"FBC" (space) message & send to 7575

یہ حکومتوں کے کام نہیں ہوتے!

قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر صاحب نے اسمبلی میں پیش آنے والے واقعات پر تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اُن کی جانب سے اِس واقعے کو افسوس ناک بھی قرار دیا جاچکا لیکن ابھی تک حیرانی اور پریشانی دور نہیں ہوپارہی کہ آخر قومی اسمبلی میں یہ سب کچھ کیونکر ہوا۔ کیونکر اخلاقیات اور باہمی احترام جیسی قدروں کو پاؤں تلے روند دیا گیا۔گلی محلوں میں ہونے والی لڑائیوں کی طرح‘ ایک دوسرے کو دھکے دیے جارہے تھے‘ ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیاں اُچھالی جارہی تھیں‘ ایسی ایسی گالیاں دی جارہی تھیں کہ سننے والا شرمندہ ہوکررہ جائے۔ خصوصاً حکمران جماعت کے ایک رکن نے تو اِس حوالے سے اپنا باطن خوب عیاں کیا۔ انہیں اِس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ اُن کے قریب ہی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی موجود ہیں۔اب اپنی اِس حرکت پر وہ خود بھی شرمندہ شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ اعتراف بھی کیا کہ اُنہیں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھے۔ اپنی صفائی میں کچھ دیگر تاویلات بھی پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن بات منہ سے نکل جائے تو پھر کہاں واپس آتی ہے۔اندازہ کیجئے کہ ملک کے اہم ترین ایوان میں وہ بازاری زبان استعمال کی جا رہی تھی جوعمومی طور پر گلیوں محلوں میں ہونے والی لڑائیوں کے دوران ایک دوسرے کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ اِس آپا دھاپی میں کیا وزیرتعلیم اور کیا انسانی حقوق کی وزیر صاحبہ، سبھی دامے درمے قدمے سخنے اپنا حصہ ڈال رہے تھے اور پوری قوم براہِ راست یہ سارا تماشا ٹی وی سکرینوں پر دیکھ رہی تھی۔ٹی وی چینلز پر براہِ راست دیکھا جارہا تھا کہ قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے ذمہ دار خود اپنا ہی راستہ کھوبیٹھے ہیں۔ کمی تو دوسری طرف سے بھی روا نہیں رکھی گئی لیکن بہرحال حکومت کی ذمہ داری اِس لیے زیادہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہوتا۔ حکومتوں کے پاس طاقت ہوتی ہے، اختیار ہوتا ہے اور اُس پر قوم کی نظریں لگی ہوتی ہیں کہ وہ قوم کو سیدھے راستے پر چلائے گی۔دوسری طرف اپوزیشن کے پاس شور شرابہ ہی ہوتا ہے اور وہ یہی کام کرتی رہتی ہیں۔یہ حکومت کے سمجھنے کی بات ہے کہ اُس نے شور شرابے سے متاثر ہونے اور جواباً شور شرابہ کرنے کے بجائے اسمبلی کا بزنس چلانا ہوتا ہے۔ اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اُس نے کس طرح سے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہے لیکن یہ سب کچھ خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے طرزِ عمل نے سب کچھ بلڈوز کرکے رکھ دیا ہے۔ صورت حال کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک اسمبلی میں جتنے بھی بل پاس ہوئے ہیں‘ اُن میں اپوزیشن کا حصہ نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ تقریباً تمام بل اپوزیشن کو بلڈوز کرکے پاس کیے گئے ہیں۔ ایک ہی رٹ سنائی دیتی ہے کہ نہیں چھوڑا جائے گا، یہ کردیا جائے گا، وہ کردیا جائے گا۔ ارے بھئی! عملاً بھی تو کچھ کرکے دکھائو۔
اگر ہمارے حکومتی دوست غصہ نہ کریں تو حقیقت یہ ہے کہ اِس طرزِ عمل کی ابتدا 126دنوں تک دیے جانے والے دھرنے سے ہوچکی تھی‘ اُس کے بعدسے سیاست میں جس تیزی سے ذاتیات کا عنصر داخل ہوا ہے، اُس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔اِس دھرنے کے دوران جو کچھ ہوتا رہا ہے‘ وہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ذہنوں سے محو نہیں ہوپایا۔ اُس کو لٹکا دیا جائے گا‘ اُسے پھانسی دے دی جائے گی‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے کلچر کو فروغ دیا گیا جس کے نتائج آج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ بھلا ملک ایسے بھی چلا کرتے ہیں؟کوئی احساس ہی نہیں کہ ملک کس نہج پر جارہا ہے۔ ایک یہی کسر باقی رہ گئی تھی کہ ایوان کو بھی اکھاڑہ بنا دیا جائے۔قومی اسمبلی بچی نہ ٹی وی کے ٹاک شوز۔ ہرجگہ ایسے ایسے مظاہر کہ دیکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں دابے بیٹھے ہیں۔افسوس کہ اپنی حرکتوں پر شرمندگی کے بجائے اِنہیں justifyکیا جارہا ہے۔ ایک وزیرصاحب فرماتے ہیں کہ اپوزیشن نے اسمبلی کو اکھاڑہ بنا کررکھ دیا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے تو کیا یہ بھی سچ نہیں کہ حکومتی صفوں سے بھی کوئی کمی باقی نہیں رہنے دی گئی تھی۔ اُن کی طرف سے یہ تاویل بھی پیش کی گئی ہے کہ ایک حکومتی رکن کی طرف سے جو زبان استعمال کی گئی‘ وہ دراصل اپوزیشن اراکین کے رویے کا ردعمل تھی۔ ایک حکومتی سینیٹر صاحب کی طرف سے قرار دیا گیا ہے کہ کلپ کا صرف ایک حصہ عوام کو دکھایا جارہا ہے۔ گزارش ہے کہ اگر آپ کے پاس اِس کلپ کا کوئی دوسرا حصہ ہے تو اُسے سامنے لے آئیں لیکن خدارا! ایک غلط حرکت کی حمایت نہ کریں۔ یہ کیا چلن اختیار کرلیا ہے ہم نے کہ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی دکھائی نہیں دیتا۔
ہرگز یہ عوامی نمائندوں کے رویے نہیں ہوتے۔ یہی سب کچھ تب بھی دیکھنے میں آیا تھا جب وزیرخزانہ شوکت ترین بجٹ پیش کررہے تھے۔ تب اپوزیشن کی طرف سے مسلسل اُن کی تقریر میں خلل پیدا کیا جارہا تھا۔ اُس روز بھی اسمبلی میں خوب شور شرابہ رہا لیکن جو کچھ منگل کے روز ہوا‘ وہ کم از کم الفاظ میں بھی انتہائی شرمناک تھا۔ کیا اتنا سا کام نہیں ہوسکتا تھا کہ حکومت ، اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر بجٹ اجلاس کی حکمت عملی طے کرلیتی؟بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اِس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی تھی۔ اگر تھوڑی سی توجہ بھی دی جاتی تو طرفین آسانی سے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرسکتے تھے۔افسوس کہ تین سالوں سے قومی اسمبلی میں ایسے ہی رویے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ شاید یہ اُسی کا تسلسل ہے کہ جب اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر کے دوران مسلسل شور مچانے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ اب یہی کچھ قائد حزبِ اختلاف کی تقریر کے دوران زیادہ شدت کے ساتھ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر ماضی کا مختصر ساجائزہ لیا جائے تو یہ روایت رہی ہے کہ وزرائے اعظم اور قائدین حزبِ اختلاف کی تقاریر کے دوران عمومی طور پر ہلڑ بازی سے گریز کیا جاتا ہے۔ اِن عہدوں پر فائز شخصیات جتنی دیرتک چاہیں‘ تقریر کرسکتی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک عرصے تک قومی اسمبلی میں کبھی حکومتی اور کبھی اپوزیشن بنچوں پر براجمان رہی ہیں ۔دونوں کے درمیان گرماگرمی کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا لیکن اِن کے قائدین کی تقاریرکوقدرے خاموشی سے سنا جاتا تھا۔ اب تو نجانے کون سی تبدیلی آگئی ہے کہ ماضی کی تمام روایات ہی ملیا میٹ ہوئی جاتی ہیں۔ مخالفین کے خوب لتے لینے اور لڑائی جھگڑا کرنے پر پارٹی اجلاسوں میں اظہارِ فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر خوب دادوتحسین سمیٹی جاتی ہے۔ بس اب یہی سب کچھ باقی رہ گیا ہے۔ ڈر اِس بات کا ہے کہ یہ سلسلہ تھمے گا نہیں بلکہ مزید آگے بڑھے گا کیونکہ جب ایسا سلسلہ ایک مرتبہ چل نکلتا ہے تو پھر بیشتر صورتوں میں اُس کے آگے بند باندھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اب کے بھی یہی سب کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر بدتمیزی کا مظاہرہ کرنے والوں نے اپنے بڑوں سے داد بھی سمیٹی ہوگی کہ اب بدتمیزی ہی ترقی کا شارٹ کٹ بن چکا ہے۔دوستوں کی ناراضی کا ڈر نہ ہوتو مختصراً یہ جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ کس کس نے یہ شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے ترقی کی ہے۔ یہ جو اہم وزارتوں پر تبدیلی کا مسلسل عمل جاری رہتا ہے‘ واقفانِ حال کے مطابق اِس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ زیادہ سخت زبان استعمال کرنے والوں کو ان وزارتوں کیلئے زیادہ اہل سمجھا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق‘ اسمبلی میں بھی یہ سب کچھ بالائی ہدایات کے مطابق کیا گیا۔ پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ قائد حزبِ اختلاف کو آسانی سے تقریر نہیں کرنے دی جائے گی ۔جب عملاً کچھ مثبت کرنے میں ناکامی ہورہی ہو تو پھر گفتاریا ٹویٹس کا راستہ تو بہرحال موجود ہوتا ہے۔بات تبھی بنتی ہے جب عوام اِس بات کی گواہی دینا شروع کردیں کہ ہاں کچھ مثبت‘ کچھ اچھا ہورہا ہے۔ اب تو یہ صورتِ حال ہوچکی کہ کچھ تھوڑی بہت جو اخلاقیات بچی تھیں ، اُن کا بھی جنازہ نکل رہا ہے۔ معلوم نہیں آنے والی نسلوں کو کون سا سبق پڑھایا جارہا ہے ، اُنہیں کیا سکھایا جارہا ہے، اُنہیں کس طرف لے کر جایا جارہا ہے۔ اِس تمام تر صورت حال میں اپوزیشن کا حصہ بھی برابر کا ہے لیکن کسی بھی معاملے میں حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے جو اُسے بہر طور نبھانی چاہیے‘ بجائے اِس کے کہ اُن کاموں کی طرف زیادہ توجہ دی جائے جو حکومتوں کے کرنے کے نہیں ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں