"FBC" (space) message & send to 7575

چلے ہیں کرپشن ختم کرنے

جو چیز خون کے ساتھ ساتھ رگوں میں دوڑ رہی ہواُسے ختم کرنے کے دعوے کرنا غلط بیانی کے مترادف ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک کے بعد ایک حکومت کرپشن اور بدعنوانی ختم کرنے کے دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی لیکن عملاً کیا ہوا؟عملاً یہ ہوا کہ اُس کے جانے کے بعد کرپشن کی گندگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ رشوت‘ بدعنوانی ‘ دھونس‘ دھاندلی اور ایسی ہی خرافات میں گلے گلے ڈوبے ہوئے معاشرے سے کرپشن کم از کم مستقبل قریب تک توختم نہیں ہوسکتی۔ باقی یہ ہمیشہ سے ہی سنتے آئے ہیں کہ کرشمے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بس تو پھر کسی کرشمے کی اُمید رکھیے کہ شاید ہمیں ان خرافات سے نجات حاصل ہوجائے۔ انصاف بدستور بک رہا ہے‘ تھانوں میں بے گناہوں کے خلاف پرچے درج ہورہے ہیں‘ پٹوار خانوں میں اراضی ادھر سے اُدھر ہو رہی ہے۔ ہسپتالوں میں غریب آدمی اسپرین کی گولی تک کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے۔
شہروں کی ترقی کے ذمہ دار ادارے خود ہی شہریوں کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ جیلوں میں گیٹ سے لے کر قیدیوں سے ملاقات تک قدم قدم پر رشوت کا سلسلہ بدستور چل رہا ہے۔ سرکاری دفاتر میں پہیے نہ لگنے کی صورت میں فائلیں سالوں سے دیمک کی خوراک بن رہی ہیں اور باتیں ہورہی ہیں کرپشن فری پاکستان کی۔حالت یہ ہوچکی ہے کہ کوئی بھی غلط بات سامنے آنے پر یہ سننے میں آتا ہے کہ بھئی یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے۔ دنیا کی پہلی اسلامی جمہوری مملکت۔ وہ ملک جو فراہمی انصاف میں 128 ممالک میں سے 124ویں نمبر پر ہے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اس سے انکار کے مترادف ہے۔ جھوٹ اور صرف جھوٹ ۔ جو ملک انصاف کی فراہمی میں 124ویں نمبرپر ہو ‘ وہاں کرپشن ختم کرنے کے دعوے مذاق ہی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ وہ ملک جس کے پاسپورٹ کو دیکھتے ہی اسے رکھنے والے کو الگ قطار میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ وہ ملک جہاں اوپر سے لے کر نیچے تک اکثریت حصہ بقدر جثہ وصول کررہی ہو‘ وہاں سے کرپشن ختم کرنے کی اُمید رکھنا دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ تو ہم عرصہ دراز سے جان چکے ہیں کہ ہمارے ہاں سے کم ازکم کسی کرشمے کے بغیر تو کرپشن ختم نہیں ہوسکتی لیکن بس اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وہ ملک جہاں دودھ جیسی بنیادی خوراک میں بھی ملاوٹ کا دھندہ عروج پر پہنچ چکا ہو۔ نہیں یقین آتا تو انٹرنیٹ پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک نئی رپورٹ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یہ رپورٹ واضح طور پر بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہرروز 20کروڑ لیٹر سے زائد ملاوٹ شدہ دودھ فروخت ہوتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی ایک بڑی آبادی کو کینسر کا خطرہ ہے۔ یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ دودھ بچوں کی بنیادی خوراک ہے‘ تو ظاہر سی با ت ہے کہ ملاوٹ شدہ دودھ پینے سے بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ناقص خوراک بچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہم یہ سب کچھ کرتے چلے جارہے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ بس پیسہ کمانا ہی ہماری زندگیوں کا مقصد ٹھہرا‘ لیکن ان دعوؤں کے ساتھ خوفِ خدا کے دعوے اور یہ کہنا کہ میں ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہوں کہ اپنے اعمال کا حساب کیسے دوں گا اور وغیرہ وغیرہ ... ہم یہ دعوے بھی کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے حقوق بھی سلب کرتے رہتے ہیں۔ مذہبی حضرات کیسے کیسے شاندار اور روح پرور وعظ کرتے ہیں لیکن کبھی کسی نے ان تقاریر کا کوئی اثر ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟
جب تک ہم محفل میں بیٹھے رہتے ہیں تب تک ہم پر جیسے رقت سی طاری رہتی ہے لیکن جیسے ہی محفل سے اُٹھتے ہیں تو پھر سے اپنے اپنے دھندوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کوئی جا کر دودھ میں ملاوٹ کرنا شروع کردیتا ہے۔ کوئی باسی پھل فروخت کرنے کی سعی کرنے لگتا ہے۔ کوئی کسی کا حق سلب کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردیتا ہے۔ کوئی ویکسی نیشن سینٹرز میں پیسے لے کر وہاں آنے والوں کو آسانی فراہم کرنے کا عمل شروع کردیتا ہے۔ کوئی رقم لے کر غیرقانونی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت دے دیتا ہے اور اپنی کمیشن جیب میں ڈال کر چلتا بنتا ہے۔ کوئی تھانے میں جا کر بے گناہوں کو چھتر پولا کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ جس کا زیادہ ہاتھ پڑتا ہے وہ پنڈی رنگ روڈ کو اٹک رنگ روڈ قرار دے کر 20‘22ارب روپے کا چونا لگا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بہت سے احباب اتنی سی نیکی ضرور کرتے ہیں کہ دسترخوان کھول دیتے ہیں‘ محافل منعقد کراتے ہیں اور یوں کاروبارِ زندگی چلتا رہتا ہے۔
یہ کاروبارِزندگی ایسے ہی چلتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔زیادہ دور کیا جانا ہے بس ذرا گزشتہ پونے تین سالوں پر ہی نظر دوڑا لیجئے۔ چینی سکینڈل‘ آٹا سکینڈل ‘ گندم سکینڈل ‘ پنڈی رنگ روڈ سکینڈل‘ ادویات کا سکینڈل اور معلوم نہیں دوسرے کون کون سے سکینڈل اس مختصر سے عرصے میں سامنے آچکے ہیں۔ کیا ان میں ملوث افراد غیرمسلم تھے؟کیا وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اُنہیں ایک روز اپنے کیے کا حساب دینا ہے؟کیا وہ روز ِقیامت پر یقین نہیں رکھتے؟کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ بدعنوانی سے پیسہ کمانے والے روز قیامت اِسے اپنی گردن پر لاد کر میرے سامنے پیش ہوں گے؟کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ دوسروں کی حق تلفی کرنے والے کی تب تک بخشش نہیں ہوگی جب تک کہ متاثرہ شخص اُسے معاف نہ کر دے گا؟جانتے ہیں‘ وہ سب کچھ جانتے ہیں لیکن اس پر یقین نہیں ہے۔
مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کہا کرتے تھے کہ اب ہم صاحب ِایمان نہیں بلکہ صرف صاحبِ عقیدہ رہ گئے ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ بن چکا ہے کہ کچھ حساب کتاب کے بعد ہم سب نے بخشے تو جانا ہی ہے تو پھر کیوں ناں اپنی زندگی کو پرآسائش بنا لیا جائے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے دنیاوی قوانین کو مضبوط کرنے کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ اگر جرم کرنے والے کو یہ یقین ہو کہ اُسے دنیا میں بھی اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا تو کیا وہ دیدہ دلیری سے غلط کام کرسکتا ہے؟ ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسریاد آرہے ہیں جن پر 1997ء میں تقریباً تین سو ارب روپے کی کرپشن کا الزام تھا۔ اس پیسے سے وہ امریکہ میں شاندار زندگی گزار رہے تھے لیکن پاکستان میں اُن کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔اسی دوران امریکہ میں اینٹی کرپشن کے قوانین پاس ہوگئے کہ کوئی بھی شخص اگر اپنے ملک میں بدعنوانی کرکے آئے گا تو اُسے نہ صرف یہ کہ امریکہ میں رہائش نہیں ملے گی بلکہ وہ گرفتار بھی ہوگا اور اُس پر مقدمہ بھی درج ہوگا۔ ان قوانین کی روشنی میں امریکہ نے 17اپریل 2001ء کو اُن صاحب کے خلاف مقدمہ دائر کرکے اُنہیں آسٹن سے گرفتار کرلیا۔
جیل میں انہیں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا۔ عام قیدیوں جیسا لباس اور اُنہی جیسی سہولیات فراہم کی گئیں۔ ہتھکڑی پہنا کر عدالت میں پیش کیا جاتا اور ویسا ہی سلوک کیا جاتا جو عام قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ موصوف مختصر عرصے تک ہی یہ سب کچھ برداشت کرسکے جس کے بعداُنہوں نے درخواست کی کہ اُنہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان واپس بھیج دیاجائے۔امریکی جج نے یہ درخواست منظور کرلی جس کے بعد قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اُنہیں ہتھکڑی سمیت جہاز میں سوار کردیا گیا۔ جب تک یہ جہاز امریکہ سمیت دوسرے ممالک کی حدود میں رہا موصوف ہتھکڑی میں جکڑے رہے۔ جیسے ہی جہاز ملکی حدود میں داخل ہوا تو اُن کی ہتھکڑی کھول دی گئی۔ ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج سے باہر لانے کے بعد اُنہیں ایک شاندار گاڑی میں پورے پروٹوکول کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں منتقل کردیا گیا جسے خصوصی طور پر سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ اس دوران وہ تفتیش کاروں کے پاس نہیں جاتے تھے بلکہ تفتیش کار ان کے پاس آتے تھے۔ پھر کیا ہوا؟پھر یہ ہوا کہ اُنہوں نے اپنی لوٹی ہوئی دولت کا 25فیصد سرکار کو دینے کی پیش کش کی ۔ تب کے صدر صاحب نے اُن کی یہ شاہانہ آفر منظور کرلی اور یوں 25فیصد کی ادائیگی کے بعد وہ صاحب باقی 75فیصد دولت کے ساتھ مرتے دم تک شاہانہ زندگی بسر کرتے رہے اور اُنہیں پروٹوکول بھی ملتا رہا۔
یعنی ایک غیر مسلم ملک میں وہ شخص اپنی زندگی کے مشکل ترین دن بسر کرتا رہا لیکن اسلامی جمہوریہ میں قدم رکھنے کی دیر تھی کہ اُن کی دنیا ہی بد ل گئی جہاں وہ شاندار زندگی بسر کرتے رہے۔ یہ توصرف ایک مثال ہے ورنہ تو آپ خود سمجھدار ہیں۔ یوں بھی جو پکڑا جائے چور وہی ہوتا ہے اور جو نہ پکڑا جائے وہ سعد ہی رہتا ہے۔ یہ ہمارے حال ہیں اور باتیں ہم ملک کو کرپشن فری بنانے کی کرتے ہیں۔ بند کریں عوام کو بے وقوف بنانا ۔ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ بے ایمانی کو بھی کوئی قانونی شکل دینے کی سعی کریں کہ کم از کم اس کا قانونی طور پر کوئی تناسب مقرر ہوجائے گا تو زندگی کسی حد تک آسان ہوجائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں