"FBC" (space) message & send to 7575

قول و فعل کا تضاد

ہم کس مٹی سے بنے ہیں کہ ہماری کوئی بھی کل سیدھی ہونے میں ہی نہیں آتی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس روز دل دکھا دینے والی کوئی نئی صورتِ حال سامنے نہیں آتی۔ کوئی لمحہ ایسا نصیب نہیں ہوتا جو اپنے ساتھ خوشی کے کچھ پل لے کر آئے۔ بس اخلاقیات کے درس ہیں جو دن رات ہمارے کانوں میں اُنڈیلے جارہے ہیں۔ یہ درس دینے والے بعد میں خود جھوٹ، دھوکے، دھونس اور فریب میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔بے شک نیتوں کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ ہم تو بس بندوں کے قول و فعل کو دیکھ کر ہی اندازہ قائم کر سکتے ہیں کہ کون کیا کررہا ہے۔ عجب ہے کہ ایک وقت میں ایک عمل کو انتہائی برا قرار دینے والا اگلے ہی لمحے وہی عمل خود کررہا ہوتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کوئی برا عمل کرنے کے بعد اُس کی ایسی ایسی توجیہات پیش کی جاتی ہیں کہ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ دوطرفہ طور پر جاری یہ چلن تو جیسے ہماری جڑوں تک میں سرایت کرچکا ہے۔ وہ جو سینیٹ انتخابات میں یوسف رضاگیلانی کی جیت پر گرج برس رہے تھے، اب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ گیلانی صاحب کو کامیاب کرانے والوں نے اخلاقیات کا کوئی پاس رکھا نہ ہی چیئرمین کے انتخاب میں اُنہیں ہرانے والوں کے نزدیک اخلاقیات کسی اہمیت کی حامل ٹھہریں۔ دومختلف مواقع پر دونوں قوتوں نے ایک ہی عمل دہرایا اور پھر اِس کے حق میں اپنی اپنی بولیاں بھی سنائیں۔ سینیٹ انتخابات میں حکومت کی اُمیدوں کے برعکس اسلام آباد کی سیٹ سے حفیظ شیخ ہارے تو وزیراعظم نے اس کی ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال دی، حکومت نے الیکشن کمیشن کے ممبران سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا، ایسا اس کے باوجود ہوا کہ وزیراعظم خود اپوزیشن کو ادارو ں کے احترام کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔
مختصراً کچھ اقوال زریں آپ کی نذر ہیں: ''الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا،سینیٹ انتخابات میں کروڑوں روپے دے کر ووٹ خریدے گئے، صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے، سینیٹ الیکشن کا سیکرٹ بیلٹ سے انعقاد جمہوری عمل کے لیے تباہ کن ہے، جب کوئی رشوت دے کر سینیٹربن رہا ہو اور اراکین اسمبلی اپنا ضمیر بیچ رہے ہوں تو اِس پریکٹس کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جب سے ہماری حکومت آئی ہے تو کرپٹ لوگوں کو خوف لاحق ہوگیا ہے، جب سے سیاست میں پیسہ چلنا شروع ہوا ہے تب سے ملک نیچے جانا شروع ہوگیا ہے، میں مقابلہ کرنا جانتا ہوں، یہ جو مرضی کرلیں‘ این آر او نہیں دیا جائے گا، اداروں کی مضبوطی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ وزیراعظم صاحب کے اِسی بیانیے کو لے کر اُن کے مشیروں اور وزرا کی فوج نے وہ اودھم مچایا کہ خدا کی پناہ۔ نہیں دہرائیں تو وہ باتیں نہیں دہرائیں جوموجودہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے 2018ء میں سینیٹر بنتے وقت سامنے آئی تھیں۔ یہاں اُن حقائق کو بیان کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی جو 2019ء میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے دوران سامنے آئے تھے۔ دونوں مواقع پر اپوزیشن واضح اکثریت میں ہونے کے باوجود نہ تو چوہدری سرور کو سینیٹر بننے سے روک سکی تھی اور نہ ہی صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا سکی تھی۔ تب اِن کامیابیوں پر بھرپور جشن منایا گیا تھا۔
دوسری طرف یہی سب کچھ اپوزیشن یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کرانے کے لیے کرتی رہی ہے۔جب حکومت کے ووٹ زیادہ ہونے کے باوجود حکومتی اُمیدوار حفیظ شیخ شکست کھا گئے تو اپوزیشن نے بھی خوب جشن منایا تھا۔ تب اِس عمل کو ''ضمیر کی آواز‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ مریم نواز صاحبہ نے فرمایا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی فتح میں نون لیگ کا ٹکٹ چلا ہے۔ اُن کے کہنے کا مطلب صاف تھا کہ تحریک انصاف کے بعض اراکین نے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دیے جانے کے وعدے پر یوسف رضا گیلانی کوووٹ دیا ہے۔ وائے قسمت کہ کتنے فخر سے بتایا جارہا تھا کہ کون کون سے حربے آزما کر یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کرایا گیا۔ اب پتے اُلٹے پڑے ہیں تو اپوزیشن کو بھی آئین، اخلاقیات اور قانون یاد آرہے ہیں۔
دراصل حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے مابین مقابلے کے دوران حکومت کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار نظر آ رہی تھی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پورے وثوق سے وزیراعظم کو یقین دلایا تھا کہ حفیظ شیخ کسی صورت نہیں ہاریں گے۔اپنے کئی بیانات میں بھی شیخ رشید احمد یہ کہہ چکے تھے کہ حفیظ شیخ کی فتح یقینی ہے۔ بتانے والوں کا بتانا ہے کہ جس میٹنگ کے دوران یہ بحث ہورہی تھی اُسی میں خسروبختیار صاحب نے بھی شیخ رشید کے موقف کی تائید کی اور حکومتی اُمیدوار کی فتح کو یقینی بتایا۔ ذرائع کے مطابق‘ صرف قاف لیگ کے طارق بشیر چیمہ نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کو کمزوراُمیدوار مت گردانا جائے لیکن حکومت اپنی فتح کے حوالے سے پُرامید رہی اور الیکشن کے وقت تک حفیظ شیخ کی کامیابی کے دعوے کرتی رہی اور اِنہی چکروں میں یوسف رضا گیلانی معرکہ مار گئے مگر جس وقت چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو حکومت پوری طرح سے تیار تھی، اِس انتخاب میں یقینی کامیابی حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی تمام ہوم ورک کرلیا گیا تھا لیکن وہ کچھ بھی سامنے آیا‘ جو مزید افسوسناک ٹھہرا۔
شاید یہی کسر باقی رہ گئی تھی کہ ووٹ ڈالنے والوں کی خفیہ کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے۔ یہ کسی یونین کونسل کے چیئرمین کا انتخاب نہیں ہورہا تھا‘یہ ملک کے سب سے اونچے ایوان کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا موقع تھا‘ وہ ایوان جہاں ملک کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں، جہاں ہونے والی ایک ایک حرکت پر پوری دنیا کی نظریں ٹکی ہوتی ہیں۔اب اِس کی مختلف تاویلات پیش کی جارہی ہیں جبکہ حسبِ روایت حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو اِس پر موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے۔ سب کو یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ اس حوالے سے تمام تر ذمہ داری حکومت ہی کی تھی اور اسی کی طرف زیادہ انگلیاں بھی اُٹھ رہی ہیں لیکن حکومتی زعما ایسی ایسی تاویلات پیش کررہے ہیں کہ عقل و فہم کے کسی پیمانے پر پوری نہیں اترتیں۔ اب چھ رکنی کمیٹی اِس تمام معاملے کی چھان بین کرے گی دوسری طرف اپوزیشن اپنے سات ووٹوں کے مسترد کیے جانے کا معاملہ عدالت میں لے جانے کا اعلان کرچکی ہے۔گویا یہ قسط ابھی مزید کچھ عرصہ تک چلے گی‘ شاید تب تک جب تک کسی دوسرے معاملے پر کوئی ایسا ہی ہنگامہ نہیں برپا ہو جاتا۔ ہمارے ہاں ویسے بھی ایسے سیاسی ہنگاموں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے اور پہلے والا عوام کے ذہنوں سے محو ہوجاتا ہے۔
اس ساری بات کا مقصدصرف اپنے رہنماؤں سے یہ اپیل کرنا ہے کہ براہِ کرام ہم عوام کو اخلاقیات کے مزید درس مت دیں۔ عام آدمی کو مت کہیں کہ ناپ تول پورا رکھے یا جھوٹ بولنے سے گریز کرے۔قانون اور آئین کی بالادستی کی باتیں تب درست لگتی ہیں جب آپ خود ان پر عمل کرتے ہوں۔ قول و فعل میں تضاد کے ساتھ آپ کسی دوسرے کی رہنمائی نہیں کر سکتے۔ آپ اپنی اُلجھنیں سنواریں اور عوام کو اپنے مسائل سے نمٹنے دیں۔ یقین جانیے کہ عوام اخلاقیات کے بارے میں آپ سے زیادہ جانتے ہیں اور شاید آپ سے زیادہ عمل بھی کرتے ہیں۔ اِس لیے کہ ہم عوام صورتِ حال کو براہِ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد کوئی وزیر، مشیر، معاونین اور افسر شاہی اور ان جیسی دوسری شخصیات کا ٹولہ نہیں ہوتا۔ اُمید ہے عوام کی درخواست پر نیک نیتی سے نہ صرف غور کیا جائے گا بلکہ شرفِ قبولیت بھی بخشا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں