جائیں تو ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے جو تاویلات پیش کرتے ہیں‘ اُنہیں سن کر ماتھا پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ قانونِ قدرت سے کسی کو استثنا نہیں ملتا۔ جو قانونِ قدرت کو سمجھے گا، وہی کامیاب و کامران رہے گا۔ آج ہم اپنی حرکتیں دیکھتے ہیں تو شرمندگی ہونے لگتی ہے۔ کیا آج ہمارا‘ اگر سب کا نہیں تو اکثریت کا‘ رہن سہن لال قلعے کے مکینوں جیسا نہیں ہو چکا؟ فرض کو فرض نہیں سمجھا جاتا لیکن حقوق کے لیے سب دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ افسوس کہ حکومت سے لے کر عوام تک‘ سب ایک ہی رنگ میں رنگے جاچکے ہیں۔ اپنی زندگی کی ڈگر کو قانونِ فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کم از کم صبح جلد بیدار ہونے کی عادت تو اپنائی ہی جاسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جو لوگ صبح جلد بیدار ہونے کے عادی ہوتے ہیں، وہ دن چڑھے تک سونے والوں کی نسبت کہیں زیادہ چست رہتے ہیں۔ صبح کی بیداری جسم اور دماغ کو بہترین حالت میں رکھتی ہے۔ رات کی بھرپور نیند یادداشت کے حوالے سے معاون ثابت ہوتی ہے حتیٰ کے ہارمونز کی پیداوار پر بھی اِس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اِس عادت کو اپنانے کے لیے صرف چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے جس کے بعد سب کچھ بہترین ہوجاتا ہے کیونکہ چڑھتے سورج کے ساتھ بیدار ہونا ہی فطرت کا تقاضا ہے اور فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنا ہی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں