"FBC" (space) message & send to 7575

کیوں دل دکھاتے ہو!

معلوم نہیں ہم کیوں ایسی باتوں کی گردان کرتے رہتے ہیں جو کرنہیں سکتے۔ کیوں ایسے وعدے کرتے رہتے ہیں جنہیں نبھا نہیں سکتے۔معلوم نہیں دوسروں کو تکلیف پہنچا کر کیا تسکین حاصل ہوتی ہے۔ حکمران طبقات جو کرتے ہیں‘ سو کرتے ہیں‘ آج معاملہ یہ ہے کہ عام فرد نے بھی قانون شکنی کو اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ احتجاج ریکارڈ کرانا ہو تو سب سے پہلے کوئی نہ کوئی شاہراہ بند کردی جاتی ہے۔ پھر چاہے اِس ہجوم میں مریض زندگی اور موت کی جنگ لڑتے رہیں یا پھر خواتین اور بچے تکلیف اُٹھاتے رہیں۔ احتجا ج کو تو ایک طرف رکھیے کہ کوئی سیاسی و سماجی تقریب منعقد کرنی ہوتو بھی اِس کے لیے کوئی نہ کوئی مصروف شاہراہ ہی بہترین مقام قرار پاتی ہے۔ کوئی صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کرے تو پھر اُس کا جو حال ہوتا ہے‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ سنن ابو داؤد کی ایک حدیث میں حضرت سہلؓ بن معاذ اپنے والد محترم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ہم رسول کریمﷺ کے ہمراہ تھے، راستے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں کے خیمے لگانے سے راستہ تنگ پڑ گیا، اتنا تنگ کہ کسی کے گزرنے کی تھوڑی سی جگہ بھی نہ بچی، حضور اکرمﷺ کو صورتِ حال کا علم ہوا تو ایک اعلان کرنے والا بھیجا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستے میں خیمہ لگائے تو اُس کا جہاد(قبول)نہیں ہے۔ (سنن ابودائو: 2629) اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں بھی کچھ اختیار آتا ہے وہ خود کو سوسائٹی سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ نجانے کیوں اچھے بھلے انسان بھی طاقت ہاتھ میں آتے ہی دوسروں سے کمتر سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ شنید تھی کہ تحریک انصاف برسراقتدار آنے کے بعد وی آئی پی کلچر کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گی‘ وعدہ کیا گیا تھا کہ پروٹوکول کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ہٹو بچو کی آوازیں قصہ پارینہ بنا دی جائیں گی۔ وائے قسمت کہ یہ وعدہ بھی دوسرے بے شمار وعدوں کی طرح کہیں دفن ہو گیا۔ وہی اظہارِ طاقت کے مظاہر‘ وہی ایک سے دوسری جگہ جانے کے دوران ٹریفک کا روک دیا جانا۔اخلاقیات کے معاملے میں ہم آئیڈیلزم تو دور‘ ہم عصر معاشروں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے معاشرے میں آکاس بیل کی طرح پھیلی ہوئی خرافات کی بنیادی وجہ اگر تلاش کی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے، ہم اپنے لیے کوئی اور معیار طے کرتے ہیں اور دوسروں کو کسی اور پر پرکھنا چاہتے ہیں۔ یہی چلن اوپر تک رائج ہے۔ جہاں‘ جتنا بھی جس کسی کا بس چلتا ہے‘ وہ قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے مغربی دنیا کا طرزِ عمل دیکھا جائے تو خود احتسابی کی ہمت بھی باقی نہیں رہتی۔ چند روز کی بات ہے کہ فن لینڈ کی پولیس نے اپنے ملک کی وزیراعظم کے حوالے سے ایک معاملے کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ فن لینڈ کی وزیراعظم سنا مارین سرکاری رہائش گاہ میں قیام کے دوران اپنے اہلِ خانے کے ناشتے کے بل کی مد میں سرکاری خزانے سے تین سو یورو وصول کرتی رہی ہیں۔ جیسے ہی یہ معاملہ منظر عام پر آیا تو ہرطرف ہاہا کار مچ گئی۔ اب پولیس تحقیقات کررہی ہے کہ ایسا کرکے کہیں وزیراعظم نے ملک کے قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ وزیراعظم سنا مارین کا موقف ہے کہ اُنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا کیونکہ اُن سے پہلے بھی وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہنے والے ایسا کرتے رہے ہیں۔ اپنے تو دل دکھاتے ہی ہیں، غیر بھی چھوٹی موٹی باتوں کو سنجیدہ لے کر ہمیں ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ فن لینڈ تو فن لینڈ‘ امریکی صدر کو بھی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرسکے۔ اِدھر اپنے اردگرد کے معاشروں کے حالات دیکھ لیجئے۔ کسی بھی ملک کا حکمران'' آل اِن آل‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو کوئی پروا نہیں‘ قومی خزانے کو جس طرح مرضی استعمال کیا جائے۔ بادشاہوں کی بات تو ایک طرف رہی‘ عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آنے والے بھی بادشاہوں کے شانہ بشانہ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ جو بھی اقتدار سے نکلا‘ وہ اپنی آنے والی درجنوں نسلوں کے نان نفقے کا انتظام کرکے نکلا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ قومی خزانہ لوٹنے والے بے شمار طبقات کے بارے میں لب کشائی کی بھی ممانعت ہے۔
چاہیں تو چپ چاپ براڈ شیٹ کو لاکھوں ڈالر کی ادائیگی کردیں‘ چینی مہنگی کردیں یا آٹا مارکیٹ سے غائب کردیں‘ کوئی نہیں پوچھے گا۔ دل کرے تو ادویات کی قیمتیں بڑھا دیں یا رنگ روڈ کا رخ موڑ دیں‘ کوئی سوال نہیں کرے گا، ظاہری بات ہے کہ جب اوپر والے دونوں ہاتھوں سے دولت کمائیں گے تو نیچے بیٹھے ہوئے بھی ہاتھ پاؤں ماریں گے۔ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے والی بے شمار شخصیات کا تو سب کو علم ہے‘ ہم جیسے عام بندوں کا ہاتھ اتنا ہی پڑتا ہے کہ مکان کو ایک دوفٹ آگے بڑھا لیں‘ جب دل کیا راستہ بند کردیا۔ ون وے کی خلاف ورزی کرلی۔ غصہ آنے پر اپنے سے کمزور کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ کسی سے مزدوری کراکے اُس کی اُجرت دبا لی۔ ہم سب مل جل کر یہی کچھ کررہے ہیں۔ اوپر والے اوپر کی سطح پر اُدھم مچائے ہوئے ہیں نیچے والے نچلی سطح پر ہنگامہ بپا کیے ہوئے ہیں۔ البتہ مثالیں ہمیشہ ریاست مدینہ کی ہی سننے میں آتی ہیں‘ خواہ وہ حکمران ہوں یا عوام، ہر کوئی اسی دور کا تذکرہ کرتا ہے‘ اسی آئیڈیل دور کی واپسی چاہتا ہے مگر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے پر تیار نہیں ہے۔ اِس سے زیادہ دل کے پھپھولے پھوڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ اپنا ہی دل ہی دکھی ہوتا ہے! ویسے دل کا کیا ہے‘ ہمارے معاشروں میں دلوں کا دکھی ہونا معمول کی بات ہے۔ پھر بھی یہ اپیل تو کی ہی جاسکتی ہے کہ دوسروں کا دل مت دکھائیں، لوگوں کے حقوق مت سلب کریں، مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیں، اپنے سے کمزوروں کو ظلم کا نشانہ مت بنائیں، دوسرے کے مال پر اپنا ناجائز حق مت جمائیں اور کسی بھی بات کو بلاتحقیق آگے نہ بڑھائیں۔
سورۃ الحجرات کی اس آیت کا ترجمہ پڑھیے اور اپنے آپ کو اس آیت مبارکہ کی روشنی میں پرکھیے۔'' اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو‘ کہیں ایسا نہ کرو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا اور پھر اپنے کیے پر پچھتائو‘‘۔ (الحجرات:6) آئیے اِس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں۔ کیا سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلانے میں ہمارا طرزِ عمل وہی ہے جس کا حکم ہمیں رب العالمین نے دیا ہے؟ شاید نہیں! اِس حوالے سے ایک طرزِ عمل کا ہم اِن دنوں خوب مشاہدہ کررہے ہیں۔ نکاح کے بارے میں ملالہ یوسف زئی کے ایک بیان کو لے کر وہ شور مچایا گیا کہ خدا کی پناہ! انٹرویو کے ایک حصے کو لے کر تنقید کے کون کون سے نشتر نہیں برسائے گئے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ساری بات سننے کی زحمت گوارا کی؟افسوس تو تب ہوا جب آن سکرین اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سننے والوں تک حقیقت پہنچانے کے بہت سے افراد خود بھی نمک کی کان میں نمک ہوگئے۔ اب جو ملالہ کی باتوں کا پورا سیاق وسباق سامنے آیا ہے تو تنقید کرنے والوں کو یقینا شرمندگی ہورہی ہو گی۔ قصہ مختصر یہ کہ اپنے انٹرویو کے دوران ملالہ نے یہ کہا تھا کہ اُس نے کسی موقع پر اپنی والدہ سے پوچھا کہ کیا ایک مرد اور عورت شادی کیے بغیر اکٹھے نہیں رہ سکتے؟ ملالہ کے بقول‘ جب اُس نے اپنی والدہ سے یہ بات کی تو پھر اُس کی والدہ نے اُسے سمجھایا کہ ہمارا مذہب اِس کی اجازت نہیں دیتا اور تمہیں بھی ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں۔ جب وقت آئے گا تو تمہیں بھی شادی کرنا ہوگی۔ کیا ہمارے گھروں میں بچے ہم سے ایسی باتوں کی بابت استفسار نہیں کرتے رہتے؟ بہت کچھ جو وہ نہیں جانتے یا جن کے بارے میں وہ جاننا چاہتے ہیں‘ وہ ہم سے پوچھتے ہیں۔ خدا کے لیے کسی کوتو جینے کا حق دے دیں، کسی کو تو اپنی بات کہنے کی آزادی دے دیں۔ چاروں اطراف سے بند معاشرے پر مزید کتنی قدغنیں لگانا چاہتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں