"FBC" (space) message & send to 7575

ہوش کے ناخن لیں

میدانِ سیاست میں نفرت آمیز رویوں کے نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ قوی خدشات ہیں کہ آنے والے دنوں میں قوم مخالفین کو لتاڑے جانے کے مزید مناظر ملاحظہ کرے گی۔وہ وقت تو عرصہ ہوا لد چکا کہ جب سیاسی مخالفین‘ مخالفت میں بھی روادری کے اصولوں کی پاسداری کرتے تھے۔آج کل میدانِ سیاست کے حالات دیکھ کر تو بے اختیار نواب زادہ نصراللہ مرحوم یاد آجاتے ہیں۔تقریباً تمام عمر اپوزیشن کی سیاست کی لیکن مجال ہے جو کبھی مخالفین کے لیے نازیبا الفاظ کا سہارا لیا ہو۔ یہ کل کی بات لگتی ہے جب اُن سے کلسن روڈ پر واقع اُن کے دفتر میں ہماری آخری ملاقات ہوئی تھی۔ تقریباً آدھ گھنٹے کی اِس ملاقات کے دوران اُنہوں نے تب کے ملکی سیاسی حالات پر مفصل روشنی ڈالی۔ ہم کہ ٹھہرے طفلِ مکتب‘ لیکن پھر بھی وقت رخصت بمشکل کھڑ ے ہوکر انہوں نے ہمیں الوادع کہا۔ ہم نے عرض بھی کی کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے‘ بیٹھے رہیں لیکن مسکرا کربولے کہ میاں کیوں مجھے بوڑھے ہوجانے کا احساس دلا رہے ہو، ویسے بھی گھر آئے مہمان کی رخصتی کے تقاضوں کو پورا کرنا لازم ہے۔سچی بات ہے کہ اُن کے بعد کوئی ایسا سیاستدان نظروں سے نہیں گزرا جو اُن جیسی وضع داری کا امین دکھائی دے۔ مجال ہے کسی آمر کے سامنے جھکے ہوں یا کسی جمہوری حکمران کے غیر جمہوری اقدامات کی حمایت کی ہو۔ 1930ء میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اورتادمِ مرگ میدانِ سیاست کے ایسے شہسوار رہے جس کے بغیر کسی سیاسی سرگرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔بہرحال اختلافات کی گنجائش تو ہرجگہ موجود رہتی ہے لیکن جو کچھ آج ہورہا ہے، اِس کا گزرے وقتوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔دل ڈر رہا ہے‘ معلوم نہیں کہ ہم کون سی ٹرین میں سوار ہوگئے ہیں جو کھینچا تانی، گالم گلوچ اور سیاسی مخالفین پر حملوں کی پٹری پر بگٹٹ بھاگی چلی جارہی ہے۔
جب کنٹینرز پر کھڑے ہوکرنفرتوں کے بیج بوئے جارہے تھے تو تبھی صاحبانِ علم و دانش کے کان کھڑے ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یہ آرا سامنے آنے لگی تھیں کہ یہ سب کچھ معاشرے میں مزید افراتفری کا باعث بنے گا۔ اِن خدشات کا اظہار ہونے لگا تھا کہ چند سالوں کے اندر اندر یہ سب ملک کو مزید تنزلی کی طرف لے جائے گا۔ کیا آج یہ خدشات سچ ثابت نہیں ہو رہے؟کیا یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہوچکی کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہ گئے۔ جو کچھ چند روز قبل اسلام آباد میں احسن اقبال، مصدق ملک اور مریم اورنگزیب کے ساتھ ہوا، اُس کے بعد بیشتر صورتوں میں یہ اُمید تھی کہ اِس واقعے کا اعلیٰ حکومتی سطح پر نوٹس لیا جائے گا۔ کارکنوں کو سمجھایا جائے گا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن آئندہ ایسے واقعات برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ بعض احباب تو یہ توقع بھی کررہے تھے کہ خود وزیراعظم ہاؤس سے بھی واقعہ کی مذمت کی جائے گی‘ افسوس کہ ایسی کوئی توقع پوری نہ ہوسکی۔ مزید افسوس اِس بات پر ہوا کہ بیشتر حکومتی حلقوں کی طرف سے دبی دبی خوشی کا اظہار سامنے آیا۔ یہاں یہ بھی ثابت ہوا کہ سیاسی کارکن‘ سیاسی کارکن ہی ہوتا ہے جس کا ثبوت شیخ رشید صاحب نے دیا۔ شیخ صاحب سے لاکھ اختلافات‘ لیکن اُن کی طرف سے مسلم لیگی رہنماؤں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے کی کھلی مذمت کی گئی۔ دوسری طرف غیرمنتخب افراد کا طرزِ عمل ملاحظہ کیجئے کہ وزیراعظم کے ایک معاونِ خصوصی یہ 'کارنامہ‘ سر انجام دینے والوں کے درمیان پہنچ گئے۔لگے ہاتھوں موصوف نے ایک ٹویٹ بھی داغ دیا کہ ایسے کارکن ہماری طاقت ہیں۔ ظاہر ہے اِس صورتحال پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں خود لاہور ہائیکورٹ میں وہ ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوئے ۔فرق صرف یہ رہا کہ ان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا ۔ اِن واقعات کے تسلسل میں تازہ اضافہ پشاو ر ہائیکورٹ میں کیپٹن (ر) محمد صفدر پر انڈے پھینکنے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر ہم کرنا کیا چاہ رہے ہیں؟ملک و قوم کو کس طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ عام آدمی پوری طرح سے مسائل کے گرداب میں گِھر چکا ہے، ملکی معیشت دگرگوں ہوچکی ہے، مہنگائی کا عفریت ہرجگہ ناچتا پھر رہا ہے، ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران متعدد مواقع پر رلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، کئی مرتبہ ایسے بھی ہوا کہ لوگوں کو ادویات خریدے بغیر ہی فارمیسی سے باہر نکلتے دیکھا۔ حد تو یہ کہ کینسر کے مریضوں کی ادویات بھی بند کر دی گئی ہیں۔اب حکومت یہ دعویٰ تو کررہی ہے کہ کینسر کے مریضوں کو ادویات کی فراہمی کا سلسلہ بحال کردیا گیا ہے لیکن...مفت ڈائلیسزکا سلسلہ بھی ختم کیا جاچکا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے صرف کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ کاشتکاروں کو دیکھیں تو اُن کے الگ رونے ہیں‘ ہرجگہ وہ اپنی بربادی کی داستانیں سناتے نظر آتے ہیں۔ کاروباری طبقے کی پریشانیاں اپنی جگہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ اِن حالات میں بھی ہمارے رہنماؤں کے اپنے ہی مسئلے ہیں۔ معلوم نہیں حکومت کیوں یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مخالفین پر الزامات عائد کرنا اور احتجاج کرنا اپوزیشن کا کام ہوتا ہے۔ یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اب حکومت کی جانب سے ایک آئینی ادارے کے خلاف منفی مہم چلائی جارہی ہے جس کا چلایا جانا عقل سے ماورا ہے۔ اگر آپ انتخابات کے طریقۂ کار میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو اِس کے لیے قانون کے مطابق اقدامات کریں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ فلاں نے ہماری بات نہیں مانی تو اب اُس کے لیے بہتر ہے کہ وہ گھر چلا جائے۔
ان حالات میں صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ کسی طرح سے حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو عقل آجائے اور دونوں عوام کے مسائل پر توجہ مرکوز کریں۔ یقینا اِس حوالے سے حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ملکی حالات کے بارے میں جوابدہی کا زیادہ بوجھ حکومتی کاندھوں پر ہے۔ جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے اُس کا جواب حکومت کو ہی دینا ہوتا ہے۔تین سال ہونے کو آئے ہیں لیکن مسائل کا حل تو ایک طرف‘ اِس کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے ۔آجا کے بیانات کا ایک سلسلہ ہے جو دراز ہوتا چلا جارہا ہے لیکن بات عمل تک نہیں پہنچ رہی۔ ہرروز یہ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کو مہنگائی سے پیدا ہونے والی مشکلات کا احساس ہے، حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے، ملک ٹیک آف پوزیشن میں آچکا ہے مگر عام آدمی کی مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔
حکومت کی تان صرف اس پر ٹوٹتی ہے کہ لٹیروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ ''لیٹرے‘‘ ہاتھ آرہے ہیں نہ مسائل حل ہو پارہے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ مخالفین کے لیے جو تند بیانات کا سلسلہ ہے‘ وہ الگ ستم ڈھا رہا ہے۔ ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ اگر بادشاہ ایک سیب مفت میں توڑ لے تو اس کا لشکر باغ اُجاڑ دیتا ہے۔ اب اگر حاکمانِ وقت اپنے الفاظ کی ادائیگی سے پہلے اُن پر غور نہیں کریں گے تو پھر پیروکاروں کو کیا پڑی کہ وہ بولنے سے پہلے اپنے الفاظ کو تولیں۔ یہ اثرات اب نیچے تک پہنچ چکے ہیں جس کے بعد اب مخالفین پر جسمانی حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ کیا آج متعدد مشیروں کا یہی کام نہیں کہ وہ دن رات مخالفین کے لتے لیتے رہیں؟ اِن حالات میں بہتری کی گنجائش کیسے پیدا ہو گی؟ حکومت کو اپنے طرزِ عمل پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ عوام تو صرف درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ خدارا! ہوش کے ناخن لیں۔ دوسروں پر صرف ہونے والی توانائیوں کا عوامی مسائل پر خرچ کیا جانا کہیں زیادہ بہتر نتائج سامنے لا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں