"FBC" (space) message & send to 7575

بات اعتماد کی ہوتی ہے

ہمارے ہاں عمومی طور پر کچھ اور نظر آرہا ہوتا ہے‘ کسی کے اچھے اچھوں کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ پس منظر میں کیا کچھ چل رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتاکہ کس کی ڈوریاں کہاں سے ہل رہی ہوتی ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں تمیزکرنا تو قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہماری دلی دعاہے کہ اِس مرتبہ معاہدے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے‘ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ویسے بات توساری اعتماد کی ہوتی ہے۔ جب ایک دوسرے پر اعتبار ہی نہ ہو توپھر جتنے مرضی کاغذات سیاہ کرلیں نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔ یہاں معاہدے ہونے اور ٹوٹنے کے مناظر کثرت سے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں‘ بس کردار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کتنے ہی معاہدوں کے پرزے ہواؤں میں اُڑتے نظر آتے ہیں جنہیں کوئی اِس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ کہیں سنبھال کر رکھ ہی لے۔
ایک بہت پرانا واقعہ یادآرہا ہے۔ ملک کے پہلے آمر جنرل ایوب خان کے دور میں حکومت سے ناراض ہوکر ایک بلوچ سردار نوروز خان اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ کافی عرصے تک فورسز اور اور اس بلوچ سردار کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر حکومت کی طرف سے مقرر کیے گئے مذاکرات کاروں نے حلف دیا کہ آپ پہاڑوں سے نیچے آجائیں‘ آپ کے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔ پہاڑوں سے نیچے اُترنے پر اِن لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلے اور بالآخر نوروز خان اور اُن کے بیٹے سمیت آٹھ افراد کو سزائے موت سنا دی گئی۔ حکومت کو بار بار باور کرایا گیا کہ اِن لوگوں کو حلف دے کر پہاڑوں سے نیچے اُتارا گیا تھا‘ کچھ تو اِس بات کا احساس کرنا چاہیے لیکن ہونی ہوکر رہی۔ بعد میں اِن میں سے چار افراد کو سندھ کی حیدرآباد جیل اور تین کوسکھر جیل میںتختۂ دار پر لٹکا یاگیا۔ شاید سردار نوروز خان کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا جاتالیکن اُس وقت اُن کی عمر 85برس کے قریب تھی اور ان کی پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے اُن کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا گیا تھا اور یوں وہ سزائے موت سے بچ گئے۔ آگے آنے والے ادوار میں بھی ایسے بہت سے معاہدے ہوتے رہے اور پھر اُن کی دھجیاں بھی اُڑتی رہیں۔
موجودہ صورتِ حال کی بات کی جائے تو ایک مرتبہ پھر وہ گھسا پٹا سا سکرپٹ دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرح کے حالات، وہی پرانا طریقہ کار اور پھر وہی معاہدہ۔ اب کوئی یہ سمجھے یا کہے کہ معاہدے کے بعدفریقین کا ایک دوسرے پر اعتماد بحال ہوگیا ہے تو‘ اچھے کی اُمید ہمیشہ رکھنی چاہیے‘ لیکن ماضی کے سبق کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ البتہ اِس دوران جو کچھ اِس ملک کے ازل سے مظلوم عوام کوبھگتنا پڑا‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ پہلے کئی روزتک لاہورکی فضاانتہائی مخدوش رہی۔ جب مارچ نے اسلام آباد کی طرف رخ کیا تو پوری گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کو نو گوایریامیں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا۔ جگہ جگہ پلوں پر بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر اِنہیں پلوں کے ساتھ ویلڈ کردیا گیا حتیٰ کہ اِن مقامات سے پیدل چلنے والوں کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ جو قومی اداروں کی دیواروں پر دھلے ہوئے کپڑے لٹکاتے رہے‘ وہ جو سرکاری ٹی وی کی عمارت میں گھس کرتوڑ پھوڑ کرتے رہے‘وہ جنہوں نے 126دنوں تک اسلام آباد میں سارا نظام معطل کیے رکھا‘ وہ جو ریڈ زون میں مظاہروں کی قیادت کرنے کے اعلانات کرتے تھے‘ جب خود ان پر بنی تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ایسے میں انہیں وہ وقت بھی یاد آتا ہوگا جب وہ مستقبل کے نتائج کی پرواکیے بغیر بس اپنی من مانیاں کررہے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اب انہیں اپنے بیانات پر پشیمانی محسوس ہوتی ہو۔ بہرکیف‘ وہ جو دن رات کیمروں کے سامنے رہنے کے شوقین ہیں‘ اِنہیں کالعدم تنظیم سے مذاکرات کے لائق بھی نہیں سمجھا گیا۔ کوئی سمجھے تو یہ کافی محسوس کرنے والی بات ہے لیکن بات تو سمجھ کی ہوتی ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے مفتی صاحب کی طرف سے کچھ وزرا کے بارے میں جو اظہارِ خیال سامنے آیا‘ شاید اُسی سے احساس ہوجائے کہ اعتماد کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اِن حالات میں جو معاہدہ طے پایا ہے‘ اس پر خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ اِس پر عمل درآمد یا اِس کے قائم رہنے کے کتنے امکانات ہیں۔
اب جو کچھ ''بند لفافے‘‘ میں موجود ہے،کسی نہ کسی وقت میں وہ سامنے آہی جائے گا۔ ویسے کیسی عجیب بات ہے کہ جن کے ساتھ کبھی خود دھرنوں میں بیٹھا کرتی تھی‘ اب اُنہیں ہی حکومت ملک دشمن قرار دینے پر تلی ہوئی تھی۔ جن کے سروں پر کبھی دستِ شفقت رکھا جاتا تھا‘ آج وہ انتہائی ناپسندیدہ ٹھہرے۔ شرکائے مارچ کو غصہ اِس بات کا بھی تھا کہ معاملہ تو حکومت اور اُن کے مابین ہے‘ یہ دشمن ملک درمیان میں کہاں سے آگیا۔ اِس غصے کا اظہار مفتی منیب صاحب نے بھی کھل کرکیا اوراُن کا غصہ میرے نزدیک بجا بھی ہے۔ اُن کا یہ کہنا بالکل درست تھاکہ آخر کس بنا پر مارچ کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ معلوم نہیں یہ غدار‘ غدار کاکھیل ہمارے ملک سے کب ختم ہوگا۔ یہ ہے ان حالات کا مختصر احوال‘ جن میں کوئی خفیہ تحریر لکھی گئی ہے۔ ایسی تحریر جس کے مندرجات عوام کے سامنے لانے سے گریز کیا جارہا ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ یہ بھی ویسا ہی معاہدہ ہے جیسے معاہدے ماضی میں کیے جاتے رہے ہیں۔ اب اگر اُن معاہدوں پر عمل درآمدہوا تو یقینا اِس معاہدے پربھی ہوگا۔ جس طرح کا اعتماد ہمیں ایک دوسرے پر ہے‘اُسی طرح کا اعتماد دنیا والے ہم پر کرتے ہیں۔ بلاوجہ بولتے رہنے کی عادت نے تو ہماری ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ پلّے کچھ نہ ہو تو زبان ہلانے سے کب تک کام چل سکتا ہے؟ اِسی عادت کے باعث اب ایک پیج والی باتیں بھی قصہ پارینہ بنتی چلی جارہی ہیں‘ لہجوں کی غائب ہوجانے والی گھن گھرج اور اُترے ہوئے چہرے کہانیوں کو کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔
اب ایک بار پھر بہترین ملکی و قومی مفاد میں ایک معاہدہ طے پاگیا ہے۔ تمام فریق‘ بالخصوص عوام راضی ہیں کہ طاقت کے استعمال کے بغیر ہی معاملہ سلجھ گیا، عوام کو راستے بند ہونے سے جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس کا بھی حل نکل آیا تاہم ''بہترین مفاد‘‘ اب وہ سراب معلوم ہوتا ہے جو ہم ہمیشہ سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ یہاں ہرشخص سب کچھ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہی کرتا ہے لیکن پھر بھی ہماری معاشی، اخلاقی اور سیاسی حالت بگڑتی چلی جارہی ہے۔ ہرشخص قانون کی بالادستی کی بات کرتا ہے لیکن قانون کی حکمرانی میں 139ممالک کی فہرست میں آتے ہم 130ویں نمبرپرہیں۔ حد ہوگئی ہے دورُخی اور دو عملی کی لیکن ہماری دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ اِس کے باوجود ہم خود کو دنیا کا بہترین انسان ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب ہم اِن سب باتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ جھوٹ بول کر مفاد حاصل کرو اور زندگی عیش سے گزارو، دوسروں کی آنکھوں میں خوب دھول جھونکو، اتنی گرد اچھالو دوسرے کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہ جائیں۔ معاہدوں سے وقت گزاری کا اہتمام کرو۔ وقت گزر جائے تو دوبارہ پرانی روش اختیار کرلواور جب دوبارہ حالات خراب ہوں تو ایک نیا معاہدہ کرلو۔ اِن سب حالات کے باوجود ہماری دلی دعا ہے کہ فریقین کے درمیان جو کچھ بھی طے پایا ہے‘ اللہ کرے وہ دونوں اِس پر دل سے عمل کریں۔ معلوم نہیں کہ ہم کیوں یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ جب بھی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو دنیا بھر میں ہمارے بارے میں نہایت منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جب بھی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو رہے سہے اعتماد کی دھجیاں بکھرنے لگتی ہیں جس کا پہلے ہی بہت فقدان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں