"FBC" (space) message & send to 7575

اپنی اپنی عدالت

14 ستمبر 2021ء کو ایک موبائل کلپ سامنے آیا‘ ایک نوجوان لاہور کے سب بڑے ہسپتال کے ایک کمرے میں تڑپ رہا تھا‘ درد سے نہیں بلکہ اُس تشدد کی وجہ سے جو اُس پر کیا جارہا تھا۔ چند سفاک افراد کا گروہ اُس نوجوان کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔ اُس پر ڈنڈے اور جوتے برسا رہا تھااور متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان سب کی منتیں کررہا تھا۔ ابھی اِس نوجوان پر تشدد کا سلسلہ جاری تھا کہ اِسی گروپ کے چند افراد محمد دین نامی ایک ادھیڑ عمر کے شخص کو وہاں لے کر آجاتے ہیں۔ گروپ کے چند افراد نوجوان کو چھوڑ کر اِس ادھیڑ عمر شخص پر پل پڑتے ہیں۔ منشیات فروخت کرنے کے الزام میں کافی دیر تک اِن دونوں کی خوب درگت بنتی ہے جس کے بعد کچھ دے دلا کر معافی تلافی ہوجاتی ہے۔ اسی ہسپتال کے ایک وارڈ کے باہر ایک نوجوان سویا ہوتا ہے‘ چند افراد آتے ہیں اور اُسے جگانے کے بعد ایک طرف لے جا کر اس پر تشدد کرنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ لاکھ دہائیاں دیتا ہے کہ آخر بتاؤ تو سہی کہ میرا قصور کیا ہے۔ کافی دیر تک تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ہسپتال میں منشیات فروخت کرتا ہے اور اگر اُنہیں مطلوبہ رقم نہ دی گئی تو وہ اُسے پولیس کے حوالے کردیں گے۔ مار کھانے اور پولیس کی دھمکی سن کر نوجوان کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوجاتے ہیں‘ جس کے بعد کچھ دے دلا کر وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھتی جاتی ہے۔ یہ ایک‘ دوواقعات نہیں ہیں بلکہ ہسپتال میں رونما ہونے والے ایسے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں۔ اب ذرا غور کریں کہ یہ سب کچھ ایک بڑے ہسپتال میں ہورہا ہے جہاں لوگ زندگی اور صحت کی تلاش میں جاتے ہیں۔ جہاں بیمار لوگوں کے ساتھ آنے والے لواحقین اپنے پیاروں کی صحت یابی کے انتظار میں وارڈز کے باہر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں پڑے رہتے ہیں۔ صرف اِس انتظار میں تکلیفیں برداشت کرتے ہیں کہ اُن کا مریض جلد صحت یاب ہو اور وہ اُسے لے کر گھر کا رخ کریں۔ ایسے میں اگر اُن پر منشیات فروشی کا الزام لگ جائے اور الزام لگانے والے اپنی عدالت بھی خود ہی لگا لیں تو ایسے کروفر اور طاقت کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔
منظر تبدیل ہوتا ہے، 14 ستمبر 2021ء کو ہی سامنے آنے والا ایک اورموبائل کلپ: لاہورکی ضلع کچہری میں کالے کوٹ میں ملبوس چند افراد ایک موکل کے ساتھ مل کر مخالف پر بے دریغ گھونسے اور لاتیں برسا رہے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اُن کا کام عدالتوں میں آنے والے سائلین کو انصاف کی فراہمی میں مدد دینا ہے۔ وہ بے دریغ اس شخص کی دھلائی کیے جارہے تھے۔ وہ شخص دہائیاں دے رہا تھا کہ خدا کے لیے اُس کی جان بخش دی جائے لیکن ایسے میں مظلوم کی آواز کون سنتا ہے؟ کافی دیر تک یہ ڈرامہ چلتا رہتا ہے جس کے بعد کچھ لوگ معاملے میں مداخلت کرکے بمشکل اُس شخص کی جان بچاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں کو سنبھالتا ہوا کچہری سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
منظر اور کردار ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوتے ہیں۔ مقام کچہری کا ہی ہے جہاں دو متحارب گروپ ایک دوسرے کو گھونسوں اور لاتوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اچانک ایک گروپ کے حامی افراد کثیر تعداد میں میدان میں اُتر آتے ہیں جس کے بعد مخالف فریق کو وہاں سے بھاگتے ہی بنتی ہے۔ ایک ہی دن میں کچہریوں میں پیش آنے والے یہ دوواقعات، اُنہی واقعات کا تسلسل ہیں جو ہم ایک عرصے سے کچہریوں میں رونما ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔ کبھی سائلین کی دھلائی تو کبھی پولیس اہلکاروں پر تشدد۔ افسوس کہ دیکھنے والے یہ سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں‘ جب پولیس خود ہی پٹ رہی ہوتو پھر کون وہاں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے؟ معاملہ بہت سیدھا ہے کہ جس معاشرے میں طاقت کا چلن عام ہوجائے تو وہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔
14ستمبر 2021ء کو ہی سامنے آنے والا ایک اور وڈیو کلپ: یہ منظر پولیس کے ایک نجی ٹارچر سیل کا ہے۔ داڑھی والے ایک نوجوان کے بازوؤں میں بڑی سی چھڑی پھنسا کر اُسے رسیوں سے باندھا گیا ہے۔ نوجوان کی کہنیوں کے جوڑوں پر تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی گرایا جاتا ہے اور اس کے بعد ہارڈ پلاسٹک کے ڈنڈے سے اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ تشدد کی اِس انوکھی قسم کا نشانہ بننے والے اِس نوجوان کی چیخیں آسمان کو بھی چیر دیں لیکن پولیس اہلکار قہقہے لگاتے ہوئے تشدد کرنا جاری رکھتے ہیں۔ وہ نوجوان لاکھ قسمیں کھاتا ہے کہ وہ قصور وار نہیں ہے لیکن طاقت کا اپنا ضابطہ ہوتا ہے جو اس وقت پوری طرح سے حرکت میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔
منگل 14 ستمبر کو ہی ایک نوجوان اپنی ایک کزن کے ساتھ کار میں جارہا تھا، راستے میں چند پولیس اہلکار اُنہیں روکتے ہیں۔ اُنہیں ہراساں کرتے ہیں‘ نوجوان کے مطابق‘ اُس کی کزن کے ساتھ اہلکا رنازیبا حرکات بھی کرتے ہیں اور پھر اچھی خاصی رقم لے کر چلے جاتے ہیں۔ نوجوان ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلیٰ پولیس حکام کو شکایت کرتا ہے۔ معاملے کے تحقیقات ہوتی ہیں اور تمام پولیس اہلکار قصوروار ثابت ہوتے ہیں۔ اعلیٰ حکام کی ہدایت پر اِن اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد اُنہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ تھانے کا ایس ایچ او بھی کارروائی کی زد میں آتا ہے کیونکہ نوجوان نے سب سے پہلے یہ تمام معاملہ ایس ایچ او کے سامنے رکھا تھا لیکن اُس کی جانب سے اپنے اہلکاروں کی پشت پناہی کی گئی۔ ایس ایچ او اِن اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کر دیتا ہے جس پر اعلیٰ حکام کی طرف سے اُس کے خلاف بھی کارروائی کی جاتی ہے۔
یہ تمام ایک ہی دن میں سامنے آنے والے ایسے واقعات ہیں جو ہمارے ہاں طاقت کے چلن کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ہماری اُن سوچوں کے عکاس ہیں کہ اگر ہمارے ہاتھ میں طاقت ہے تو پھر ہمیں کسی قانون کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی جان لیجئے کہ یہ صرف لاہور میں سامنے آنے والے واقعات ہیں۔ وہ شہر‘ جو پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دل کہلاتا ہے۔وہ شہر جہاں صوبے کی طاقت کے تمام ایوان موجود ہیں۔ اُس شہر میں قانون پر عملداری کا یہ عالم ہے تو پورے ملک بالخصوص صوبے کے دوردراز علاقوں میں کیا صورت حال ہو گی‘ اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اب بھلے حکومت لاکھ یہ دعویٰ کرتی رہے کہ وہ قانون کی عملداری کو یقینی بنائے گی‘ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ صورت حال میں ایسا ناممکن نظر آتا ہے۔ وجہ بہت سیدھی ہے‘ جب تک افراد بلاتفریق خود کو قانون کا پابند نہیں سمجھیں گے تب تک صورتحال میں بہتری نہیں آ سکتی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طاقتوروں کو قانون سے کھلواڑ کی اجازت ہو اور کمزوروں کوقانون کی پابندی کا درس دیاجائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہی چلن رواج پکڑ چکا ہے۔ جس روز طاقتوروں نے قانون پر عمل کرنا شروع کردیا، اُس روز ہمارے ملک کے حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اُس دن صحیح معنوں میں ترقی کا عمل شروع ہوجائے گا کہ ترقی صرف بڑی عمارتوں اور انڈرپاسز کی تعمیر کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ سوچ کی تبدیلی کا نام ہے۔ جس روز قانون کو موم کی ناک سمجھنے کی روش کا خاتمہ ہو گیا، اُس دن سے اپنی اپنی عدالت لگانے کا چلن بھی دم توڑنا شروع کردے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں