"FBC" (space) message & send to 7575

یہ چھوٹے چھوٹے مسائل!

بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جھوٹے مقدمات پر میری تحریر اتنے زخموں کو کرید کر رکھ دے گی۔ کالم کی اشاعت کے فوراً بعد جیسے ای میلز کا تانتا بندھ گیا ہو۔ ہرای میل میں دکھوں اور تکلیفوں کی ایک نئی داستان پڑھنے کو ملی۔ کئی ایک ایسے نکات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی جنہیں ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جاسکا تھا۔ دکھوں کی اتنی داستانیں پڑھنے کے بعد جیسے الفاظ ہی ساتھ چھوڑ گئے ہوں‘سوچتا رہا یاخدا! یہ سب کچھ اُس ملک میں ہورہا ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اُس ملک میں‘ جسے ریاست مدینہ بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ معلوم نہیں ہم کس دنیا میں رہ رہے ہیں کہ ہمیں اِس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوپارہا کہ عام آدمی کی زندگی کس قدر تکلیفوں میں گِھر چکی ہے۔ مانا کہ تبدیلی کوئی بٹن دبانے سے نہیں آ جاتی لیکن کم از کم وہ کام تو کردیں جن پر کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔
گزشتہ دنوں یہ سروے رزلٹ سامنے آئے ہیں کہ اہلِ وطن کی نظر میں اِس وقت سب سے بڑے مسائل بیروزگاری اور مہنگائی ہیں۔ یہ اُس پارٹی کا دورِحکومت ہے جو یہ دعویٰ کرکے حکومت میں آئی تھی کہ ایک کروڑ بے روزگاروں کو نوکریاں دی جائیں گی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے تواتر سے یہ کہا جاتا رہا کہ اگر مہنگائی بڑھتی ہے تو اس کی وجہ اعلیٰ حکومتی سطح پر کرپشن ہے۔ افسوس کہ اب جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے ، اُس پر کوئی شرمندہ ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ اتنی دیدہ دلیری سے مہنگائی سمیت تمام فیصلوں کا دفاع کیا جاتا ہے کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ بیروزگاری تو جو ستم ڈھا رہی ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن اُس پر مہنگائی الگ سے تازیانے برسا رہی ہے۔ اگرچہ میرا آج کا موضوع کچھ اور ہے لیکن موقع کی مناسبت سے مہنگائی کی صورت حال بیان کردینا بھی کچھ غیرمناسب نہیں ہوگا۔ دراصل یہ وہ چند بنیادی مسائل ہیں جن کا سامنا عام آدمی کررہا ہے، اگر یہ حل ہوجائیں تو باقی مسائل کا حل انہی کے اندر سے نکلتا ہے۔
اندازہ لگائیے کہ ستر سالوں کے دوران غیرملکی قرضے 25ہزار ارب روپے تک تھے جوگزشتہ تین سالوں کے دوران 45ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ تین سال پہلے ڈالر 110روپے کے لگ بھگ تھا جو آج 168روپے تک پہنچ چکا ہے۔ چینی تین سالوں میں پچپن روپے سے ایک سو دس روپے تک پہنچ چکی ہے۔ گھی جو اس حکومت سے قبل ایک سو ستر روپے تک تھا‘ گزشتہ تین سالوں کے دوران 345روپے کلو تک جا پہنچا۔ گیس، پٹرول، ادویات اور بجلی کے نرخوں کے حوالے سے بھی یہی صورتِ حال ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب یہ نہیں بتایا جاتا کہ اگر مہنگائی بے محابا بڑھنے لگے تو سمجھ لیں کہ حکمران کرپٹ ہیں بلکہ اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ کبھی یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دس ارب روپے کا ادویات سکینڈل سامنے آنے پر کس کے خلاف کارروائی ہوئی۔ شوگر سکینڈل، آٹا سکینڈل، پٹرول سکینڈل‘ غرض ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ سارے معاملات بے نتیجہ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاملات ہرگزرتے دن کے ساتھ بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ اگر بالفرض مہنگائی کے حوالے سے حکومت کا یہ موقف تسلیم کرلیا جائے کہ مہنگائی اِس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے تو دیگر مسائل‘ جو حکومتی اقدامات سے‘ قانون سازی سے حل ہو سکتے ہیں‘ ان پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟قانون سازی پر تو کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔ جھوٹے مقدمات کے حوالے جتنی بھی ای میلز مجھے موصول ہوئی ہیں‘ اُنہیں پڑھ کر یہ انداز ہ ہوا کہ اپوزیشن بھی ملکی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ ہروقت حکومتیں گرانے اور بنانے کے چکر میں ہی پڑے رہتے ہیں‘ یہاں لوگ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ہمیں امریکا، روس، چین اور افغانستان کی پڑی ہے‘ ہمیں اِس بات کی فکر لاحق ہے کہ افغانستان میں کون حکومت بنائے گا، اُس کا مستقبل کیا ہوگا ، ہمسایہ ریاستوں سے اُس کے تعلقات کیسے ہوں گے۔ ہم اِس فکر میں بھی گھلتے رہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آئندہ کون سی پارٹی برسراقتدار آئے گی یا ایسے کتنے ہی ایشوز ہیں جن میں ہم خواہ مخواہ سرکھپاتے رہتے ہیں۔ یہ سب مسائل بھی اپنی جگہ اہم ہوں گے لیکن کسی بھی حکومت کا پہلا فرض یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی حالت میں بہتری لائے۔
دنیا کی سب سے بڑی حقیقت روٹی ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ ''پیٹ نہ پئی آں روٹیاں تے سبھے گلّاں کھوٹیاں‘‘۔ یعنی جب تک انسان کو روٹی میسر نہیں آتی‘ اس وقت تک اس کے نزدیک دیگر کوئی بھی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔سب سے پہلے پیٹ میں روٹی کا ہونا ضروری ہے۔ اُس کے بعد اہم ترین ایشوز تھانہ ، کچہری، ہسپتال اور تعلیم ہیں۔ یہ وہ شعبے ہیں جن سے ہر آدمی کو واسطہ پڑتا ہے۔ اگر اِن شعبوں میں کوئی بہتری دکھائی دے رہی ہو توعام آدمی مشکلات کے باوجود بھی گزارہ کر لیتا ہے مگر یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ تھانوں کی بات کریں تو پنجاب کے نئے آئی جی رائو سردار علی خان نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں خود اعتراف کیا ہے کہ تھانوں میں آنے والے سائلین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے اس حقیقت کی نشاندہی پہلی مرتبہ نہیں کی گئی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بات اعتراف سے آگے نہیں بڑھتی۔ پولیس ریفارمز کا اتنا چرچا کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اِن کے مثبت نتائج کیوں سامنے نہیں آرہے۔ نئے آئی جی صاحب نے اعلان کیا ہے کہ جھوٹا مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ خوش آئند امر ہے لیکن ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی قوانین میں ترمیم کے بغیر ممکن ہی نہیں اور قوانین میں ترمیم بہرحال حکومت کا اختیار ہے۔ عرض یہی ہے کہ اگر حکومت کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے تو کم از کم ایسے معاملات کو تو حل کریں جو عام آدمی کی زندگی کو آسان بنا ئیں۔ بیشتر صورتوں میں جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ بالآخر اِس مقدمے کو خارج ہی ہونا ہے لیکن مقصد یہ ہوتا ہے کہ تب تک تو مخالفین کو تھانے کچہریوں میں ذلیل وخوار کیا جائے۔ اپوزیشن کے خلاف کئی مقدمات میں بھی یہی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ افسوس کہ ہم سیاسی لڑائیوں میں اِس بات کا دھیان بھی نہیں رکھتے کہ اِس سے عام آدمی بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ خدارا !کچھ تو ایسا کریں کہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ کوئی ایک ایسا سرکاری ادارہ نہیں جہاں سائل پورے اعتماد کے ساتھ جا سکے کہ اُس کا مسئلہ بغیر رشوت اور سفارش کے حل ہوجائے گا۔ یہاں تو ہسپتال یا ایمرجنسی میں بھی جانا ہو تو پہلے سفارش ڈھونڈی جاتی ہے۔ یقین جانیے کہ ہرروز ایک آدھ فون تو ضرور آتا ہے کہ ہم نے اپنے مریض کو فلاں ہسپتال میں لے کر جانا ہے، براہ کرم کوئی ریفرنس دے دیجئے۔ صورت حال یہ ہے کہ پی آئی سی جیسے معتبر ہسپتال میں بھی مریضوں کو زائد المیعاد سٹنٹس ڈالے جانے کی شکایات سامنے آئی ہیں ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی یہ رپورٹ ہمارے سامنے پڑی ہے کہ ہمارے (اکثر) ڈاکٹر حضرات مریضوں کو ستر فیصد ایسے ٹیسٹ لکھ کردیتے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ کوئی بھی ذی شعور یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حرکتیں کیوں کی جاتی ہیں۔ ایسی ہی صورت حال تھانوں اور کچہریوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ سیانے ایسے ہی نہیں کہا کرتے کہ رب کسی دشمن کو بھی تھانے کچہری کا منہ نہ دکھائے۔اکثر کیسز میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی مقدمہ جھوٹا ثابت ہوجاتا ہے تو پولیس کی بھرپورکوشش ہوتی ہے کہ فریقین کے مابین صلح کرا دی جائے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جھوٹا مقدمہ درج ہی ملی بھگت سے ہوتا ہے لہٰذا خود کو محفوظ بنانے کے لیے کوشش کی جاتی ہے کہ فریقین کے مابین صلح کراکے پرچہ ہی خارج کر دیا جائے۔ بے شک ایسے مسائل پر ہم سب کو آواز بلند کرنی چاہیے ۔ بڑے مسائل کے ساتھ ساتھ اگر اِن''چھوٹے چھوٹے مسائل‘‘ پر بھی توجہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت اِن حوالوں سے بھی مثبت پیش رفت کرے کہ کم از کم گڈ گورننس کے تصور کو ہی عملی جامہ پہنا دیا جائے کہ اِس پر تو کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں