"FBC" (space) message & send to 7575

ویکسی نیشن میں ہی بچت ہے!

یہ کورونا کی وبا ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر دو‘چار ماہ کے بعد کورونا کی نئی لہر کے آنے کا بم گرا دیا جاتا ہے اور سب سہم کر رہ جاتے ہیں کہ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا۔ صورتحال تو اب بھی اطمینان بخش نہیں ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پہلے کی نسبت بہرحال کورونا کیسز میں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ خوشی اِس بات کی بھی ہے کہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں بھی اِس حوالے سے نمایاں بہتری نظرآرہی ہے۔ آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں ہی سامنے آرہے تھے۔آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ فروری 2020ء سے اکتوبر 2021ء تک ملک بھر میں سامنے آنے والے کیسزمیں سے 35فیصد پنجاب میں سامنے آئے تھے۔ یہ تو وہ دن تھے جب ہرکوئی سہما ہوا دکھائی دے رہا تھاکہ معلوم نہیں یہ موذی وائرس کب‘ کہاں اور کس پر اپنا وار کردے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو رکھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی حالانکہ یہ تاثر عام ہے کہ پنجاب میں صحت کی سہولتیں دوسرے صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اِس دوران ساٹھ سے زائد دنوں کے لیے مارکیٹس اور کم از کم تیس دنوں کے لیے ریستوران مکمل طور پر بند کرنا پڑے تھے۔ تب میں نے اِس صورت حال پر ''دنیا نیوز‘‘ کے لیے ایک تفصیلی رپورٹ بنائی تھی جس دوران معلوم ہوا کہ کورونا کی وجہ سے صوبے کے جی ڈی پی میں تین فیصد کمی آگئی ہے اور تقریباً 50فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہوئے ہیں۔ تب ایک الگ قسم کی صورت حال دیکھنے میں آرہی تھی۔ پھر جب ویکسی نیشن کا عمل شروع ہوا تواِس کے بارے میں مختلف خدشات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ ماہرین کہہ دے رہے تھے کہ ویکسی نیشن ہی کورونا سے بچاؤ کا بہتر ذریعہ ہے مگر عوام اِس سے دور بھاگ رہے تھے؛ تاہم جب حکومتی سطح پر سخت اقدامات کیے گئے تو ویکسین سنٹرز پر رش دکھائی دینے لگا۔ اِس تمام صورت حال کے تناظر میں‘ چند روز پہلے صوبائی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے گفتگو ہوئی، وہ بھی کورونا کیسز میں کمی پر کافی خوش نظر آرہی تھیں۔ ویسے دیکھا جائے تو اُن کا خوش ہونا بنتا بھی ہے کیونکہ صوبے میں کورونا کے پھیلاؤ پر سب سے زیادہ تنقید اُنہی کو برداشت کرنا پڑی تھی۔ اُن دنوں وہ شہریوں کے رویے اور باتوں پر کافی شاکی دکھائی دیتی تھیں۔
ہمارا عجیب ہی معاملہ ہے کہ ہرکام میں کوئی الگ سی منطق تلاش کرلی جاتی ہے۔ یہ ہماری ''عقل ودانش‘‘ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی ہمارا ملک پولیو جیسے موذی مرض سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔ اندازہ لگا لیجئے کہ پوری دنیا میں اب صرف دوہی ممالک ایسے رہ گئے ہیں جہاں ابھی تک پولیو کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ایک ہمارا وطنِ عزیز اور دوسرا ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان ہے۔ ہمارے رویوں کے علاوہ اِس کی اور کیا وجہ پیش کی جاسکتی ہے۔ پولیو ورکرز پر حملوں کی خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی رویے کورونا ویکسین کے حوالے سے دکھائی دیتے رہے بلکہ اب بھی دکھائی دیتے ہیں۔کل کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ویکسی نیشن کے عمل کا آغاز ہوا تھا تو یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ اِس سے بانجھ پن کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ کسی کے نزدیک ویکسین لگوانے سے دل کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں‘ گویا جتنے منہ اُتنی ہی باتیں۔ یہ صورت حال صرف ہمارے ہاں ہی نہیں تھی بلکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اِسی طرح کی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ جب خطہ ایک ہی ہے تو اندازِ فکر بھی ایک جیسا ہی ہو گا۔ سو یہاں کی طرح‘ وہاں بھی شہریوں کو ویکسین لگوانے پر راضی کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑے تھے۔ وہاں توحکومت کی طرف سے ایسی ترغیبات بھی دی گئیں کہ ویکسین لگواؤ گے تو ٹی وی، سمارٹ فون اور واشنگ مشینیں انعام میں دی جائیں گی۔ ایک بھارتی ریاست کی طرف سے تو شہریوں کو ویکسین لگوانے پر انعام میں شراب کی بوتلیں دینے کا اعلان بھی کیا گیا تھاجس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے تھے۔ پھر جب کچھ حلقوں کی طرف سے اِس فیصلے پر بہت تنقید ہوئی کہ اِس ترغیب سے شراب نوشی میں اضافہ ہوگا تو یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں بات انعامات تک تونہیں پہنچی لیکن شہریوں کو راضی کرنا یہاں بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی حد تک یہ خدشات اب بھی پائے جاتے ہیں کہ ویکسی نیشن کرانا خطرے سے خالی نہیں ؛ تاہم مجموعی طور پر اب حالات پہلے کی نسبت کافی بہتر ہیں۔
پنجاب کی حد تک بات کی جائے تو یہاں کورونا کیسز میں کمی کی ایک اہم وجہ ویکسی نیشن کے لیے وسیع پیمانے پر چلائی جانے والی مہم ''ریچ ایوری ڈور‘‘ کو بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔ جب اِس مہم کا آغازکیا گیا تھا تب میڈیا پرسنز کو اِس کے بارے میں تفصیلاً آگاہ کیا گیا تھا۔ تب میڈیا پرسنز کی طرف سے اِس پر کافی تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا تھا کہ شاید ہمیشہ کی طرح بڑی بڑی باتیں کی جارہی ہیں مگر اب اِس مہم کے نتائج کو دیکھا جائے تو اِنہیں کافی تسلی بخش قرار دیا جاسکتا ہے۔ اِن نتائج پر ایک رپورٹ بنانے کے لیے صوبے کے سیکرٹری صحت سے رابطہ ہوا تو اُنہوں نے اِس مہم کی کچھ مزید تفصیلات بتائیں۔ نویدسنائی گئی کہ جلد ہی صوبے کے ستر فیصد شہریوں کی ویکسی نیشن کا ہدف پورا کر لیا جائے گا۔ یہ عمل یقینا کورونا سے نمٹنے میں آسانی پیدا کرے گا کیونکہ جتنے زیادہ شہریوں کو ویکسین لگے گی‘ اُتنا ہی کورونا کا خطرہ کم ہوتا جائے گا۔اِس مہم کے تحت شروع کی جانے والی موبائل ویکسی نیشن اور ڈرائیوتھروسروس دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی تھی۔ پہلے شہری ویکسی نیشن کے لیے سنٹرز پر جاکر گھنٹوں انتظار کرتے تھے اور اب اُنہیں یہ خدمت گھر کی دہلیز پر فراہم کی جارہی تھی۔ اپنے ملک میں ایسی سروسز دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایسے مناظر کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں؛ تاہم متعددشہری ایسی بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے جس میں اُن کا اپنا فائدہ ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ایسے واقعات کی بابت بھی بتایا گیا جب شہریوں کی طرف سے مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ محکمۂ صحت کے سیکرٹری نے کئی ایسے واقعات سنائے جن کی تائید ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی سپیشل سیکرٹری کی طرف سے بھی ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے انتہائی متحرک رہنے والی سپیشل سیکرٹری سے کافی عرصے بعد صوبائی سیکرٹری صحت کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی۔ دیکھ کر اچھا لگا کہ وہ یہاں بھی اپنی متحرک شخصیت کا تاثر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اگر چہ یہ خوشی کی بات ہے کہ اب کورونا کی پہلے جیسے شدت نہیں رہی لیکن یہ بھی مت سمجھ لیجئے کہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ کسی نہ کسی حدتک اموات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور یہ صورت حال خطرے کی علامت ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ اِس تناظر میں جب بھی کسی طبی ماہر سے گفتگو ہوتی ہے تو ان کی طرف سے ہمیشہ ماسک پہننے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن آپ اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے کہ آج کتنے لوگ اِس پر عمل کررہے ہیں؟ہم نے چار وناچار متعدد مرتبہ ہاتھ دھونے کی عادت بھی اپنائی تھی لیکن جیسے ہی صورت حال کچھ بہتر ہوئی‘ اِس عادت کو بھی ترک کرتے چلے جارہے ہیں۔ بار بار کورونا ویکسین کے محفوظ ہونے کی یقین دہانیوں کے باوجود اب بھی اِس حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ کئی جگہوں پر ہم نے خود لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم نے ویکسی نیشن نہیں کرائی تو کیا ہم مر گئے ہیں؟کورونا کی ایسے ہی باتیں بنی ہوئی ہیں‘وغیرہ وغیرہ۔ اب بھی اگر ایسی باتیں ہورہی ہیں تو پھر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ شاید اِس طرح کے رویے ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکے ہیں۔ کوئی ڈھنگ کی بات سننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ زنجیر ہلاتے رہنا چاہیے۔ سو دوستو! کورونا کے خطرے کو ہلکا مت لیں کہ یہ ''راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘ والا معاملہ ہے۔ کورونا ایک وبائی آفت ہے اور ویکسی نیشن کرانے میں ہی بچت ہے۔ جن لوگوں نے اب تک ویکسی نیشن نہیں کروائی‘ انہیں فی الفور ویکسین لگوانی چاہیے، جن کی دوسری ڈوز رہتی ہے‘ وہ دوسری ڈوز لگوائیں اور اب تو بوسٹر شاٹ بھی لگائے جا رہے ہیں سو پہلی فرصت میں ویکسین لگوائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں