"FBC" (space) message & send to 7575

ہوا بازی کی تاریخ کا شاندار باب بند ہوا

بے شک زمانے میں سوائے تغیر کے کسی چیز کو ثبات نہیں کہ وقت کی میز ہر دم حرکت میں ہی رہتی ہے۔ اِسی حرکت پذیری کے دوران ہردم کچھ نہ کچھ بنتا اور بگڑتا رہتا ہے۔بننے اور بگڑنے کے اِسی چکر کی زد میں والٹن ایئر پورٹ بھی آگیا ہے۔ بلاشبہ لاہور کا والٹن ایئر پورٹ اِس خطے میں ہوابازی کی تاریخ کا اہم ترین باب رہا ہے۔ اب اِس کے تین سو ایکڑ رقبے پر لاہور سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بنے گا۔اب یہاں پر بھی بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہوں گی، کاروباری سرگرمیاں انجام پائیں گی اور اربوں روپے کا لین دین ہوگا۔منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا جس دوران نوید سنائی گئی کہ منصوبے کا پہلا فیز 128ایکٹررقبے پر تعمیر ہوگا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پہلے فیز میں کم و بیش 13سو ارب روپے کا کاروبار ہوگا۔ خوش ہو جانا چاہیے کہ بقول حکومتی زعما‘ منصوبے کے باعث ہزاروں نوکریاں بھی پیدا ہوں گی۔ دوسرے فیز میں ڈیجیٹل ڈسٹرکٹ اور تیسرے فیز میں رہائشی ڈسٹرکٹ قائم ہوگا۔ بلندوبالا عمارتیں تعمیر ہوں گی اور اِس بات کا خصوصی دھیان رکھا جائے گا کہ منصوبے کا ڈیزائن لاہور کی ثقافت کا آئینہ دار بھی ہو۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کام میں برکت ڈالے ورنہ موجودہ حکومت کے اب تک سامنے آنے والے واحد پروجیکٹ‘ فردوس مارکیٹ انڈرپاس کی فنشنگ کا کام ہی مکمل ہونے میں نہیں آرہا۔
کچھ اِسی طرح کے دعوے ریور راوی اربن پروجیکٹ منصوبے کے حوالے سے بھی سامنے آئے تھے جو بیچارہ زمین و آسمان کے درمیان ہی معلق ہے۔ اُس منصوبے کی بابت بھی بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے، منصوبے کی تکمیل کے لیے ایک اتھارٹی بھی قائم کی جاچکی ہے لیکن بات ابھی ابتدائی مراحل سے ہی آگے نہیں بڑھ پائی۔ اِس پر پھر کسی وقت بات کریں گے کہ فی الحال مقصد والٹن ایئرپورٹ کے حوالے سے بات کرنا ہے۔ گویا اب یہ طے ہوا کہ خطے میں ہوابازی کی تاریخ کا ایک اہم باب قصہ پارینہ ہوا۔ یہ خدشہ حقیقت کا روپ دھار گیا کہ لاہور کی تاریخ کا ایک اہم ترین نقش اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہ تحریر اِسی کے نام کرتے ہیں کہ طویل عرصے تک ہماری خدمت کرنے والے اِس مقام کا اتنا حق تو بنتا ہے۔
والٹن ایئر پورٹ کے قیام کا ڈول 1918ء میں ڈالا گیا تھا۔ تب پنجاب کے وزیربلدیات گوکل چند نارنگ کے توسط سے ہوابازوں کے ایک گروپ نے لاہور میں فضائی پٹی تعمیر کرنے کی درخواست دی تھی۔صرف دوسالوں میں ہی درخواست کا نتیجہ نکلا اور ہوابازوں کے اِس گروپ کو کوٹ لکھپت کے قریب 158 ایکڑزمین الاٹ کردی گئی۔ فضائی پٹی کی تعمیر مکمل ہوئی اور پھر اِس پر پروازوں کا آغاز بھی ہوگیا۔ جلد ہی ڈاک کی ترسیل، پائلٹس کی تربیت اور تفریحی پروازوں کے سلسلے کا بھی آغاز کردیا گیا۔ اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے چل کر یہ چھوٹا سا ایئرپورٹ خطے کی ہوابازی کی تاریخ کا اہم مرکز بنے گا، پھر ایسا ہی ہوا۔ 1932ء میں ناردرن انڈین فلائنگ کلب کوباقاعدہ کمپنی کا درجہ دے دیا گیا جس کے بعد یہاں ہوابازی کے شعبے میں حیرت انگیز تیزی سے ترقی ہوئی۔ 1935ء میں فضائی پٹی کو والٹن ایئرپورٹ کا نام دے دیا گیا۔ پہلی ہندوستانی خاتون پائلٹ سرلا ٹھاکرال نے بھی اپنی پہلی پرواز اِسی ایئرپورٹ سے بھری تھی۔ کافی عرصہ پہلے ہمیں اِس ایئرپورٹ کے آرکائیو میں موجود کچھ تصاویر دیکھنے کا موقع ملا تو اِ ن میں سرلا کی تصویر بہت نمایاں تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ تصویر اُن کی پہلی پرواز کے فوراً بعد اُتاری گئی تھی۔ کچھ ایسی تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں جن میں پرانے لاہور کی جھلکیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اب تو وہ لاہور خواب وخیال ہی بن کر رہ گیا ہے۔ جس طرف دیکھیں بس بے ہنگم ٹریفک اور کنکریٹ کا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو والٹن سے اُڑان بھرنے والی تمام سویلین پروازوں کو معطل کرکے ایئرپورٹ کو صرف عسکری کارروائیوں کیلئے مخصوص کردیا گیا۔
لاہور کے حسین نقش کا دوسرا باب تقسیم ہند کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب قائد اعظم پاکستان پہنچے تو اُن کا طیارہ اِسی ایئرپورٹ پر اُترا تھا۔ اِس تاریخی موقع کی تصاویر بھی ایئرپورٹ کے آرکائیو میں محفوظ تھیں جن میں قائد اعظم اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ دکھائی دیے۔ ہندوستان سے لٹے پٹے قافلے لاہور پہنچنا شروع ہوئے تو والٹن ایئرپورٹ نے اُ ن کے لیے بھی اپنے بازو کھول دیے۔عارضی پناہ گزین کیمپ ختم ہوا تو ایئرپورٹ پھر سے آپریشنل ہوگیا جس میں بنیادی کردار اورینٹ ایئرویز کا رہا۔ اِس ایئرلائن کا قیام تقسیم ہند سے تقریباً ایک سال قبل کلکتہ میں عمل میں آچکا تھا۔ پاکستان قائم ہوا تو اورینٹ ایئرویز نے اپنا آپریشن لاہور منتقل کرلیا۔ 1949ء میں یہاں سے پہلی پاکستانی حج پرواز سعودی عرب گئی۔ غالباً 1955میں ایک سرکاری حکمنامے کے تحت اورینٹ ایئرویز کو قومی ایئرلائن میں ضم کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں قومی ایئرلائن وجود میں آگئی۔ قومی ایئرلائن میں بڑے طیارے شامل ہوئے تو والٹن ایئرپورٹ چھوٹا پڑنے لگا،اِسی باعث 1962ء میں کینٹ میں نئے ایئرپورٹ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد تمام فلائٹ آپریشن وہاں منتقل کردیا گیا اور والٹن ایئرپورٹ جنرل ایوی ایشن کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ اِس ایئرپورٹ کو بھارت کے ساتھ ہونے والی دونوں بڑی جنگوں کے دوران اہم کردار ادا کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ افواجِ پاکستان نے اِس ہوائی اڈے کو متعدد آپریشنز کے لیے استعمال کیا۔ گاہے گاہے اِس ایئرپورٹ کو فصلوں پر سپرے کرنے یا پھر دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا جس کے بعد یہ زیادہ تر تربیتی مقاصد کے لیے ہی مخصوص ہوکر رہ گیا۔ یہاں قائم فلائنگ کلبوں سے ہزاروں پائلٹس تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ نئے منصوبے کے آغاز سے پہلے تک یہ سلسلہ جاری تھا‘ جو یقینا اب تھم جائے گا۔یہ تھی لاہور کے والٹن ایئرپورٹ کی مختصر سی کہانی جو اس سفر کے دوران سکڑتا سکڑتا اپنا بہت سا رقبہ کھو چکا ہے۔ خدشہ تھا کہ رہا سہا ایئرپورٹ بہت جلد اپنے اردگرد موجود رہائشی منصوبوں کی زد میں آجائے گا لیکن اِس کے بجائے یہ اب کاروباری شہر بنے گا۔ گویا کان اِدھر سے نہیں تو اُدھر سے پکڑ لیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ واقع اتنا قیمتی قطعہ اراضی زیادہ دیر تک کیونکر حریص نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا تھا۔
اب یہ کسی کو معلوم نہیں کہ یہاں جوفلائنگ کلب موجود ہیں، اُن کا کیا بنے گا۔ یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے پائلٹس کا نیا ٹھکانہ کون سا ہوگا؟اِس ایئرپورٹ کے اردگرد جو ایک چھوٹا سا جنگل موجود ہے‘ اب وہ بھی کٹ جائے گا، گویا ایک طرف درخت لگانے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف اِنہیں کاٹنے کا۔ یہ سچ ہے کہ کاروباری سرگرمیاں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سب کچھ صرف کاروبار کے لیے نہیں ہوتالیکن ہماری تو کوئی کل سیدھی ہی نہیں۔ خیرحکومتوں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں جن پر بات کرنا اپنے ہی وقت کے ضیاع کے مترادف ہے لیکن حکومت کو والٹن ایئرپورٹ پر جاری سرگرمیوں کے حوالے سے بھی متبادل منصوبہ تشکیل دینا چاہیے۔ فلائنگ کلبوں کے لیے متبادل منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس کہ ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ یقینا یہ اچھی صورت حال نہیں۔ بہرحال آج کے کالم کا مقصد محض اتنا تھا کہ والٹن ایئرپورٹ کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ تاریخ کے اِس مٹتے ہوئے نقش کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے کہ اِس مقام کا ہماری تاریخ میں کیا کردار رہا ہے اور کیسے اب اِسے کاروباری مقاصد کے لیے ختم کیا جارہا ہے۔ شاید ریورراوی اربن پروجیکٹ لٹک جانے کے بعد حکومت اپنے لیے کسی اور بڑے میگا پروجیکٹ کی ضرورت محسوس کررہی تھی جس کے لیے اُس کی نظر والٹن ایئرپورٹ پر جا پڑی۔ اب معلوم نہیں کہ اِسے والٹن ایئرپورٹ کی بدقسمتی قرار دیا جائے یا پھر لاہور کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں