"FBC" (space) message & send to 7575

ہاکی کا نوحۂ مسلسل

سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہاکی کا نوحہ کہاں سے شروع کیا جائے ۔ وہاں سے کہ جب ہماری ہاکی ٹیم نے 1960ء میں ہی عالمی میدانوں میں اپنے جھنڈے گاڑ دیے تھے یا یہ نوحہ 1994ء سے شروع کیا جائے کہ جب ملکی ہاکی ٹیم آخری مرتبہ عالمی ہاکی کپ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی‘ یا پھر2021ء سے کہ جب ہماری ہاکی ٹیم دوسری مرتبہ بھی اِس قابل نہ ٹھہری کہ ٹوکیو اولمپکس میں شریک ہوسکے۔ یہ وقت تو کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ تین بار اولمپک گولڈ میڈل، چار مرتبہ عالمی ہاکی کپ، تین مرتبہ چیمپئنز ٹرافی اور بے شمار دوسرے ٹورنامنٹس جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑی اپنے ملک میں بیٹھ کر ٹوکیو اولمپکس 2020ء دیکھیں گے۔
2021ء میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس کو ٹوکیو اولمپکس 2020ء کہنے پر حیران مت ہوں۔ بے شک ٹوکیو اولمپکس جولائی 2021ء سے شروع ہورہے ہیں لیکن اِنہیں نام ٹوکیو اولمپکس 2020ء کا ہی دیا گیا ہے۔ دراصل یہ مقابلے گزشتہ سال اِنہی دنوں میں منعقد کیے جانے تھے لیکن برا ہو کورونا وبا کا جس کے باعث اولمپکس مقابلے بھی ایک سال کے لیے ملتوی کرنا پڑے۔ تب یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگرچہ اولمپکس مقابلے 2021ء میں منعقد ہوں گے لیکن یہ کہلائیں گے ٹوکیو اولمپکس 2020ء ہی۔ اِن اولمپکس مقابلوں کو اِس لیے بھی زیادہ اہمیت دی جارہی ہے کہ اِنہیں کورونا وبا کے خاتمے یا پھر اِس کی شدت میں نہایت کمی ہوجانے کے تناظر میں اُمید کی کرن قرار دیاجارہا ہے۔ اُمید کی اس کرن کا حصہ بننے کے لیے دنیا بھر کے ممالک بہت جوش و خروش سے اِن مقابلوں کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایتھلیٹ، شوٹنگ، بیڈ منٹن، جوڈو، سوئمنگ اور ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے کی تیاریاں تو ہم بھی کررہے ہیں لیکن افسوس کہ اِن کھیلوں میں ہاکی شامل نہیں ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے فٹ بال کے کسی عالمی مقابلے میں برازیل، ارجنٹائن یا جرمنی وغیرہ کی ٹیم شریک نہ ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہاکی کے حوالے سے نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے۔ اگرچہ یہ بہت پہلے ہی واضح ہوچکا تھا کہ پاکستانی ہاکی ٹیم اولمپکس مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے گی لیکن اب مقابلوں کا وقت قریب آنے کی وجہ سے زخم پھر ہرے ہو گئے ہیں۔
ہمارا قومی کھیل ہاکی‘ جو عالمی سطح پر ہمارے ملک کی پہچان بھی بنا‘ آج اپنی بقا کے لیے جس بے بسی سے ہاتھ پاؤں مارتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، اُسے دیکھ کر دل سے ہوک سی اُٹھتی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس کھیل کی بربادی کے لیے کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے ۔ جس بھی ذمہ دار سے بات کی جائے تو وہ یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اُس نے تو ہاکی کو فروغ دینے کے لیے اپنی جان بھی لڑا دی تھی لیکن دوسروں نے اُس کی ایک نہیں چلنے دی۔ اِن ''دوسروں‘‘ سے بات کی جائے تو وہ بھی ایسا ہی دعویٰ کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار دکھائی دے۔ کسی دور میں منیر ڈار، خالد احمد اور توقیر ڈار وغیرہ کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ پاکستانی ہاکی ٹیم کا میدان میں اُترنا تقریباً اِس بات کی ضمانت ہوتا تھا کہ اب یہ ٹیم جیت کر ہی میدان سے باہر آئے گی۔ ہماری نسل سے تعلق رکھنے والوں نے رشید جونیئر، اختررسول، سمیع اللہ، کلیم اللہ، سلیم شیروانی اور اِسی پائے کے دوسرے بے شمار کھلاڑیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم نے تو وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ہاکی کے شائقین اپنے پسندیدہ سٹارز کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر ٹکٹیں خریدا کرتے تھے۔ یہ لاجواب کھلاڑی تھے جو اپنے کھیل سے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے تھے۔ عمومی طور پر کمنٹیٹر کے یہی الفاظ سننے میں آتے تھے: فل بیک منظور الحسن نے اِدھر اُدھردیکھتے ہوئے آہستگی کے ساتھ بال سینٹرہاف اختر رسول کی طرف بڑھا دی ہے، وہ گیند کو لے کر آگے چلے اور اُنہوں نے گیند کو لیفٹ آؤٹ سمیع اللہ تک پہنچا دیا، دو مخالف کھلاڑیوں کو ڈاچ دینے کے بعد سمیع اللہ کا کراس سیدھا سینٹر فاروڈ رشید جونیئر کی ہاکی پر اور یہ گول... کیا شاندار کھیل ہوا کرتا تھا۔ اِنہی شاندار کھلاڑیوں کی بدولت ہاکی کا کھیل تعلیمی اداروں کا بھی مقبول ترین کھیل بن چکا تھا۔ اگرچہ وہاں کرکٹ اور فٹ بال بھی کھیلے جاتے تھے لیکن ہاکی کی تو شان ہی الگ تھی۔ یہ تو کل کی ہی بات معلوم ہوتی ہے جب دھن راج کی قیادت میں بھارتی ہاکی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔ ایک خلقت سٹیڈیم کے باہر اُمڈ آئی تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی بہت بڑا عالمی ٹورنامنٹ منعقد ہورہا ہے۔ تب سہیل عباس جیسے سپر سٹار ٹیم کا حصہ تھے اور قومی ہاکی ٹیم کو سپانسرز بھی دستیاب تھے اور اِس کی سرکاری سرپرستی بھی ہوا کرتی تھی۔
1998ء کے کچھ عرصہ بعد تک بھی ہاکی کا کھیل زندہ رہا اور پھر ہوتے ہوتے معاملہ 2004ء تک آن پہنچا جب پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ منعقد ہوا تھا اور جب آخری بار ہاکی کا دم خم دیکھا گیا تھا۔ اِس ٹورنامنٹ کے دوران چیمپئنز ٹرافی پاکستان سے چلی گئی اور اِس کے ساتھ ہی اندرونِ ملک ہاکی کے میدان بھی اُجڑ گئے۔ دہشت گردی کا اژدھا اس وقت پورے ملک میں پھنکار رہا تھا جس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ خرابیٔ حالات کے باعث کھیل کے میدان ویران ہوگئے۔ یہ معاملہ چلتے چلتے 2016ء تک پہنچا جب پاکستانی ہاکی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی اور پاکستان پہلی مرتبہ اولمپک مقابلوں کے لیے کوالیفائی نہ کرسکا۔ یہ کہانی ٹوکیو اولمپکس 2020ء میں دوسری مرتبہ دہرائی جارہی ہے۔ اب ذمہ داران سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ جب 2016ء میں پہلی مرتبہ ہم اولمپک مقابلوں سے باہر ہوئے تھے تو پھر 2020ء کے لیے کیا تیاری کی گئی؟جواب آئیں بائیں شائیں کرنے کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔ صورتِ حال کو اِس نہج پر پہنچانے میں حکومت کی عدم دلچسپی کا ہاتھ تو ہے ہی لیکن افسو س کہ اِس حوالے سے کھلاڑیوں نے بھی کچھ قابل تحسین کردار ادا نہیں کیا۔ مختلف ادوار میں ہاکی فیڈریشن کے عہدوں پر فائز رہنے والے بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔
2018ء میں ملکی ہاکی ٹیم دولت مشترکہ کے کھیلوں میں دس ٹیموں میں سے ساتویں نمبر پر آئی تھی توجواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ ٹیم تشکیلِ نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے لیکن اِسی سال چیمپئنز ٹرافی کے مقابلوں میں چھ ٹیموں میں ہماری ٹیم آخری نمبر پر آئی تھی۔ اِس پر کچھ شور بلند ہوا تو یہ جواز پیش کیا گیا کہ ہمارا اصل ہدف ایشیائی کھیل ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہاکی کو فروغ دینے کے لیے فنڈز کی کمی رہی ہے تو یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ بعض صورتوں میں فیڈریشن کو کروڑوں نہیں اربوں روپے کی امداد ملتی رہی ہے۔ قوم کو یہ نوید سنائی جاتی رہی کہ ہاکی کو فروغ دینے کے لیے بڑی تعداد میں نچلی سطح پر اکیڈمیاں بنائی جارہی ہیں۔ جانے والے تو چلے گئے مگر کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ وہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی اکیڈمیاں کہاں ہیں؟اب تو ببانگ دہل یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن ''جاب سنٹر‘‘ بن چکی ہے جہاں اپنے منظورِ نظر افراد کو خوش کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ یقینا اِس کی بھی تردید ہی کی جائے گی لیکن یہ بھی تو بتایا جائے کہ آخر ٹیم کی کارکردگی کیا ہے؟سچی بات تو یہ ہے کہ کرکٹ ہو یا ہاکی‘ ہمارے نامور کھلاڑیوں میں سے اگر فیڈریشن یا بورڈ مخالف دو چار بیانات داغ دے تو سمجھ لیں اس کی نوکری پکی ہو گئی۔ ایسی ایک‘ دو نہیں درجنوںمثالیں ہیں۔ مقصد حاصل ہونے کے بعد خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ حکومت سے گلہ کر کر کے ہم تھک چکے ہیں، بارہا اربابِ اختیار کی اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ حکومت کی اپنی کمزوریاں ہوتی ہیں اور یہ اِسی کا نتیجہ رہا ہے کہ سوائے کرکٹ کے‘ سب کھیل اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ ہاکی کے حوالے سے ہمیں ابھی اپنا حوصلہ مزید مضبوط کرنا ہوگا کہ بیس سالوں سے ہم ہاکی کے میدانوں میں جو مار کھا رہے ہیں، ابھی اُس سلسلے کے ختم ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں