"FBC" (space) message & send to 7575

ہم وقت کی تاریخ کے ہیں باب

شاہ جہاں کے تعمیر کردہ شالامارباغ میں واقع ولیم مورکرافٹ پویلین کی تقریبِ بحالی میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تو ساتھ ہی گویا یادوں کی برات بھی اُتر آئی۔ پہلے محکمۂ آثارِ قدیمہ کے احباب اور پھر سیکرٹری ٹورازم کی طرف سے تقریب میں شرکت کی تاکیدِ خاص تھی۔ ایک تو اپنی پسندیدہ جگہ پر جانے کا موقع اور پھر خاص تلقین ‘ لہٰذا جاتے ہی بن پڑی۔ دوسرے اِس کی وجہ یہ بھی رہی کہ ولیم مورکرافٹ پویلین کو ہم باہر سے تو درجنوں بار دیکھ چکے تھے لیکن جب کبھی بھی باغ کے اندر گئے تو اِسے بند ہی پایا۔ اب اِسے اندر سے بھی دیکھنے کا موقع مل رہا تھا تو پھر نہ جانے کی کوئی وجہ ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ یوں بھی شالامارباغ سے تو ہماری بچپن کی یاری ہے جس کے باعث یہ ہمیشہ ہمارے خیالوں میں بسا رہتا ہے۔ وجہ اِس کی بہت سیدھی ہے کہ ایک تو ہماری رہائش اُس وقت اِس باغ کے قریب ہی واقع تھی اور پھر تعلیم کا سلسلہ بھی اِسی علاقے میں جاری رہا۔ اُس دوران جو اِس باغ سے عشق ہوا‘ آج تک وہ سحر ٹوٹ نہیں سکا ہے۔ درجنوں نہیں بلکہ کسی مبالغہ کے بغیر‘ہم سینکڑوں مرتبہ شالامار باغ جا چکے ہیں۔ سچی بات ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کو بھی بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے ہمارے لیے خوب صورت شاہکار چھوڑے ہیں۔ زمانہ طالب علمی کے دوران ایک مسئلہ یہ بھی درپیش رہتا تھا کہ اکثر جیب خالی رہتی تھی جس کے باعث ٹکٹ خریدنا مسئلہ تھا‘ اِسی باعث کھوج لگایا گیاکہ باغ کی پچھلی طرف واقع ایک نرسری کے اندر بھی باغ میں داخل ہونے کا ایک چھوٹا سا دروازہ موجود ہے۔ جب جیب میں پیسے نہ ہوتے تو نرسری میں موجود احباب کی منت کرکے اُس چھوٹے راستے سے باغ میں داخل ہوجاتے۔ اس وقت یہ ہماری شاندار عیاشی ہوتی تھی کہ ہم ٹکٹ کے بغیر باغ کی سیر کرکے آئے ہیں۔ اُس کے بعد بھی باغ میں جانے کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا اور اب ایک مرتبہ پھر ولیم مورکرافٹ پویلین کی تقریبِ بحالی میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے۔
لگے ہاتھوں ولیم مورکرافٹ کا تذکرہ بھی ہوجائے جو 1908ء میں انگلینڈ سے کولکتہ پہنچا تھا،ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کرتے ہوئے وہ لاہور پہنچاتو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار تک رسائی حاصل ہوگئی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اُس کے لیے شالامارباغ کے پہلے تختے پر دومنزلہ چھوٹی سی عمارت تعمیر کرادی۔ ولیم مورکرافٹ کی خواہش تھی کہ وہ کسی پُرسکون جگہ پر بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرے جس کے نتیجے میں یہ عمارت وجود میں آئی۔ پوری عمارت مٹی اور چونے سے بنی ہے جس کی اوپر والی منزل کا طرز تعمیر تو زیادہ متاثر کن نہیں ہے لیکن نچلی منزل میں پہنچ کر بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت اونچی چھت اور مٹی اور چونے سے بنی ہوئی‘ اِس کی موٹی دیواریں عمارت کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھتی تھیں۔ پھر اِس کے بالکل ساتھ ایک کنواں کھدوایا گیا اور عمارت کی نچلی منزل اور کنویں کے درمیان کافی بڑی جگہ کھلی چھوڑ دی گئی۔ دوسری طرف سے بھی ہوا کے گزر کا خاص انتظام کیا گیا۔ اب جب کنویں کے پانی سے ٹکرا کر ہوا اندر داخل ہوتی ہوئی مخالف سمت سے باہر نکل جاتی تو ماحول مزید خوشگوار ہوجاتا۔ ولیم مورکرافٹ نے یہیں بیٹھ کر کچھ اپنی تحقیق مکمل کی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آپ بیتی بھی مکمل کی۔
جب ہم اِس کمرے میں داخل ہوئے تو یہاں پر کنویں کے بالکل ساتھ ایک میز کرسی پڑی ہوئی دکھائی دی۔ اِس پر بیٹھ کر وہ سب کچھ محسوس کرنے کی کوشش کیا جو ولیم موریہاں بیٹھ کر محسوس کیا کرتا تھا۔ کافی سکون محسوس ہوا۔ اِس وزٹ کے دوران یہ بھی بتایاگیا کہ شالامارباغ کے ایریگیشن نظام کو نئے سرے سے بہتر بنایا گیا ہے ‘تبھی ایک طویل عرصے کے بعد باغ کے فوارے اپنا پورا جوش او رجذبہ دکھا رہے تھے۔ سیاحت کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر آصف محمود صاحب کی ہمراہی میں باغ میں مٹر گشت کیا تو یقینی طور پراِس کا رنگ و روپ ماضی کی نسبت کافی چمکدار دکھائی دیا۔ یقین جانئے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔
خوشی اِس بات کی بھی ہورہی تھی کہ اب ہمارے ہاں تاریخی ورثے کی اہمیت کو سمجھا جارہا ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی لاہور نے تاریخی شاہی حمام کو بہت احسن انداز میں بحال کیا ہے جسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ حکیم علم الدین انصاری کا تعمیرکردہ شاہی حمام لاہور میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا۔ یہاں پر لوگ باگ آتے ، آپس میں گپ شپ لگاتے اور سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانے کا لطف اُٹھاتے تھے۔ اِس طرح کا حمام بنانے کا خیال وسطی ایشیا اور ایران سے آیا تھا جہاں ایسے حمام بکثرت موجود تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ 1635ء میں تعمیر کیے گئے اِس حمام کی حالت بھی خراب ہوتی چلی گئی لیکن اب اِس کی چمک دمک پھر سے اپنا رنگ و روپ دکھا رہی ہے۔ اِس سے تھوڑا ہی آگے سورجن سنگھ گلی کی سجاوٹ میں بھی ایک نیا انداز متعارف کرایا گیا ہے۔ ایک تو اندرونِ لاہور کی اپنی کشش اور پھر اتنی شاندار سجاوٹ، سچ میں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ چلو ہم نے اپنے اسلاف کے کام کو محفوظ کرنا تو شروع کیا۔ اِسی طرح اندرونِ لاہور میں مختلف احاطوں کی بھی نئے سرے سے تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ یہ احاطہ کلچربھی کسی زمانے میں خاصے کی ثقافت ہوا کرتا تھا۔ بیس ، پچیس گھروں کے درمیان تھوڑی سی کھلی جگہ چھوڑدی جاتی جو سب گھر وں کا مشترکہ صحن ہوا کرتی تھی۔ اکثر اوقات علاقے کے رہائشی یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے سے گپ شپ لگاتے اور یہیں پر غمی ، خوشی کی تقریبات منعقد ہوا کرتی تھی۔ اندرون شہر میں اب بھی کہیں کہیں یہ احاطے موجود ہیں جن میں سے کئی ایک کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ اندرونِ شہر میں ہی حکیم علم الدین انصاری کی تعمیر کردہ مسجد وزیرخان کے سامنے کنواں دینا ناتھ کو بھی محفوظ بنایا گیا ہے۔ کبھی دینا ناتھ کے تعمیر کردہ اِس کنویں کو شہر میں مذہبی رواداری کا استعارہ سمجھا جاتا تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں سے سبھی بلاامتیازِ مذہب پانی بھر سکتے تھے‘ بلکہ جب کبھی کسی وجہ سے مسجد میں پانی کی کمی ہوجاتی تو مسجد کو اِسی کنویں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
اِسی طرح لاہورکے دومشہور گرجا گھروں کو بھی تقریبا چھ کروڑ روپے کی لاگت سے سجایا اور سنوارا جا رہا ہے۔ اِن میں سے ایک تو 1887ء میں تعمیر ہونے والا کیتھڈرل چرچ ہے۔ گوتھک طرزِ تعمیر کا شاہکار یہ گرجا گھر شاہراہ قائد اعظم پر سٹیٹ بینک کی عمارت کے عین سامنے واقع ہے۔ انتہائی پُرشکوہ اِس عمارت کے لیے تب کے گورنر پنجاب نے بھاری رقم عطیہ کی تھی۔ اِسی طرح لارنس روڈ پر واقع سیکرڈ ہارٹ کیتھڈرل چرچ کی تزئین وآرائش کا کام بھی جاری ہے۔ یہ چرچ رومن طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ دونوں چرچ مسیحی برادری کے لیے تو مقدس ہیں ہی لیکن تاریخی ورثہ ہونے کی بنا پر ہم سب کے لیے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دونوں عمارتوں کی چکاچوند تو ویسے ہی دیکھنے والوں کو متاثر کرتی ہے اور جب یہ پھر سے سج سنور جائیں گے تو پھر تو اِن کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہوں گے۔ اُدھر شاہی قَلعے میں دنیا کی قدیم اور سب سے بڑی پینٹنگ وال کی بحالی کا کام بھی جاری ہے۔ شاہی قلعے کے شاہ برج دروازے کے بالکل ساتھ واقع یہ پینٹنگ وال تاریخ کا ایک شاندار نقش ہے۔ اگر کبھی آپ کا من براہِ راست مغل دور میں جھانکنے کو چاہے تو پھر اِس پینٹنگ وال پر بنے آرٹ کے نمونے دیکھ لیں۔ آپ کو سب معلوم ہو جائے گا کہ تب بادشاہ کیسے مشاغل سے دل بہلایا کرتے تھے، خدام کیسے ملبوسات زیب تن کیا کرتے تھے، جنگیں لڑنے اور شکار کرنے کے کیا انداز ہوا کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ یہاں اور بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے جو ہمیں تاریخ کے دھاروں پہ بہنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہیں پر مغل دور میں بنایا گیا ایک شاندار سیوریج سسٹم نہ صرف دریافت کیا گیا ہے بلکہ اِسے مکمل طور پر فعال بھی کیا جاچکا ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ تاریخی ورثے کو محفوظ کیا جارہا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ شہر میں جو تاریخی نقوش اِدھر اُدھر بکھرے پڑے ہیں اور بتدریج مٹتے چلے جارہے ہیں، وہ بھی جلد حکام کی نظروں میں آجائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں