"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ پلّے نہیں پڑ رہا

مثبت تبدیلی تو کیا آنی ہے‘ یہاں تووہ سب اُمیدیں بھی زمین بوس ہوئی جاتی ہیں جو اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو دلائی گئی تھیں۔ ساری آسیں اور امیدیں خاک میں ملتی دکھائی دے رہی ہیں جیسے کوئی ایک فیصلہ بھی اب ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا۔ کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا کہ کس کے سامنے فریاد کی جائے، کہاں جا کر اپنا رونا رویا جائے۔ کس کو جا کربتایا جائے کہ جنابِ عالی! اقتدار میں آنے سے پہلے تو آپ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے‘ اب آپ نے کیا حال کردیا ہے۔ ڈالر نے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد روپے کو بے قدر کرکے رکھ دیا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل مہنگا ہونے کے روایتی مؤقف کے ساتھ ایک مرتبہ پھر عوام پر ''پٹرولیم بم‘‘ گرایا جا چکا ہے۔ 10 روپے 49 پیسے فی لیٹر کے اضافے سے پٹرول کے نرخ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچے ہیں۔ اب ایک لیٹر پٹرول حاصل کرنے کے لیے 137 روپے79 پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخ بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔ اِس سے پہلے وفاقی کابینہ بجلی کے نرخ بھی ایک روپیہ اُنتالیس پیسے بڑھانے کی منظوری دے چکی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر شہریوں کو ملنے والی سبسڈی بھی بتدریج ختم کی جارہی ہے۔ قرضوں کی صورتِ حال کا جائزہ لے لیں تو یہاں بھی ہوشربا حقائق سامنے آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے 2013ء میں اپنی حکومت کی میعاد ختم ہونے پر 14292ارب روپے قرضہ چھوڑا تھا۔ مسلم لیگ نون کے دورِحکومت میں قرضہ 24953ارب روپے تک جا پہنچا جس کے بعد موجودہ دورِحکومت میں یہ قرضہ39859ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جمع تفریق آپ خود ہی کرلیجئے گا کہ کس دورِحکومت میں قرضے لینے کی کیا شرح رہی۔ مختصراً یہ جان لیجئے کہ ہمارے قرضے ملک کی مجموعی جی ڈی پی کے 83.5فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے۔ وہی ذات بہتر جانتی ہے کہ آئندہ ڈیڑھ‘ دوسال کے دوران حکومت اِن مسائل کو حل کرنے کے لیے جادو کی کون سی چھڑی گھمائے گی۔
خیر فہرست تو ایسے مسائل کی بہت طویل ہے جو گزشتہ 74برس سے یہ ملک سہتا آ رہا ہے اور سہتا ہی چلا جارہا ہے۔ ہر عذا ب کی آمد پر یہی اُمید رہتی ہے کہ شاید یہ آخری مسئلہ ہو اور اس کے بعد کچھ راحت کا سامان ہو جائے گا مگر حسرت ان غنچوں پہ۔ ہر مرتبہ ایک جیسے وعدے ہوتے ہیں اور پھر اپنے اپنے انداز میں ان کو توڑا جاتا ہے۔ اقتدار کے مزے لوٹے جاتے ہیں اور اپنا اپنا راستہ ناپا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے یہی سلسلہ چلتا چلا آرہا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب تو آئندہ بہتری کے حوالے سے بھی کم کم اُمید ہی باقی رہ گئی ہے۔ اگر ملک کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھا جائے تو یہ شاید 1971ء کے دور سے ہٹ کر‘ یہ سب سے زیادہ خوفناک دکھائی دے رہی ہے۔ ناقابلِ عمل وعدوں کے سبز باغ دکھا کر اقتدار پر براجمان تو ہوگئے لیکن ڈلیور کرنے کی باری آئی تو سب ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ اب تووہاں سے بھی گرم ہوائیں آنا شروع ہوچکی ہے جس طرف سے ہمیشہ دستِ شفقت رکھا جاتا تھا۔ گھن گرج سے خالی لہجے بہت کچھ بتا اور سمجھا رہے ہیں کہ شاید موجودہ صورتِ حال میں سیاسی شہادت کا حربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکے گا۔ یہ حربہ تبھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے جب کسی جماعت میں کچھ نظریاتی لوگ بھی شامل ہوں۔ یہاں تو معلوم نہیں کہاں کہاں سے نابغے لا کر ایک کنبہ جوڑا گیا ہے جو ملک کو ''ترقی کی نئی جہتوں‘‘ سے روشناس کرا رہا ہے۔ اِن کو تو یہ اندازہ بھی نہیں ہوپارہا کہ عوام کا محض حکومت پر ہی نہیں پورے سیاسی نظام پر اعتماد چکنا چور ہو چکا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے اور اب اعتماد کی بحالی کے لیے نجانے کتنا عرصہ درکار ہوگا۔ بااثر مافیاز کو قانون کی گرفت میں لانے کے دعوے کرنے والوں نے احتسابی اداروں کے ساتھ جو ہاتھ کیا‘ وہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ یہ بدعنوان عناصر پر گرفت کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ نیب کے حوالے سے جاری کردہ آرڈیننس میں قرار دیاگیا ہے کہ نیب موجودہ کابینہ کی طرف سے کیے گئے کسی بھی فیصلے پر گرفت نہیں کرسکے گا۔
بادی النظر میں اس وقت احتساب کا سارا زور اپوزیشن پر ہی آزمایا جا رہا ہے، نہ مالم جبہ کیس میں کوئی پیش رفت دکھائی دے رہی ہے نہ پشاور میٹروبس منصوبے کی تحقیقات کا کوئی ڈول ڈالا گیا ہے۔ چینی‘ گندم کی امپورٹ کے معاملات دیکھ لیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں کہ کس طرح مبینہ طور پر مخصوص لوگوں کو نوازا گیا اور اب اِن پر مستقبل میں کوئی گرفت بھی نہیں ہوسکے گی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ تمام حالات دیکھ کر میری تو عقل مائوف ہو جاتی ہے، شاید آگے وہی ہونے والا ہے جوپیپلزپارٹی کے دورِ حکومت کے اختتام پر ہوا تھا۔ یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ جب پیپلزپارٹی کی حکومت رخصت ہوئی تو ملک بدترین لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ بجلی کی کمی کے معاملے پر بات انتہائی شدید مظاہروں تک پہنچ چکی تھی۔ ایسے متعدد احتجاجی جلوسوں کی کوریج کا مجھے موقع ملا۔ احتجاج کرنے والوں کی بس ایک ہی صدا ہوتی تھی کہ خدا کے لیے بجلی فراہم کرو۔ تب حکومت نے کوئی دوسرا بڑا منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔ وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ نہ کوئی کام کریں گے نہ کسی معاملے پر احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بظاہر محسوس تو یہ ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کی رخصتی پر بھی یہی سب کچھ ہوگا۔ ایک خدشہ تھا کہ حکومت سے محرومی کے بعد اِنہیں بھی حسب روایت احتساب کی چھلنی سے گزرنا پڑے گا لیکن مذکورہ آرڈیننس میں جس طرح کی شقیں شامل کی گئی ہیں‘ ان کی صورت میں اِس کا بھی بڑی حد تک سدباب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک چھوٹی سی کہانی یاد آرہی ہے۔ دمِ رخصت ایک جابر بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ اپنی رعایا پر بہت ظلم کرتا رہا ہے اِس لیے بعد از مرگ اُسے بہت برے القاب سے نوازا جائے گا۔ اپنا یہ مسئلہ وہ اپنے جانشین کے سامنے بھی رکھتا ہے تو جواباً اُسے یقین دلایا جاتا ہے کہ آپ فکر مت کریں‘ آپ کے مرنے کے بعد سبھی آپ کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ بادشاہ سلامت کی وفات کے بعد اُن کا بیٹا برسرِاقتدار آیا تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام ٹیکسز دو گنا کردیے، پہلے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو قید کی سزا ملتی تھی لیکن اب نئے بادشاہ نے اس پر بھی سزائے موت کی سزا مقرر کردی۔ مرحوم بادشاہ کے دور میں سرکاری ہرکارے کسی کے گھر میں گھستے تو کہیں نہ کہیں کوئی شنوائی ہوجاتی تھی لیکن بیٹے کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ غرض جہاں کہیں‘ جس بھی شعبے میں عوام کو کسی قدر ''ریلیف‘‘ میسر تھا، اس کا مکمل خاتمہ کر کے ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا اور پھر آخرِ کار وہ وقت آ ہی گیا کہ عوام مرحوم بادشاہ کی سب خطائوں، اس کے ظلم و جبر کو فراموش کر بیٹھے اور بہت شدت کے ساتھ موقع بہ موقع اسے یاد کرنے لگے۔یوں ''سعادت مند‘‘ بیٹے نے اپنے مرحوم باپ سے کیا ہوا وعدہ خوب نبھایا۔ اللہ نہ کرے کہ نئے آنے والوں سے بھی کچھ ایسا وعدہ لے لیا جائے کہ بھائی کچھ ایساکرنا کہ لوگ ہمیں اچھے لفظوں میں یاد کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں