"FBC" (space) message & send to 7575

وقت

آج سے تقریباً چار سو سال قبل‘ ایک روز چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دربار میں خاصی رونق تھی۔ انتظامات کو دیکھ کر محسوس ہورہا تھا کہ آج کوئی خاص تقریب منعقد ہونے والی ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کیونکہ یہ بادشاہ کی سالگرہ کا دن تھا اور مغل روایات کے مطابق اُنہیں سونے‘ چاندی اور ہیرے‘ جواہرات میں تولا جانا تھا۔ بھاری بھر کم انتہائی قیمتی زرق برق لباس پہنے ہوئے مغل بادشاہ کا وزن دوسوساٹھ پاؤنڈ کے قریب نکلا۔ بادشاہ سلامت کو باری باری سونے‘ چاندی‘ ہیرے‘ جواہرات‘ ریشم اور دوسری بیش قیمت اجناس میں تولا گیا جن کو بعد ازاں غربا میں تقسیم کردیا گیا۔ اِسی دربار میں ''سر ٹامس رو‘‘ نامی ایک برطانوی سفیر بھی موجود تھا جو یہ خیرہ کن منظر دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ واقعی ہندوستان اتنی امیر ریاست ہے؟ ٹامس کئی ماہ سے ہندوستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھا۔ دراصل وہ مغل شہنشاہ سے ایک معاہدہ کرنے کا خواہشمند تھا جس کے تحت وہ برطانیہ کی ایک کمپنی کے لیے ہندوستان میں تجارتی حقوق چاہتا تھا۔ اب کہاں عظیم الشان مغل سلطنت اور کہاں برطانیہ نام کا ایک غریب سا جزیرہ۔مغل شہنشاہ کو ایسے کسی معاہدے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ٹامس رو نے بہت پاپڑ بیلے لیکن اُس کی ایک نہ چلی؛ تاہم اُس نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل حصولِ مقصد کے لیے اپنی کوششوں میں مصروف رہا، بالآخر اُس نے کامیابی حاصل کر لی۔ شہنشاہ جہانگیر تو انگریز سفیر کے دام میں نہ آئے؛ البتہ وہ ولی عہد شاہ جہاں کو ضرور شیشے میں اُتارنے میں کامیاب ہوگیا۔ ٹامس رو کی کامیاب اور اَن تھک سفارت کاری کے نتیجے میں بالآخر اگست 1618ء میں ولی عہد شاہ جہاں سے ایک معاہدہ طے پا گیا جس کی رو سے برطانیہ کی ایک کمپنی کو ہندوستان کے ایک چھوٹے سے ساحلی شہر سورت میں کاروبار کرنے کی اجازت مل گئی۔ یہ کمپنی‘ ایسٹ انڈیا کمپنی تھی جس نے آگے چل کر ہندوستان کی تاریخ تبدیل کرکے رکھ دی۔ یہ پہلی غیرملکی کمپنی تھی جسے ہندوستان میں کاروبار کرنے کی باقاعدہ اجازت ملی تھی۔معاہدہ ہونے کی دیر تھی کہ کمپنی نے ہندوستان میں ایک کے بعد ایک کاروبار شروع کردیا اور پھر معاملہ تجارت سے کہیں آگے بڑھ گیا۔
وقت سرکتے سرکتے 1857ء تک پہنچا۔تب مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کے فرمانروا تھے اور ہندوستان میں جنگِ آزادی کا آغاز ہو چکا تھا۔ پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا تھا جس میں ابتدائی طور پر تو آزادی کے متوالوں کا پلڑا بھاری رہا لیکن پھر انگریزاپنے مقامی وفاداروں کی مدد سے بتدریج غالب آنے لگے۔ایک موقع پر دلی پوری طرح سے انگریزوں سے خالی ہوچکا تھا لیکن جلد ہی انگریز فوجی اور اُن کے مقامی ساتھی واپس دلی میں داخل ہونے لگے جس کے بعد اِس شہر نے ایک مرتبہ پھر تباہی و بربادی اور قتل وغارت گری کے ہولنا ک مناظر دیکھے۔یہ صورت حال دیکھتے ہوئے مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر اپنے محل کے عقب سے پالکی میں بیٹھ کر نکلے اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد ہمایوں کے مقبرے میں جا کر پناہ لے لی۔ وہاں سے اُنہیں انگریز فوجی دستوں نے باغیوں کی حمایت کرنے کی پاداش میں 18 ستمبر1857ء کو گرفتار کرلیا۔بہادر شاہ ظفر کی زندگی تو بخش دی گئی لیکن اُن کے تین بیٹوں مرزامغل، ابوبکر اور خضر سلطان کو گولی مار دی گئی۔ آخری مغل فرمانروا کی اِس انداز میں ہتک کی جاتی تھی کہ ہرروز انگریز شہری اُنہیں بڑی تعداد میں دیکھنے کے لیے آتے اور اُن پر پھبتیاں کستے تھے۔17اکتوبر1857ء کو اُنہیں جلا وطن کرکے رنگون بھیج دیا گیا۔ شاہی خاندان کے 35دیگر مرد اور خواتین بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ رنگون کی بندرگاہ پر کیپٹن نیلسن نے آخری مغل فرمانروا کو وصول کیا۔ اُن کے ساتھ آنے والوں کو تو دوسری جگہوں پر بھیج دیا گیا لیکن بہادر شاہ ظفر کو اس نے اپنے گھر کے گیراج میں قید کرلیا۔7 نومبر 1862ء کو آخری لمحات آئے تو تب بہادر شاہ ظفر کی آخری خواہش یہ تھی کہ گیراج کی کھڑکی کھول دی جائے تاکہ وہ تازہ ہوا میں سانس لے سکے لیکن اتنی سی خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔
اِس دوران جو کچھ بھی ہوا اور جیسے بھی حالات مغلوں کے ہاتھ سے پھسلتے گئے‘ وہ ایک الگ داستان ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان میں بھکاریوں کی طرح آنے والے انگریزوں نے یہاں کے بادشاہوں کو بھکاری بنا کر رکھ دیا تھا۔ اِس سے زیادہ بے بسی اور کیا ہوسکتی تھی کہ عظیم الشان سلطنت کے آخری فرمانروا کو اپنے ملک میں دفن ہونے کی جگہ بھی نصیب نہ ہوسکی۔ ایسا ہی ایک واقعہ تو ہم بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ ایران کے محمد رضا شاہ پہلوی کے بارے میں کون تصور کرسکتا تھا کہ وہ ایران سے کچھ یوں نکلے گا کہ دنیا کا کوئی ملک اُسے پناہ دینے کے لیے تیار نہ ہو گا۔ وہ بادشاہ‘ جس کے رعب اور دبدبے کے سامنے اُس کی رعایا ڈھنگ سے سانس بھی نہیں لے پاتی تھی‘ اِس بادشاہ نے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلے تھے لیکن وہ وقت بھی آیا جب اُسے اپنے ہی ملک سے افراتفری میں فرار ہونا پڑا۔ کافی عرصہ پہلے ہمیں ایران جانے کا موقع ملا تو وہاں سعد آباد کمپلیکس جانے کا اتفاق بھی ہوا، تقریباً 110 ہیکٹر رقبے پر پھیلا یہ عظیم الشان محل دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ (ایک ہیکٹر تقریباً اڑھائی ایکڑ رقبے پر محیط ہوتا ہے )یہ محل اِس بات کی عکاسی بھی کرتا ہے جب انسان اقتدار میں ہوتا ہے تو پھر وہ کس طرح سے دوسروں کا خون نچوڑ کر اپنی خواہشات پوری کرتا ہے۔ اب یہ الگ بات کہ وقت پڑنے پر سب کچھ اُس کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل جاتا ہے۔ اِس وسیع وعریض محل میں جہاں بھر کے نوادرات جمع کیے گئے تھے۔ایسے ایسے نوادرات کہ جنہیں دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔کبھی اِس محل کا مکین امریکا بہادر کی آنکھوں کا تارا ہوا کرتا تھا۔ خطے میں ایران کو تھانیدار کا کردار دیا گیا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب بادشاہت کے ظلم و ستم سے تنگ آئے عوام نے اپنے رہنما آیت اللہ خمینی کی قیادت میں علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ بالآخر ایران کے سیاہ سفید کا مالک 1979ء میں ملک سے فرار ہوگیا مگر وہ دربدر بھٹکتا رہا۔ کبھی یہاں تو کبھی وہاں لیکن کبھی سکون کا سانس نصیب نہ ہوسکا۔ اِسے بھی مرنے کے بعدا پنے وطن کی مٹی نصیب نہ ہوسکی۔ وہی امریکا جس کا ہاتھ ہمیشہ اس کے سر پر رہا‘ اُس نے اِس سے کچھ ایسے نظریں پھیریں کہ دنیا حیران رہ گئی لیکن وقت کے یہی کرشمے ہوتے ہیں۔
یہ تو صرف چند ایک مثالیں ہیں ورنہ تو تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن اِن سے کبھی کسی نے سبق سیکھا نہ سیکھے گا۔ یہی انسان کی فطرت ہے۔ وہ ہمیشہ سے یہی سو چتا آیا ہے کہ جو کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے‘ وہ ہمیشہ اُسی کا رہے گا۔ اگر کسی کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھ گیا تو پھر وہ ہمیشہ اُسی کے سر پر بیٹھا رہے گا۔ ہمارے ہاں بھی تو یہی کچھ چلتا چلا آرہا ہے۔ حالات کو دیکھ کر یہ پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے کہ آئندہ بھی یہ سب کچھ ایسے چلتا رہے گا۔ ہماری ملکی تاریخ میں 1958ء تک حصولِ اقتدار کے لیے جو کچھ ہوتا رہا، اُسے جو بھی نام دے دیا جائے لیکن ہے تو حقیقت ہی۔ پھر 1958ء میں جو شب خون مارا گیا، وہ اُن کے لیے بھی انتہائی حیران کن تھا جو ایسا کرنے والوں کو مضبوط بناتے رہے تھے۔بعد میں اِنہی کے ہاتھوں رات کے اندھیرے میں جلاوطن ہوئے۔ تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ یہی سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اقتدار سے محروم ہونے والے اِسے بچانے کے لیے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلتے رہے؟ جو آج مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں وہ بھی اِسے قائم رکھنے کے لیے کیا کیا چالیں نہیں چل رہے ہوں گے؟ لیکن وقت کی میز تو ہروقت گھومتی رہتی ہے۔ وہ بہتر رہے جنہوں نے وقت سے سبق سیکھا اور اقتدار اُن کا حق ٹھہرایا جنہیں عوام نے منتخب کیا۔ وہ بہتر رہے جنہوں نے انتخابی عمل کو شفاف بنایا اور دیکھ لیجئے کہ ترقی بھی ایسے ہی ممالک کا مقدر ٹھہری۔ بہتر طریقہ اپنا کر آج وہ پوری دنیا پربلاشرکت غیرے حکمرانی کررہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ کچھ بھی سمجھنے پر تیار نہیں ۔یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ ہرشعبہ زوال پذیر ہے لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وقت ہمیشہ اُسی کا ہوتا ہے جو وقت کے تقاضوں کو سمجھتا ہے ورنہ اُسے قصہ پارینہ بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں