"FBC" (space) message & send to 7575

ہرصفحے پر بے گناہی کی داستان!

ایک ایسے شخص کی داستان غم پڑھئے جو بلوچستان کی خضدار جیل میں طویل قید کاٹ رہا تھا۔ اُس پر الزام تھا کہ وہ نہ صرف منشیات فروشی کرتا ہے بلکہ منشیات کا سمگلر بھی ہے۔ اِس شخص کی داستانِ غم کے راوی بلوچستان ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس نعیم اختر افغان ہیں۔ یہ داستان اُنہی کی زبانی آپ کو سنواتے ہیں جس کے بعد آپ خود فیصلہ کرلیجئے گا کہ ہم انصاف کے کس راستے پر چل رہے ہیں۔ جسٹس صاحب کی زبانی اِس واقعے کی تفصیلات چند روز قبل اس وقت سامنے آئیں جب چیف جسٹس صاحب نے اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں موجود وکلا کو یہ کہانی سنائی۔ یہ عشائیہ بلوچستان ہائی کورٹ کے سبزہ زار پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل کے سپریم کورٹ کا جج بننے اور جسٹس نعیم اختر افغان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے نامزدگی کی خوشی میں دیا گیا تھا۔ عدالتی شعبے سے تعلق رکھنے والے کچھ دوستوں سے اِس بابت میری گفتگو بھی ہوتی رہی لیکن بوجوہ اِس پر لکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ یوں بھی ایسے معاملات پر لکھنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے ۔اب یہ واقعہ چونکہ خود بلوچستان ہائیکورٹ کے نامزد چیف جسٹس صاحب نے بیان کیا ہے تو اِسے آپ تک پہنچانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ سچی بات ہے کہ یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے نظامِ انصاف میں موجود اُن نقائص کی نشاندہی ہے جن کی بنا پر اِس نظام پر اکثر سوالات اُٹھتے رہتے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر نے بتایا کہ جب وہ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج تھے تو ایک موقع پر وہ خضدار جیل کا دورہ کرنے کے لیے گئے۔ جب وہ جیل سے باہر نکل رہے تھے تو اچانک ایک بیرک سے اُنہیں کسی شخص نے آواز دی۔ چیف جسٹس صاحب آواز دینے والے شخص کے قریب گئے تو گلوگیر لہجے میں وہ شخص بولا کہ کیا آپ میری بات سنیں گے؟ جج صاحب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، میں آپ کی باتیں ہی تو سننے آیا ہوں۔ جج صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرا پیار سے اتنا کہنا تھا کہ وہ شخص زاروقطار روپڑا۔ اُس قیدی کی ہسٹری منگوائی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ منشیات سمگلنگ کے جرم میں عمرقید کی سزا بھگت رہا ہے۔ جج صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص سے کہا کہ جب آپ منشیات سمگلنگ کا دھندہ کریں گے تو ظاہر ہے آپ کو اِس کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی۔ بقول چیف جسٹس صاحب‘ اِ س دوران وہ شخص مسلسل آہ و فغاں کرتا رہا۔
جب قیدی کو اپنی داستان سنانے کا کہا گیا تو اس شخص نے اپنی داستان کچھ اِن الفاظ میں سنائی: میری ایک بھتیجی کی شادی کوئٹہ میں ہوئی تھی لیکن اُس کا اپنے میاں سے نباہ نہ ہوسکا، دونوں میں طلاق ہوگئی جس کے بعد میں اپنی بھتیجی کو جہیز میں دیا گیا سامان لینے کے لیے کوئٹہ آیا، اور ایک اڈے سے ٹرک کرایا جس میں سامان رکھا اور کراچی کی طرف عازمِ سفر ہوگیا، راستے میں اوتھل کے مقام پر ایک چیک پوسٹ آئی جہاں ٹرک کی چیکنگ کی گئی تو اُس میں سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد ہوئیں، میں نے اپنی بے گناہی کی لاکھ دہائیاں دیں لیکن میری کسی نے ایک نہ سنی، میں نے اہلکاروں کو اپنی بے گناہی کے تمام ثبوت بھی پیش کیے، ناظرکی بنائی ہوئی سامان کی فہرست بھی پیش کی لیکن مجھے حوالات میں ڈال دیا گیا، میرے خلاف مقدمہ چلا اور مجھے بھی ٹرک ڈرائیور کے گناہ کا شریکِ کار ٹھہرا کر عمر قید کی سزا سنادی گئی۔
جج صاحب کہتے ہیں کہ وہ قیدی ایک مرتبہ پھر زار زار رونا شروع ہوگیا۔ ''میرے یہ عجیب سی بات تھی کہ تفتیشی نے دو افراد کا چالان کیا اور سیشن عدالت نے دونوں کو سزا سنا دی‘‘۔ جج صاحب کے بقول‘ جب اُنہوں نے قیدی سے پوچھا کہ ہائیکورٹ میں آپ کے کیس کی آئندہ سماعت کب ہے تو جواب ملا کہ وہ تین سالوں سے ہائیکورٹ میں اپنی تاریخ کے انتظار میں ہے۔ یہ سن کر اُنہیں مزید تعجب ہوا اور جیل سے واپسی پر وہ سیدھے چیف جسٹس صاحب کے پاس گئے اور اُن سے درخواست کی کہ اِس کیس کو وہ خود سننا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے فوراً اجازت دے دی۔ جب اُنہوں نے قیدی کے تمام کیس کی ہسٹری منگوائی تو وہ مزید حیرت زدہ رہ گئے۔ چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں ''جب میں نے فائل کا مطالعہ کیا تو اِس کے ہرہر صفحے پر قیدی کی بے گناہی کی داستان رقم تھی، میں حیران ہوگیا کہ بے گناہی کے اتنے ثبوت ہونے کے باوجود سیشن کورٹ نے کیسے اِس شخص کو سزا سنا دی، پھر جب میں نے یہ جانچا کہ قیدی کی ہائیکورٹ میں اپیل اتنے عرصے سے التوا کا شکار کیوں ہے تو معلوم ہوا کہ قیدی کا وکیل عدالت میں حاضر نہیں ہورہا‘‘۔
چند روز کے بعد جب قیدی کی اپیل کی سماعت بلوچستان ہائیکورٹ میں جسٹس نعیم اختر کی عدالت میں شروع ہوئی تو وکیل ایک مرتبہ پھر غیرحاضر تھا۔ جج صاحب کے کہنے پر اُسے فوری طور پر بلایا گیا اور عدالت میں حاضر نہ ہونے کی وجہ پوچھی گئی۔ اُس کاجواب تھا کہ ملزم اُس کی فیس ادا نہیں کررہا۔ قصہ مختصر یہ کہ کیس کی سماعت ہوئی اور تمام ثبوتوں کے پیشِ نظر جج صاحب نے قیدی کو پانچ منٹوں میں بری کردیا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے نامزد چیف جسٹس صاحب نے بتایا کہ یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے نظامِ انصاف میں موجود خامیاں ہمارے سامنے آئیں۔ دوسری طرف اِس قیدی نے تو شاید خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اُسے اِس طرح انصاف حاصل ہو جائے گا۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اُس کی ایک پکار پرجج صاحب پلٹ کر اُس کی طرف آئیں گے۔ وہ نہ صرف اُس کی پوری کہانی سنیں گے بلکہ اُس کے کیس میں ذاتی دلچسپی بھی لیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہرشخص اتنا خوش قسمت نہیں ہوسکتا کہ اُسے یہ سہولت حاصل ہوجائے‘ ایسے کتنے ہی قیدی آج بھی عدالتوں میں اپنی اپیلوں کے منتظر ہوں گے، کتنے ہی لوگ بے گناہ ہونے کے باوجود نظام کی بوسیدگی کے سبب قید کاٹ رہے ہوں گے۔ کہنے کو ہم لاکھ کہتے رہیں کہ انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے لیکن جب تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے‘ تب تک کچھ نہیں ہوگا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں یہ تاثر پیدا ہوچکا ہے کہ کیسز کے فیصلے ہوتے ہوتے کئی نسلیں اِس جہاں سے کوچ کرجاتی ہیں لیکن مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ اندازہ لگایئے کہ لااینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ ملک بھر کی عدالتوں میں 18سے 20لاکھ کے قریب مقدمات زیرِسماعت ہیں اور اِن میں سے متعدد کیس دہائیوں سے زیرِسماعت ہیں۔ 2018ء میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ایک ایسے کیس کا فیصلہ سنایا تھا جو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے زیرِ سماعت تھا۔ اس کے باوجود بھی ہم یہ نہیں سمجھ پارہے کہ انصاف میں یہ تاخیر‘ انصاف سے انکار ہے۔
اِسی تناظر میں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی کچھ عرصہ پہلے سامنے آنے والی رپورٹ بھی ملاحظہ کر لیں جس کے مطابق‘ صرف 14فیصد افراد نے ملکی نظام انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر متاثرین نے بتایا کہ مقدمہ بازی کے دوران اُنہیں بہت تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اِسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ میں قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے پاکستان 126میں سے 117ویں نمبر پر ہے۔ زمبابوے اور افریقہ کے غیرترقی یافتہ ممالک سے بھی نیچے؛ محض بولیویا اور افغانستان جیسے ممالک سے قدرے بہتر۔ نظام انصاف میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے نہ صرف سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں بلکہ اِن کے نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں۔ یاد پڑتا ہے کہ کچھ سال قبل اسلام آباد میں اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کی ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں نظام انصاف میں بہتری کے لیے متعدد تجاویز کی منظوری دی گئی تھی، اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کی صدارت میں ہونے والی اِس کانفرنس میں متعدد دوسری تجاویز کی منظوری بھی دی گئی تھی لیکن معلوم نہیں بعد میں وہ تجاویز کس سرد خانے کی زینت بن گئیں کہ آج بھی سب کچھ ویسے کا ویسے ہی چل رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہرصفحے پر بے گناہی کی داستان رقم ہونے کے باوجود ایک بے گناہ شخص عمرقید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں