"FBC" (space) message & send to 7575

ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن اور معاشرتی امن

سندھ میں ڈاکوؤں کے بدنامِ زمانہ گروپوں کے خلاف صدی کا سب سے بڑا آپریشن جاری ہے۔ جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع میں بھی ڈاکوؤں کو ختم کرنے کی سعی جاری ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں ڈاکوؤں کے دیگر فعال گینگز کو بھی ختم کردیا جائے۔ یقینا یہ بہت اچھی کاوشیں ہیں جنہیں کامیاب بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ سندھ میں حالیہ معاملے نے تب سر اُٹھایا جب شکار پور کے کچہ کے علاقے میں پولیس کے تین اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ اہلکار کچھ مغویوں کی بازیابی کے لیے علاقے میں پہنچے تھے جہاں ڈاکوؤں نے اُن پر حملہ کردیا۔ پنجاب کے کچھ اضلاع میں آپریشن کی بڑی وجہ لادی گینگ کی وائرل ہونے والی ایک وڈیو بنی۔ انتہائی دردناک اس وڈیو میں دو افراد ایک شخص کو پکڑے ہوئے ہیں جبکہ تیسرا شخص اِس کے بازواور کان کاٹتا دکھائی دیتا ہے۔ تفصیل یہ سامنے آئی ہے کہ لادی گینگ کو شک تھا کہ یہ شخص اپنے دیگر دوساتھیوں کے ہمراہ مل کر گینگ کے خلاف مخبری کرتا ہے۔ اس وڈیو کی دہشت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا جس کا خود وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لیا۔ مذکورہ واقعات کے نتیجے میں سندھ اور پنجاب میں ڈاکوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کردی گئیں البتہ کارروائیوں کی نوعیت وہی ہے جو ماضی میں بھی دکھائی دیتی رہی۔ اِس دوران جیسے پہلے بلند بانگ دعوے سننے میں آتے تھے‘ ویسی ہی باتیں اب کی جا رہی ہیں، یہ کہ اس مرتبہ اِن گروپوں کا خاتمہ کرکے ہی دم لیا جائے گا۔ یہ الگ بات کہ بعض حوالوں کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کیے جانے والے تمام آپریشنز‘ دوکے علاوہ‘ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہے تھے۔ دعا ہے کہ اس بار جاری کارروائیاں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ خواہش ہے کہ عام آدمی کی زندگیوں کو جہنم بنانے والے لادی گینگ، لٹھانی گینگ، تیغانی گینگ، واشو بنگلانی گینگ، ڈھانی گینگ اور درجنوں دیگرگینگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں مگر... صرف خواہش سے کچھ نہیں ہوتا، کچھ دیگر حقائق بھی ملحوظ رکھنا ہوتے ہیں۔
کیا صرف پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے؟کیا طاقت کے ذریعے اِنہیں ختم کیا جاسکتا ہے وہ بھی اِس صورت میں کہ اِن کے بغیر بے شمار وڈیروں، جاگیرداروں اور سیاست دانوں کی دکانیں بند ہوجائیں گی۔ اِن ڈاکوؤں کے سرپرستوں کی ایک فہرست ہمارے پاس پڑی ہے لیکن اِن کے نام لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی۔ ایک قبائلی سردار تیغو خان تیغانی کا نام بھی اِس لیے لکھنے کی ہمت ہوئی کہ اُسے پولیس نے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کے الزام میں گرفتار کررکھا ہے۔ یہ وہی تیغو خان ہے جسے 2020ء میں ایک تقریب کے دوران متعدد پولیس افسران کی موجودگی میں امن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ ڈاکوؤں کی سرپرستی اس نے بعد میں شروع کی یا پہلے پولیس اور انتظامیہ کو اس کا علم نہیں تھا۔ یاد پڑتا ہے تب بھی سندھ پولیس کو اِس حوالے سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایک ڈی ایس پی راؤ شفیق اللہ کے صاحبزادے نے سندھ ہائیکورٹ کو ایک خط بھی لکھا تھاجس میں واضح کیا گیا تھا کہ اُن کے والد کو شہید کرنے والے ڈاکوؤں کو تیغو خاں تیغانی نے ہی پناہ دی تھی۔ یہاں پر یہ خوش گمانی رکھی جا سکتی ہے کہ امن ایوارڈ دیے جانے تک پولیس حکام کو موصوف کی حقیقت کا علم نہیں ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تب حکومت کو کسی حوالے سے اِس شخص کی ضرورت ہوگی جو اُسے امن ایوارڈ سے نواز دیا گیا۔ اب وہ ضرورت پوری ہوچکی تو بات اُس کی گرفتاری پر ختم ہوئی۔ گزشتہ سال بھی ڈاکوؤں کے کچھ سرپرستوں کی ایک فہرست سامنے آئی تھی۔ افسوس کہ اُس فہرست میں کچھ ایسے افراد کے نام بھی شامل تھے جو اُس وقت کی سندھ کابینہ میں شامل تھے۔ اِس پر ایک وزیر نے بہت شور مچایا تھا کہ اُنہیں بدنام کیا جارہا ہے، وہ اِس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے‘ یہ بھی کہ جس نے اِس فہرست میں اُن کا نام شامل کیا ہے، اُسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا مگر پھر وہی ہوا جو کچھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ وقت کی گرد نے سب کچھ چھپا لیا۔
سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر‘ جن پر 190 سے زائد پولیس مقابلوں میں 4 سو کے قریب افراد کو مارنے کے الزامات ہیں‘ نے جب ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو اُس کے ساتھیوں سمیت دہشت گرد قرار دے کر موت کی نیند سلایا تو بتایا گیا کہ امن پسند شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے لیکن بعد میں جب حقیقت سامنے آئی تو پورے ملک میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ اعلیٰ ترین سطح پر یقین دلایا گیا کہ مظلوموں کو انصاف دیا جائے گا۔ انصاف تو کیا ملنا تھا‘ موصوف طویل عرصہ تک پولیس کے ہاتھ ہی نہ آ سکے۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس دوران اُنہوں نے کس مقام پر پناہ حاصل کر رکھی تھی کہ طویل عرصے تک کسی کو نظر ہی نہ آ سکے۔ جب وہ گرفتار ہوئے تو ہمیشہ بغیر ہتھکڑی کے عدالتوں میں پیش ہوئے۔ کبھی اُنہیں خصوصی بیلٹ نہیں لگائی گئی تھی‘ پھر اُن کی ضمانت ہو گئی اور وہ پولیس سے ریٹائر ہو گئے جبکہ نقیب اللہ محسود کے والد انصاف کی راہ تکتے تکتے دنیا سے رخصت ہو گئے اور قصہ تمام ہوا۔
معافی کا خواستگار ہوں کہ ڈاکوؤں کا ذکر کرتے کرتے ایک اعلیٰ پولیس افسر کا تذکرہ آ گیا۔ شاید اِس لیے کہ اگر دیکھا جائے تو ڈاکوؤں کے بیشتر گروہوں میں شامل افراد یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہیں پولیس کی زیادتیوں نے ڈاکو بننے پر مجبور کیا تھا، یا پھر مخالف طاقتور تھے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے اُنہوں نے ڈاکوؤں کے گروہ میں شرکت اختیار کر لی۔ سماج دشمن عناصر تو اپنی صفائیاں ایسے ہی پیش کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں کو یکسر جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب میں زندگی جس طرح سے سسک رہی ہے، بیشتر صورتوں میں اُسی کے نتیجے میں ڈاکوؤں کے گروہوں کو کبھی افرادی قوت کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مستقبل میں بھی حالات تبدیل ہونے کا کوئی امکان دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔
انصاف، انصاف اور صرف انصاف ہی ظلم و زیادتی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ دنیا کے 128 ممالک میں‘ فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے ہمارے ملک کا نمبر 124واں ہے۔ یہ اُس ملک میں انصاف کی فراہمی کی صورتِ حا ل ہے جو ریاست مدینہ کو آئیڈیلائز کرتا ہے۔ بھلا انصاف کے بغیر، ناانصافی کا خاتمہ کیے بغیر اِس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ یہاں تو ہر طاقتور شخص خود ہی اپنی عدالت لگا لیتا ہے۔ ہر روز اپنے سے کمزوروں پر تشدد کی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔ ہر روز تھانوں میں جھوٹے پرچے درج ہوتے ہیں۔ پرچہ جھوٹا ثابت ہو جائے تو بھی اِسے خارج کرانے کے لیے مہینوں کچہریوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ جب ملک میں صرف طاقت کی زبان بولی جائے گی تو پھر ہر کوئی حصول طاقت کے لیے ہی سرگرداں دکھائی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر سے نیچے تک ایک ہی چلن رائج ہو چکا ہے کہ ہاتھ میں طاقت ہونی چاہیے‘ پھر چاہے وہ پولیس جیسے ادارے ہوں یا افراد‘ اِسے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
اِن تمام تر زمینی حقائق کے باوجود ہماری دلی دعا ہے کہ ڈاکوؤں کے گروہوں کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ بھی کہ اِس کے بعد اُن ڈاکوؤں کی باری بھی آئے جو قانون کی رکھوالی کے نام پر اپنے عہدوں، طاقت اور اختیار کا غلط بلکہ ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ بس یہ معصوم سی خواہش ہے اگر پوری ہو جائے تو...

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں