"FBC" (space) message & send to 7575

’’بدمعاش حاضر ہوں‘‘

کوئی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا تھانوں میں حاضر ہوتا ہے مگر اکثر کے شاندار لباس کو دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ کیوں تھانوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تھانوں میں اِن بیچاروں کا کوئی کام اٹکا ہوا ہے جس کے لیے اِنہیں چکر پہ چکر لگانا پڑ رہے ہیں۔ سوائے چند ایک کے‘ جنہیں دیکھ کر یہ جاننا مشکل نہیں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو باقاعدہ بدمعاشوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اب اِن کے لیے لاہور میں اپنے اپنے علاقوں کے تھانوں میں روزانہ کی بنیاد پر حاضر ہونے کا حکم جاری کیا گیا ہے‘ سو پولیس سٹیشنز میں اِن کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ اِن کی اکثریت ہنستے‘ مسکراتے چہروںکے ساتھ تھانوں میں حاضر ہوتی ہے۔ پولیس اہلکاروں سے خوش گپیاں ہوتی ہیں اور پھر حاضری لگوانے کے بعد اپنا اپنا راستہ ناپا جاتا ہے۔ اب وہ زمانے تو لد چکے جب بستہ الف یا بستہ ب کی فہرست میں شامل افراد دور سے ہی پہچانے جاتے تھے کہ جن کے نام تھانوں میں پڑے رجسٹروں میں درج ہوتے تھے۔ اُن کا حلیہ اور چال ڈھال ہی ظاہر کر دیتی تھی کہ ان کا تعلق کس قبیل سے ہے۔ آج بستہ رجسٹرز تو ختم ہو چکے کہ سب کچھ تبدیل ہونے کے بعد زندگی کے اِس شعبے میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں؛ تاہم اب بستہ رجسٹر کی جگہ فورتھ شیڈول نے لے لی ہے۔ بالکل اِسی طرح معاشرے کے ان بظاہر ناپسندیدہ افراد میں سے بھی بیشتر نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا ہے۔ نئے بدمعاش اب لمبے لمبے کرتوں، گلے میں مفلر، ہاتھوں میں مختلف نوعیت کے بریسلٹ وغیرہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ اب سوٹڈ بوٹڈ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی شک ہو تو اِن دنوں تھانوں میں روزانہ کی بنیاد پر حاضری لگوانے والوں کو دیکھ کر خود ہی اندازہ لگا لیں۔
دنیا نیوز کے کرائم رپورٹر مدثر حسین نے لاہور میں سرگرم مختلف قبضہ گروپوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر پر کافی تحقیق کر رکھی ہے۔ اُن کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اِس وقت صرف لاہور میں قبضہ مافیا، بھتہ خوروں اور دیگر بڑے جرائم پیشہ عناصرکی 238 افراد پر مشتمل فہرست پولیس کے پاس موجود ہے۔ اُنہوں نے جب یہ فہرست ہمارے سامنے رکھی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اِس فہرست میں بظاہر معزز دکھائی دینے والے ایسے ایسے افراد کے نام شامل تھے جن کے بار ے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اُن کا چھپا ہوا چہرہ اِس قدر بھیانک ہو گا۔ یہ سب افراد محکمہ پولیس میں موجود اپنے مددگاروں کی معاونت سے اپنے علاقوں میں مختلف سرکاری و نجی پراپرٹیز پر قبضے کرتے ہیں، بھتے وصول کرتے ہیں اور شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے دہشت پھیلاتے رہتے ہیں۔ اِس فہرست میں ہر علاقے میں سرگرم جرائم پیشہ عناصر کے گروہوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ دراصل اب اِن کے حوصلے اتنے بڑھ چکے تھے کہ یہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اِسی تناظر میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے یہ تجربہ کیا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کو روزانہ کی بنیاد پر تھانوں میں حاضر ہونے کا پابند بنایا گیا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہ سلسلہ انگریز دور میں اپنے آغاز پر دکھائی دیتا تھا۔ انگریزوں نے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ عناصر کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کیا تھا جس کے تحت ہر تھانے میں دو رجسٹر رکھے جاتے تھے۔ اِن میں سے ایک میں بستہ الف کے اور دوسرے میں بستہ ب کے بدمعاشوں کے نام درج ہوتے تھے۔ یہ لوگ ہر وقت شخصی ضمانت پر ہوا کرتے تھے اور علاقے کا پولیس افسر جب چاہتا‘ انہیں لاک اَپ میں بند کر دیتا۔ کسی بھی علاقے میں کوئی جرم ہوتا تو سب سے پہلے یہ اندراج شدہ عناصر ہی پولیس کی گرفت میں آتے تھے۔ اِن لوگوں کے عوامی میلوں ٹھیلوں میں جانے پر بھی پابندی عائد ہوتی تھی۔
بستہ الف اور بستہ ب کے بدمعاشوں کی اصطلاح قیام پاکستان کے بعد بھی طویل عرصے تک رائج رہی۔ اِن میں سے بہت سے بدمعاش شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک لاہور میں بدمعاشوں کے تقریباً ایک سو بڑے گروپ وجود میں آ چکے ہیں جو مختلف اوقات میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اِس پہلو پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق‘ لاہور میں پہلی مشہور دشمنی کا سلسلہ نادر اور داؤد گروپوں کے درمیان شروع ہوا تھا۔ یہ دونوں دشمنی کے آغاز سے پہلے دوست تھے لیکن پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے۔ 1965ء میں لاہور کے نواحی علاقے ہنجروال شاہ پور میں پیر منا اور ملک اشرف کے درمیان چودھراہٹ پر شرو ع ہونے والی دشمنی میں متعدد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اِس دشمنی کے دوران ملک اشرف گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد نے برات کا روپ دھار کر اپنے دشمنوں کو قتل کیا تھا جس بنا پر یہ دشمنی سہروں والی دشمنی بھی کہلاتی رہی۔ اندازہ ہے کہ اِس میں 60 کے قریب افراد قتل ہوئے تھے۔ لاہور میں ہی شیخ اصغر اور ماجھا سکھ کی دشمنی بھی طویل عرصے تک جاری رہی۔ یہ دشمنی بھی 25 سے 30 افراد کی جان لے گئی لیکن بعد میں شریف برادران کی مداخلت پر دونوں گروپوں میں مصالحت ہو گئی تھی جس کے بعد سے اب دونوں گروپ پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ شیخ اصغر کے ایک صاحبزادے شیخ روحیل اصغر اِس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں۔ لاہور کے سرحدی علاقے میں بھیلا بٹ گروپ کی دشمنی بھی اپنے وقت میں دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اندرونِ شہر میں قوما قصائی کی جگا گجر سے دشمنی نے بہت شہرت حاصل کی تھی۔ لاہور کے علاقے ہنجروال میں ریت کے تنازع پر شروع ہونے والی دشمنی 50 سے زائد افراد کی جان لے گئی تھی۔ اِس دشمنی کے دوران بھی کالو شاہ پوریا نامی ایک شخص نے دُلہے کا روپ دھار کر اپنے ساتھیوں کی مدد سے 9 مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اِن چند ایک مشہور دشمنیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر دشمنیاں بھی چلتی رہی ہیں اور آج بھی چل رہی ہیں۔ جب تک دشمنیوں کو آسانی سے انسانوں کا ایندھن ملتا رہے گا، تب تک یہ آگ اِسی طرح سلگتی رہے گی۔ اِن تنازعات میں اُلجھے ہوئے افراد جرائم کی دنیا میں بھی سرگرم عمل رہتے ہیں کیونکہ دشمنی کی آگ کو جلانے کے لیے بے تحاشا وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے ہر حربہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ کے رہنما عمران نذیر اور متعدد دیگر شخصیات کی مداخلت پر لاہور کے تین بڑے دشمن دار گروپوں کے درمیان صلح کروائی گئی اور اب ان کی دشمنی کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔بہرحال اب جو جرائم پیشہ افراد کو تھانوںمیں حاضری کا پابند بنایا گیا ہے‘ اِس عمل سے بہتر نتائج کی توقع بھی رکھی جانی چاہیے۔ دراصل اِس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ پولیس کی نظروں میں رہیں اور اِنہیں زیادہ کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔ اِس حوالے سے یہ بات ضرور اہم ہے کہ بستہ الف، ب یا فورتھ شیڈول میں شامل جرائم پیشہ عناصر میں سے متعدد ایسے بھی ہیں جو دوسروں کے جرائم کا بوجھ لے کر اِس دنیا میں داخل ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو ہمارے خطے میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ بڑے بڑے لوگ یا اُن کے بچے جرم کرتے ہیں اور پھر یہ بوجھ اپنے ملازمین، کمیوں اور مزارعوں پر لاد دیتے ہیں۔ جرم کرنے والے پاک صاف گھومتے رہتے ہیں اور اُن کے جرائم کا بوجھ اُٹھانے والے تمام عمر یہ بوجھ اپنے کندھوں پر لادے پھرتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسے افراد پولیس مقابلوں میں پار ہو جاتے ہیں اور کیس بند کر دیے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بظاہر بدمعاش قرار پانے والوں کے ساتھ ساتھ پس پردہ ڈوریاں ہلانے والے ہاتھوں پر بھی ہتھکڑیاں دکھائی دیں‘ جو دوسروں کو جرائم کی دنیا میں دھکیلتے ہیں‘ اُنہیں خود بھی اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ بہرحال اب جو جرائم پیشہ عناصر کی تھانوں میں حاضری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو اِسے مستقبل بنیادوں پر جاری رہنا چاہیے۔ اِس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے ناموں کا بھی دوبارہ جائزہ لیا جائے کیونکہ بوجوہ اِس فہرست میں ایسے نام بھی شامل ہو چکے ہیں جو جرائم کے بجائے کچھ دیگر سرگرمیوں کے ذمہ دار ہیں۔ اِس بنا پر ضروری ہے کہ فورٹھ شیڈول میں شامل افراد کے ناموں کا از سر نو تفصیلی جائزہ لیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں