"FBC" (space) message & send to 7575

الوداع دلیپ صاحب!

یوسف خان کہیں، دلیپ کمار کے نام سے پکاریں یا صرف ''صاحب‘‘ کہیں‘ بات سمجھ میں آجائے گی۔ معلوم پڑ جائے گا کہ برصغیر کی کس شخصیت کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ وہ شخصیت جس کی وفات پر امیتابھ بچن نے ٹویٹ کیا: آج کے بعد ہندی فلمی صنعت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی ہے، اِسے اب یوں یاد رکھا جائے گا کہ ہندی فلمی صنعت دلیپ کمار سے پہلے اور دلیپ کمار کے بعد۔ غالباً اِس سے پہلے جس اداکار کے بارے میں یہ الفاظ سامنے آئے تھے‘ وہ ہالی ووڈ کے عظیم اداکار مارلن برانڈو تھے۔ وہ بھی اپنی طرزِ کی واحد شخصیت تھے جن کا فلمی کیریئر نصف صدی پر محیط رہا۔ اپنے اِس طویل دور میں مارلن برانڈو نے لگ بھگ چالیس فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ جب مسٹر مارلن اِس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُن کی وفات پر بھی یہی کہا گیا تھا کہ مارلن برانڈو نے ہالی ووڈ کی تاریخ تبدیل کردی۔ ہالی ووڈ مارلن برانڈو سے پہلے اور مارلن برانڈو کے بعد۔ بعض مشہور تاریخی مقامات کے بارے میں بھی ایسے استعمال ہوتے رہے ہیں‘ جیسے بھارت کے شہر آگرہ میں میں ایستادہ تاج محل کے تناظر میں یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں دوطرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔ اب اگر ایسے الفاظ میں عظیم اداکار دلیپ کمار کو خراجِ تحسین پیش کیا جارہا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی شخصیت کتنی سحر انگیز رہی ہوگی۔ مارلن برانڈوں کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں پر محیط تھا جبکہ دلیپ صاحب چھ دہائیوں تک اپنے فن کے جوہر دکھاتے رہے۔ اندازہ کیجئے کہ آج کے دور میں جہاں کوئی بھی اداکارفخر سے یہ بات کرتا ہے کہ وہ کئی سو فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکا ہے‘ وہیں دلیپ صاحب نے اپنے چھ دہائیوںکے کیریئر میں صرف 63 فلموں میں کام کیا۔ مطلب یہ کہ ایک سال میں تقریباً ایک فلم کی اوسط رہی۔ اگراُن کے فن کو معاوضے کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ لگا لیجئے کہ وہ 1950ء میں بھی ایک فلم کا معاوضہ ایک لاکھ روپے وصول کیا کرتے تھے۔
میدانِ اداکاری کا یہ شاہ سوار اپنی زندگی کی 98بہاریں دیکھ کر اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوچکا ہے لیکن اپنے پیچھے لازوال یادیں چھوڑ گیا ہے۔ 1922ء میں پشاور میں پیدا ہونے والے دلیپ صاحب کے والد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے۔ اِسی سلسلے میں اُن کا زیادہ وقت بمبئی میں گزرتا تھا۔ بعض اوقات اچانک پیش آنے والے واقعات کسی کی زندگی بدل کررکھ دیتے ہیں۔ دلیپ کمار کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے وہ ممبئی آتے جاتے رہتے تھے۔ اِسی دوران اُن کا تب کے معروف تھیٹر بمبے ٹاکیز میں جانا ہوا تو وہاں دیویکا رانی سے ملاقات ہوگئی۔ اپنے زمانے کی اِس مشہور فلمساز خاتون کو دلیپ کمار(تب یوسف خان)میں نجانے کیا دکھائی دیا کہ وہ اِس نوجوان کی گرویدہ ہوگئی۔ اس نے نوجوان یوسف سے سوال کیا: میاں آپ کو اُردو آتی ہے؟ جواب اثبات میں ملنے پر پھر کہا کہ میں آپ کو اداکار کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ بس اِس ایک واقعہ نے یوسف خان کی زندگی تبدیل کرکے رکھ دی۔ اِس کے بعد تو گویا ایک تاریخ مرتب ہونا شروع ہوگئی جس نے برصغیر کی فلمی صنعت پر اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ راج کپور اور دیوآنند کا بھی یہی زمانہ تھا کہ وہ دونوں فن کار تب اپنے فن کا خوب لوہا منوا رہے تھے۔ اِسی تناظر میں اِن تینوں کو برصغیر کی فلمی صنعت کی مثلث قرار دیا جانے لگا تھا۔ پھر وقت نے ثابت کیا کہ ان تینوں میں سے اداکاری کی جو صلاحیت دلیپ کمار کے پاس موجود ہے، وہ انہی کا خاصا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیوآنند ہمیشہ ایک مخصوص خول میں بند رہے‘ دوسری طرف راج کپور نے ہمیشہ چارلی چپلن کو اپنے اوپر طاری کیے رکھا، ایسے میں دلیپ کمار نے جس طرح مختلف فلموں میں مختلف کردار نبھائے تو یہ اپنے ہمعصر بڑے اداکاروں سے کہیں آگے نکل گئے۔ گنگا جمنا میں ایک اَن پڑھ گنوار کا کردار نبھایا تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی بھی دلیپ صاحب سے بہتر یہ کردار ادا کرہی نہیں سکتا۔ مشہور زمانہ فلم مغل اعظم میں شہزادہ سلیم کے کردار سے ایسا انصاف کیا کہ سبھی اَش اَش کر اُٹھے۔
دلیپ کمارکی بیشتر فلمیں تو ہم نے دیکھ رکھی ہیں۔ اُن کی آخری فلموں میں سے ایک فلم سگینہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اِس میں بھی دلیپ کمار کو ایک لااُبالی لیکن محب وطن نوجوان کا کردار بہت خوب انداز میں نبھاتے ہوئے دیکھا۔ اِس فلم کی ایک خوبصورتی یہ تھی کہ اِس میں دلیپ کمار کی اہلیہ سائرہ بانو ہی بطورِ ہیروئین اپنے شوہر کے مد مقابل تھیں۔ کیا شاندار فلم تھی جس میں اس شاندار جوڑی نے اپنے فنِ اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔ جس شاندار انداز میں اِس جوڑی نے فلموں میں اپنے کردار نبھائے، ویسے ہی اِن دونوں کی زندگی کی اننگز بھی بہت شاندار رہی۔ اتنی شاندار کہ اپنے صاحب کی وفات پر سائرہ بانو نے اِن الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے جینے کی وجہ چھین لی ہے۔ بلاشبہ اُن کے لیے یہ صدمہ بڑا ہے کہ دونوں نے زندگی کے 57سال ایک ساتھ گزارے ہیں۔ پھر دلیپ کمار سے سائرہ بانوکا عشق ایسا تھا کہ اُن کی طرف سے اکثر بیان کیا جاتا کہ ''میں تب 12برس کی تھی جب میں نے مغلِ اعظم کے سیٹ پر دلیپ کمار صاحب کو دیکھا تھا، میں نے اِنہیں دیکھتے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر میری شادی ہوگی تو صرف دلیپ صاحب سے، میں بہت خوش نصیب تھی کہ میری زندگی کی یہ سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی‘‘۔ جب اِن دونوں کی شادی ہوئی تو تب سائرہ بانو بائیس برس کی تھیںاور دلیپ کمارزندگی کی چالیس بہاریں دیکھ چکے تھے۔ دونوں کی عمر میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے اکثر افراد کا خیال تھا کہ یہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گی لیکن دونوں نے ایک دوسرے کا کیا خوب ساتھ نبھایا کہ ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اِس دوران زندگی میں کچھ ناخوشگوار لمحات بھی آئے لیکن یہ زیادہ عرصے تک درمیان میں حائل رہنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
بے شک ہرذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جن کی جدائی ہرکوئی محسوس کرتا ہے۔ دلیپ کمار کے حوالے سے بھی یہ بات بلاشک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ اِن کی وفات کا دکھ سرحد کے دونوں اطراف ہی نہیں‘ پوری دنیا میں محسوس کیا گیا ہے۔ بھارت میں اُنہیں پورے سرکاری اعزا ز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ اُن کی شخصیت کے سحر کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹرا میں ہندوتوا کی پرچارک حکومت کی طرف سے بھی اُنہیں بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ بھارت میں کورونا کی شدت کے باعث اُن کی نماز ِجنازہ میں تو محدود افرادنے شرکت کی لیکن لوگوں کا ایک جم غفیر کئی روز تک اُن کی رہائش گاہ کے باہر دکھائی دیتا رہا۔ ان افراد میں مذہب کا کوئی امتیاز دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گویا دلیپ کمار نے جاتے جاتے بھی ''مودی کے بھارت‘‘ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک کردیا۔ پاکستان میں بھی کئی مقامات پر دلیپ کمار کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
اب آخر میں دلیپ کمار کے حوالے سے ایک منفرد واقعے کا ذکر: 1999میں بھارتی وزیراعظم واجپائی دورۂ لاہور کے بعد جب وطن واپس لوٹے تو اُنہیں بتایا گیا کہ کارگل میں ددنوں ملکوں کے مابین جنگ چھڑ چکی ہے، اِس پر واجپائی صاحب نے وزیراعظم نواز شریف کو فون کر کے گلہ کیا،نواز شریف نے معاملے کی جانچ کے لیے کچھ وقت مانگا۔ اِسی دوران واجپائی بولے کہ آپ کے ایک دوست بھی میرے پاس بیٹھے ہیں‘ لیجئے اُن سے بات کیجئے۔ تب نواز شریف صاحب نے فون پر جو آواز سنی وہ دلیپ کمار کی تھی۔ اُنہوں نے اپنی مختصر گفتگو میں اتنا ہی کہا ''آپ کو شاید علم نہیں کہ جب بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا ہے تو بھارتی مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جاتی ہے، خدارا! صورتحال میں بہتر ی کے لیے کچھ کریں‘‘۔ اب یہ سب کچھ یادوں میں ہی باقی رہ گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں