"FBC" (space) message & send to 7575

سب قصور وار شکنجے میں آنے چاہئیں

مختلف سطحوں پر دن رات قوم کا اخلاق سنوارنے کی سعی جاری رہتی ہے‘ خواتین کی عزت کے حوالے سے ہمارے دین کی تعلیمات بھی ہم سب پر واضح ہیں۔ اچھا یا برا‘ لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ اِس سب کے باوجود نجانے ہم نے کون سا راستہ چن لیا ہے۔ کیوں ہمیں مذہبی تعلیمات کا پاس رہا ہے نہ قانون کا کوئی ڈر۔ خدا کی پناہ! یہ نوبت بھی آنا تھی کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ایک خاتون کو نوچتے رہیں اور کوئی اُن کا ہاتھ روکنے والا نہ ہو۔ دن کی روشنی میں یہ واقعہ پیش بھی ایسی جگہ پر آیا جو لاہور کے بیچوں بیچ واقع ہے ۔ ایک ایسا مقام‘ جہاں ہم نے قراردادِ پاکستان منظور کی تھی تاکہ ایک الگ وطن حاصل کرکے اکثریت کے ہاتھوں اپنی عزتوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ واقعہ پیش بھی اُس روز آتا ہے جس دن پوری قوم جشن آزادی منا رہی تھی۔ پورے شہر کی سکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ اِس دوران دو‘ ڈھائی گھنٹوں تک ایک بے قابو ہجوم ایک خاتون کو نوچتا رہتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو پاتی۔
خاتون کی میڈیکل رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اُس کے پورے جسم پر زخموں اور نوچے جانے کے متعدد نشانات ہیں۔ یہ میڈیکل رپورٹ واقعے کی سنگینی کو پوری طرح سے ظاہر کر رہی ہے۔ جس ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، اُس سے ہم لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں اور اِس تناظر میں مختلف آرا بھی سامنے آ رہی ہیں، مثلاً یہ کہ اُس نے چودہ اگست سے ایک روز پہلے خود سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی تھی کہ وہ کل مینارِ پاکستان جا رہی ہے‘ تمام فالوورز وہاں آ جائیں۔ ایک منطق یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد خاتون نے اُسی روز پولیس سے کارروائی کرنے کی درخواست کیوں نہیں کی۔ یہ بھی کہ 14 اگست کو پیش آنے والے واقعے کے بعد 15 اگست کو خاتون نے اچھے موڈ کے ساتھ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر لگائی تھیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن جو ہوا‘ اگر اس کے تناظر میں بات کی جائے تو اِس واقعے کو انتہائی افسوس ناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت پنجاب نے بجا طور پر انتہائی سخت اقدامات کیے ہیں۔ لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس ایس پی آپریشنز کے ساتھ دو دیگر پولیس افسران کو اُن کے عہدوں سے ہٹائے جانے کی شنید ہے۔ گریٹر اقبال پارک کے ذمہ دار ادارے پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی کے دو عہدیداروں کو بھی اُن کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے۔ اعلیٰ ترین حکومتی سطح سے اِسی عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ذمہ داران کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا، درجنوں بلکہ سینکڑوں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جا چکی ہیں، یقینا حکومت اور انتظامیہ اِس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ اُسے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی بھی چاہئیں۔ سچ پوچھیں تو اِس واقعے نے پوری دنیا میں ہمارے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ رہے سہے بھرم کی بھی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں ہوشربا تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بیشتر صورتوں میں ایسا کرنے والوں کا ہاتھ روکا بھی جاتا ہے، ان کی ٹھکائی کے واقعات بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں لیکن جو کچھ 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں ہوا‘ اس کا تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ سینکڑوں نوجوان لیکن کسی ایک کو بھی شرم نہ آئی کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ سنتے ہیں کہ ہمارے شہر میں بیس ارب روپے کی لاگت سے بننے والا سیف سٹی پروجیکٹ بھی کام کر رہا ہے۔ بتایا تو یہ جاتا ہے کہ اِس پروجیکٹ کے تحت شہر بھر میں لگائے گئے کیمروں کی مدد سے سکیورٹی کی صورت حال کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اب یہ الگ بات کہ جب بھی کہیں پر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو بدقسمتی سے وہاں لگے ہوئے کیمرے خراب پائے جاتے ہیں۔ یہی صورت حال گریٹر اقبال پارک میں نصب کیمروں کی ہے۔ صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے یہاں لگائے گئے ساٹھ میں سے پینتیس کیمرے خراب نکلے اور جو کام کر رہے تھے، اُن کی مدد سے ملزمان کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ منطق یہ پیش کی گئی ہے کہ ہجوم کے پتھراؤ کے باعث کیمرے خراب ہوئے ہیں۔
اب ایک طرف جہاں اِس واقعے کو پولیس کی نااہلی قرار دیا گیا ہے تو وہیں ہمارے نزدیک سیف سٹی اتھارٹی بھی اِس کی پوری طرح سے ذمہ دار ہے۔ پارک میں دو‘ اڑھائی گھنٹوں تک سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم ایک خاتون کو نوچتا رہا لیکن اتھارٹی کے کنٹرول روم میں بیٹھے ذمہ داران کو اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اِس واقعے کے بعد سیف سٹی پروجیکٹ کے بارے میں تازہ ترین معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ شہر میں لگے ہوئے کیمروں میں سے تقریباً 30 فیصد کیمرے خراب ہو چکے ہیں۔ اب یہ ٹھیک کیوں نہیں ہو رہے‘ اِس کا وہی روایتی سا جواب ہے کہ بہت جلد تمام کیمرے فعال کر دیے جائیں گے۔ فلاں مسئلہ درپیش آ گیا تھا جس بنا پر بروقت کیمرے درست نہیں کیے جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارہ بھی کھینچا تانی کا شکار رہا ہے۔ دو مختلف ادارے اِس کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل رہے جس کے باعث معاملات خراب ہوتے چلے گئے۔ واقفانِ حال کی جانب سے ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ دو کشتیوں کے سوار کی طرح‘ اب اتھارٹی کی توجہ اپنے اصل فرائض سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کے چالان پر رہتی ہے۔ اب واقعے میں ملوث ملزمان کی شناخت نادار کی مدد سے عمل میں لائی جا رہی ہے۔ کچھ قصوروار قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں جنہیں سخت سزائیں دلانے کے لیے مقدمے میں مزید دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اُمیدِ واثق ہے کہ یہ معاملہ اب اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا اور اِس روشن اُمید کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِس میں زیادہ تر معاشرے کے کمزور لوگ ملوث ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے ہاں قانون کی لاٹھی بیشتر صورتوں میں کمزوروں پر ہی چلتی ہے۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو واقعے میں ملوث افراد کو سزائیں نہ ملنے کی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ اگر بااثر قانون شکن افراد کو سزائیں دلانے میں بھی ایسی ہی سرگرمی کا مظاہرہ کیا جائے تو بے شمار معاشرتی قباحتیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے طرزِ عمل یا اُن کی کارکردگی سے ہٹ کر رہا ہمارے معاشرتی رویوں کا سوال‘ تو حقیقت یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں ہم اِدھر کے رہے ہیں نہ اُدھر کے۔ مجال ہے کوئی‘ کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہو۔ کسی بھی رہنما کی آٹو بائیوگرافی پڑھ لیں تو یہ لگتا ہے کہ اگر اُس کی باتوں پر عمل کیا جاتا تو آج ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے سے خصوصی طور پر گریز کیا جاتا ہے۔ یہی طرزِ عمل نیچے تک دکھائی دیتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ہم اپنی بیشتر اخلاقی اقدار سے محروم ہو چکے ہیں۔ اب اگر خاتون کے حوالے سے یہ بات کردی جائے کہ اُسے بھی احتیاط برتنا چاہیے تھی تو تنقید کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انتہائی بھیڑ والی جگہ پر جا کر اُسے ایسی حرکتیں کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا کہ جن سے دیکھنے والوں میں غلط تاثر جائے تو کہنے والے کو مطعون کرنے کے بعد اِس پر ایک الگ بحث شروع ہو جائے گی۔ البتہ ان سب کے باوجود مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ اِس واقعے کی کوئی توجیہ، کوئی توضیح، کوئی منطق پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ واقعہ بدترین اخلاقی زوال کا غماز ہے اور اِس میں ملوث سبھی افراد کے ساتھ ساتھ انتظامی طور پر نااہلی برتنے والے سب قصوروار بھی قانون کے شکنجے میں آنے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں