"FBC" (space) message & send to 7575

دوکلو چینی کا سوال ہے

29 جنوری 1968ء کو ایوب خان ایک ضیافت میں شرکت کے لیے پنڈی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں پہنچے۔ بقول قدرت اللہ شہاب‘ اُس روز صدر ایوب کی چال ڈھال میں بہت پژمردگی دکھائی دے رہی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اُن کی یہ کیفیت دل میں تکلیف کے باعث تھی جو ایوانِ صدر واپس پہنچتے ہی سنگین ہو گئی ۔ صدر ایوب کو دل کا دورا پڑا تو یحییٰ خان نے ایوانِ صدر کو اپنی تحویل میں لے کر دنیا سے اُن کا رابطہ کاٹ دیا۔ ایوب خان صحت یاب ہوئے تو اُن کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو چکا تھا کہ اُن کے ساتھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ سلوک روا رکھا گیا۔ اِس احساس کے تحت اُنہوں نے اپنی بھر پور قوت کا مظاہرہ کرنے کا قصد کیا۔ اِس تمام تر صورت حال کی ایک جھلک قدرت اللہ شہاب کی اس تحریر میں نظر آتی ہے ''صحت یابی کے بعد صدر ایوب اکثر اپنی قریبی محفلوں میں یہ گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیتے تھے کہ اُنہیں بہترین ڈاکٹروں نے یقین دلایا ہے کہ اگر وہ احتیاط سے کام لیں تو مزید 20برسوں تک صدارت کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں‘‘۔ یہی وہ دن تھے جب اُنہوں نے اپنی دس سالہ عظیم حکومتی کارکردگی کا جشن منانے کا اراہ کیا۔ اِس کے لیے The great decade of Development and Reforms کا نعرہ تخلیق کیا گیا۔ اِس مقصد کے لیے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے جانے لگے۔اشتہارات میں ایوب خان کی بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ حکومت کے کارنامے بیان کیے جاتے۔ کارناموں کو اُجاگر کرنے کے لیے حکمرانوں کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جانے لگے جس کے نتیجے میں عوام میں بیزاری پیدا ہونے لگی۔ اب خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ اِسی دوران چینی کے نرخوں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔ حکومت سے بیزاری پہلے ہی عوام میں موجود تھی جس پر چینی کے نرخوں میں اضافے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف ترقی کا عظیم عشرہ منایا جارہا تھا اور دوسری طرف عوام چینی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف مظاہرے کررہے تھے۔ چاول، دالوں اور آٹے کے نرخوں میں اضافے نے اس آگ کو مزید بھڑکا دیا جس کے شعلوں نے عظیم عشرۂ ترقی کو بھی جلا کر راکھ کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اِس صورت حال کا بھرپورفائدہ اُٹھایا اور بالآخر ایوب خان کا دورِحکومت اپنے اختتام کو پہنچا۔
آج کے حکمران بھی خوب رنگ جما رہے ہیں، عوام کو مار رہے ہیں اور رونے بھی نہیں دے رہے۔حکومت کی دن رات کی محنت کے نتیجے میں مہنگائی چودہ ماہ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے۔مارچ کے مقابلے میں ماہِ اپریل کے دوران شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح 8.7فیصد سے بڑھ کر 11فیصد تک جا پہنچی ہے۔ دیہات بھی شہروں سے کہاں پیچھے رہنے والے ہیں‘ وہاں بھی مہنگائی کی شرح 9.5سے بڑھ کر 11.3فیصد تک جا پہنچی ہے۔ بہت طویل فہرست ہے کہ کس کس چیز کے نرخوں میں کتنا کتنا اضافہ ہوا ہے۔عالم یہ ہوچکا ہے کہ جہاں سے بھی کوئی معمولی سی رعایت ملنے کی توقع ہوتی ہے‘ وہاں مہنگائی کے ماروں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں۔ رمضان بازاروں اور یوٹیلٹی سٹورز کا ایک چکر لگا کردیکھ لیں‘ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔صرف دوکلو چینی کیلئے گھنٹوں قطار میں لگے رہنے والوں کو دیکھ اندازہ لگا لیجئے کہ کیا حال ہوچکا ہے۔ اس پر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اڑھائی سالوں کے دوران پہلی مرتبہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں ہے، کسان خوشحال ہوئے ہیں، معیشت ترقی کررہی ہے اور اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے۔ کوئی نوید دیتا ہے کہ وسائل کا رخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ جانے والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں صرف مخصوص علاقوں میں ہی ترقیاتی کام کرائے گئے تھے اور جنوبی پنجاب کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا تھا‘ موجودہ دورِ حکومت میں پسماندہ علاقوں میں بھی تیزی سے ترقی کا سفر شروع ہوگیا ہے۔ مختصراً یہ کہ بس قوم یہ چند روز ''اوکھے‘ سوکھے‘‘ ہوکر گزار لے‘ اس کے بعد ہرطرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا بھی ہے اور خواہش بھی‘ کہ کاش ایسا ہی ہو لیکن برا ہو اشیائے خورونوش خصوصاً چینی کے لیے لگی ہوئی قطاروں کا‘ جو کچوکے لگا رہی ہیں۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے یوٹیلٹی سٹورز کے باہر صرف دوکلو چینی حاصل کرنے والی خواتین کو باہم دست و گریبان دیکھا ہے۔ بھلا کیوں؟اِس لیے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر چینی عام مارکیٹ کے نرخ 85 روپے کلو کے بجائے 20 روپے کی رعایت کے ساتھ 65 روپے کلو میں دستیاب ہے۔اور صرف 20 روپے کی رعایت کے لیے اتنی جدوجہد اور اتنا طویل انتظار! یہاں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قطاروں میں لگنے والے یہ لوگ کتنے مجبور ہیں۔ رمضان بازاروں میں بھی چینی کے حوالے سے ایسی ہی طرح کی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ ماہِ رمضان اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن رمضان بازاروں میں لگی ہوئی چینی کی قطاروں کی طوالت کم نہیں ہوسکی۔کئی مقامات پر قطاروں میں لگی خواتین کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہوئی ہم نے خود دیکھی ہے۔ دھوپ میں کھڑے ان بوڑھے افراد کی داستانیں دلوں کو چھلنی کر دیتی ہیں جنہیں فارغ سمجھ کر چینی لینے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے۔
عام مارکیٹ میں چینی کی دستیابی کا کیا عالم ہے‘ یہ بھی سن لیجئے۔ عام مارکیٹ میں حکومت کی طرف سے چینی کے نرخ 85 روپے فی کلو مقرر ہیں لیکن یہاں بھی دیگر سامان کی خریداری کے ساتھ چند کلو چینی مل سکتی ہے۔ دوسری صورت میں آپ کو فی کلو چینی کے نرخ سو روپے سے 110روپے تک ادا کرنا ہوں گے۔اس پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ ملک لوٹنے والوں کے دور میں تو چینی 55 روپے کلو میں فروخت ہورہی تھی تو حکومتی دوست ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ البتہ یہ سچ ہے کہ حکومت نے چینی کے پس پردہ مافیاز کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ بھی حکومت کا کارنامہ ہے کہ اِس مسئلے پر مفصل تحقیقات ہوئیں اور مزید پیش رفت ہنوزجاری ہے۔ اِس پر حکومت کی تحسین کی جانی چاہیے کہ چینی رپورٹ کو پبلک بھی کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو اس سب سے کیا فائدہ ہوا؟
اِس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئے۔ حکومت کی نااہلی ایک طرف، یہ معاملہ بھی ایک لمحے کو پسِ پشت ڈال دیں کہ اِس حکومت میں بھی ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہنے والے افراد شامل ہیں اور وہ آج بھی اسی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں‘ کیا بحیثیت انسان ہمارا کوئی فرض نہیں ہے؟کیا پیسے کمانے کی ہوس کی کوئی حد ہوتی ہے یا نہیں؟کیا ہمیں اللہ تعالیٰ نے عقل سے نہیں نوازا اور صاف صاف ہماری رہنمائی نہیں فرما دی کہ خبردار!یہ کام مت کرنا۔ آج جن لوگوں نے دو‘ دوکلو چینی کے لیے اپنی ماؤں بہنوں اور بزرگوں کو قطاروں میں کھڑا کردیا ہے، کیا اُن کو اس بات کا احساس نہیں ہے؟ چینی کے نرخ 55روپے کلو سے 110روپے کلو تک پہنچ گئے اور چینی کے کاروبار سے وابستہ افراد کی گفتگو سنیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا کا درد اُن کے دل میں موجزن ہے۔ عالم یہ ہے کہ اربوں روپے سالانہ کا ٹرن اوور رکھنے والوں کو دو‘ چار کروڑ کی بے ایمانی کا موقع ملتا ہے تو وہ یہ موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایک قطاریں تو ہمیں وہ نظر آ رہی ہیں جس میں عام آدمی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے اور چند روپے کی بچت کے لیے کھڑا دکھائی دیتا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی قطاریں لگی ہوئی ہیں جن میں وہ لوگ‘ وہ مافیا کھڑا ہے جو دولت کی ہوس میں اندھا ہو چکا ہے۔ جسے آخرت کا بھی خوف نہیں‘اس پر غریب کے آنسوئوں کا کیا اثر ہو گا ، پھر بھی ہم درخواست تو کر ہی سکتے ہیں کہ دولت کی ہوس ترک کر کے ہمارے لیے زندگی کچھ تو آسان کردو، اور نہیں تو کم از کم دوکلو چینی کا حصول ہی آسان بنا دو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں