"FBC" (space) message & send to 7575

صفائی کرنے والوں کا شکریہ!

گندگی اٹھانے والے اچھے‘ پھیلانے والے گندے‘صفائی کرنے والوں کا شکریہ۔میں صفائی کرنے والوں کا شکرگزار ہوں‘صفائی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے مگربحیثیت مجموعی ہم نے گندگی کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنا کرہی دم لیا ہے۔اگرچہ باتوں کی حد تک ہم ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے‘ لیکن کیا کیا جائے کہ جیسے ہم بہت سی دوسری اچھی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اُن پر عمل نہیں کرتے‘ صفائی کے حوالے سے بھی ہماری یہی کیفیت ہے۔ جدھر بھی دیکھیں گندگی ہی گندگی دکھائی دیتی ہے۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ گلیوں میں‘ گلیوں کا گند سڑکوں پر۔ جگہ جگہ پان کی پیک کے نشانات‘ ہر طرف اُڑتی ہوئی گرد اور ایسا ہی بہت کچھ اب تو جیسے ہماری کی پہچان بن کر رہ گیا ہے۔ابھی گزشتہ دنوں ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کی صورت حال دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ یا خدا روشنیوں کے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی۔ ہرطرف گندگی ہی گندگی منہ چڑا رہی تھی۔ میزبانوں سے اس بابت دریافت کیا تو جواب ملا کہ بھیا ہم تو یہ صورت حال سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ بتایا گیا کہ جنابِ عالی اب تو اس گندگی کی وجہ سے اکثر امراض پھوٹتے رہتے ہیں۔ ابھی ایک آدھ سال پہلے ہی کی تو بات ہے جب وہاں قدرے زیادہ بارشیں ہوئیں تو پورا شہر جیسے پانی میں ڈوب کر رہ گیا۔شہرکے نسبتاً ترقی یافتہ علاقوں کے مکین بھی اپنے گھروں سے پانی نکالتے ہوئے دکھائی دیے۔ وجہ یہ سامنے آئی کہ شہر سے نکاسیٔ آب کے نالوں کے اوپر تجاوزات تعمیر ہوچکی ہیں جبکہ پھینکی ہوئی گندگی سے نالے اٹ چکے ہیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا کہ تیز بارش کی صورت میں پورا شہر گندے پانی میں غرق ہوکر رہ گیا۔ یہ کسی پسماندہ شہر کی نہیں ‘ ملک کے سب سے بڑے شہر کی صورت حال کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ وہ شہر جوپورے ملک کو ستر فیصد ریونیو کما کر دیتا ہے۔ وہ شہر جو کسی زمانے میں خوابوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ جہاں جانا کسی خواب سے کم نہیں ہوتا تھا۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ سب سے پہلے 1985ء میں کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو ایسے محسوس ہوا جیسے کسی خواب کی تعبیر مل گئی ہو۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر سے سیاسی قوتوں کے خاتمے کے لیے لسانیت کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن پھر بھی وہاں جا کر بہت اچھا محسوس ہوا۔ اب جو تھوڑا عرصہ قبل وہاں گئے تو شہر کی حالت دیکھ کر جیسے سارے خواب ہی چکنا چور ہوکر رہ گئے۔
سچی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے حالات دیکھ کر اپنے شہر لاہور کی صورت حال بہت غنیمت محسوس ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ پورے شہر میں صفائی کی صورت حال کو مثالی تو قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن پھر بھی دوسرے شہروں کی نسبت یہاں کے حالات بہت بہتر محسوس ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس کے لیے ہمیں شہر سے کوڑا اٹھانے کے ذمہ دارادارے کا شکرگزار ہونا چاہے۔ اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اُس وقت شہر کی سڑکو ں کو صاف کررہے ہوتے ہیں جب ہم میں سے بیشتر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہتے ہوتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب وہ مارکیٹوں میں دکانداروں کا پھیلایا ہوا کوڑا کرکٹ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ گلی محلوں کی صفائی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ ورکرز جس طرح سے شہر کو صاف رکھنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں وہ سچ میں قابلِ ستائش ہے۔ اب ذرا ان کے حوالے سے اگر ہم اپنے رویوں کا جائزہ لیں تو شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پورے شہر کو تعفن اور گندگی سے نجات دلانے والوں کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ متعدد بار یہ مناظر دیکھنے کو ملے کو سینٹری ورکر صفائی کررہا ہے تو پاس سے گزرنے والا انتہائی ہتک آمیز لہجے میں اُسے مخاطب کرکے اپنا کام روکنے کا حکم صادر فرماتا ہے''اوئے تینوں نظر نہیں آندا میں گزرنا پیاں واں‘بند کر اے مٹی اُڈانا(ارے تمہیں نظر نہیں آرہا کہ میں گذر رہا ہوں‘ بند کرو یہ گرد اُڑانا)۔ اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر اوقات ہمارا سینٹری ورکرز کے ساتھ یہی ہتک آمیزرویہ ہوتا ہے۔ یہ مناظر تو آپ نے بھی اکثر دیکھے ہوں گے کہ جب رات کو دکاندار اپنی دکانیں بند کرتے ہیں تو اُس سے پہلے دکان میں پڑا ہوا دن بھرکا کوڑا کرکٹ باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ بعد میں خود ہی دہائیاں دیتے رہتے ہیں کہ جی حکومت صفائی نہیں کرتی۔ دیکھیں جی ہرطرف گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی ہے لیکن کوئی نوٹس لینے والا نہیں ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہی پھیلائے ہوے گند کو اُٹھانے والی ہماری نظر میں گندے ہیں لیکن جو گند پھیلاتے ہیں وہ اچھے ہیں۔ ان حالات میں بھی جب صفائی کے ذمہ دار اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نظرآتے ہیں تو سچ میں بہت خوشی ہوتی ہے۔یہ لوگ دوسروں کی باتیں بھی سنتے ہیں اور اُن کا پھیلایا ہوا گند بھی اُٹھاتے ہیں۔
اب عید الاضحی کی آمد آمد ہے۔ اس موقع پر ہرطرف وہی رونقیں دکھائی دے رہیں جو اس موقع کا خاصا ہوتی ہیں۔ جدھر بھی دیکھیں قربانی کے جانوروں کی بہار دکھائی دے رہی ہے۔ خریداروں اور بیوپاری حضرات کے درمیان بھاؤ تاؤ کی بحث کے دلچسپ مناظر۔اپنے پیارے جانوروں کو ادھر اُدھر ٹہلاتے ہوئے بچے اور ایسے بہت سے مناظر جو ہر بڑی عید پر دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ اب کے بار ایک فرق ضرور محسوس ہورہا ہے کہ یہ عید مہنگائی کی شدید لہر کے دوران منائی جارہی ہے۔ ہر طرف مہنگائی کے حوالے سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ مہنگائی بڑھتی اور شہریوں کی قوتِ خرید گھٹتی جارہی ہے پھر بھی صاحبانِ بساط اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب شہر میں سب سے زیادہ سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے۔ معمول کے دنوں میں لاہور میں ہرروز تقریبا ًچھ سے سات ہزار ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے لیکن عید کے پہلے روز یہ مقدار 20ہزار ٹن سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ عید کے بعد دو روز کے دوران بھی سالڈ ویسٹ معمول کے دنوں سے زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے صفائی کرنے والا ادارہ خصوصی آپریشن کا اہتمام کرتا ہے تاکہ شہر میں صفائی کی صورت حال برقرار رہے۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ صفائی کے لیے یہ ادارہ تشکیل دیے جانے سے پہلے عید الاضحی پر شہر میں صفائی کی کیا صورت حال ہوا کرتی تھی۔ یقین جانیے کہ عید کی آمد سے پہلے ہی دل بیٹھنے لگتا تھا کہ یا خدایا عیدکے بعد ہر طرف پھیلی ہوئی گندگی تو جیناحرام کردے گی۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ گلی محلے تو ایک طرف رہے‘ بڑی شاہراہیں بھی جانوروں کی الائشوں سے اٹ جاتی تھیں۔ کئی کئی ہفتوں تک یہ گندگی ہرطرف کچھ ایسے پھیلی رہتی تھی کہ کھانا پینا اور سانس لینا بھی محال ہوجاتا تھا۔ کئی کئی ہفتوں کے بعد شہر میں صفائی کی صورت حال معمول پر آتی تھی۔
اپنے رویوں کا اندازہ لگائیے کہ قربانی جیسے مقدس فریضے کی انجام دہی بھی اس انداز میں انجام دی جاتی تھی کہ پورا شہر گندگی سے اٹ جاتا تھا۔ ہمارے ان رویوں میں کچھ زیادہ تبدیلی اب بھی نہیں آئی لیکن اب اگر زیادہ گندگی پھیلی دکھائی نہیں دیتی تو اس کے لیے ہمیں سینٹری ورکرز کا شکرگزار ہونا چاہے۔ عید پر یہ جس طرح ہرطرف پھینکی گئی الائشوں کو اُٹھا رہے ہوتے ہیں یہ اُنہی کا حوصلہ ہے لیکن پھر بھی ہمارے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے ہی پھیلائے ہوئے گند کو اُٹھانے والوں کو ہم اپنے پاس تک نہیں پھٹکنے دیتے۔ اللہ کے بندو یہ تو دیکھو کہ وہ کس کی پھیلائی ہوئی گندگی اُٹھاتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو صفائی کو نصف ایمان قرار دیتے ہوئے ہرطرف گندگی پھیلاتے رہتے ہیں۔ افسوس کہ پنجاب میں موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد شہر میں صفائی کے معاملات کم ازکم دس مرتبہ انتہائی دگرگوں صورت اختیار کرگئے۔ اس لیے کہ نہ صرف صفائی کے ذمہ دار ادارے کے معاملات میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے بلکہ اکثر اوقات فنڈز بھی روک لیے جاتے ہیں۔ بیانات وہی آتے رہتے ہیں کہ صفائی کی صورت حال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا لیکن عملًا اس کام کے ذمہ دار ادارے کو مالی وسائل ہی مہیا نہیں کیے جاتے۔صورت حال خراب ہوتی ہے تو مطعون سینٹری ورکرز کو ہونا پڑتا ہے۔ آپ نے خود اندازہ لگایا ہوگا کہ جب صفائی کے معاملات دگرگوں ہوتے ہیں تو کس طرح سے شہر بھر میں تعفن پھیل جاتا ہے۔ سکھ کا سانس تبھی نصیب ہوتا ہے جب یہ کوڑا کرکٹ اُٹھایا جاتا ہے۔
سو بات کرنے کا مقصد اتنا سا ہی ہے کہ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے تو پھر اس بات پر عمل بھی کیا جانا چاہیے۔ وہ جو ہمارے ماحول کو صاف ستھرا رکھتے ہیں‘اُن کی تحسین کی جانی چاہے۔ اب عید کی آمد آمد ہے تو ہم کم از کم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ جانوروں کی الائشیں شاپنگ بیگ میں ڈال کر کسی ایسی جگہ پر رکھ دیں جہاں سے صفائی کا عملہ انہیں آسانی سے اُٹھا لے۔ جان رکھیے کہ صاف ستھرا ماحول ہی ہماری صحت کا ضامن ہے جس کے لیے ہمیں صرف حکومت پر انحصار کرنے کی بجائے خود بھی کچھ ہاتھ پاؤں ہلا لینے چاہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں