"FBC" (space) message & send to 7575

اخلاق کی تباہی

چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان‘ 3لاکھ 78ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ملک۔ یہ ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے جس نے پوری دنیا پر مختلف حوالوں سے اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا تھا جس کے پاس اُس دور میں بھی طیارہ بردار جہاز موجودتھے۔ اِس نے ان کے ذریعے امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر جو تباہی مچائی تھی‘ وہ جنگی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اِسی حملے نے‘ تب تک غیرجانبدار رہنے والے امریکا کو دوسری عالمی جنگ میں کودنے پر مجبور کیا تھا جس کے بعد جنگ کا نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ اس جنگ کا اختتام جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم کے حملوں سے ہوا لیکن پھر اِسی ملبے سے جاپان اُٹھا اور ایسے اٹھا کہ ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ یہی و ہ ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ اِس کی وجہ جاپان کا زمین کی دوبڑی پلیٹوں کے عین ٹکراؤ کے مقام پر واقع ہونا ہے۔ ریکٹر سکیل پر جاپان میں آئے سب سے بڑے زلزلے کی شدت نو تک ریکارڈ کی گئی ہے، یہاں ہر روز بلکہ دن میں کئی بار زلزلہ آتا ہے۔ اپنی سرزمین کی اِس صورت حال کودیکھتے ہوئے جاپان میں کئی سو ''زلزلیاتی تجربہ گاہوں‘‘ کا جال بچھایا گیا ہے۔ پورے جاپان میں ایسی ٹیکنالوجی پر تعمیرات کی جاتی ہیں کہ وہ زلزلے کے تباہ کن جھٹکوں کو جھیل سکیں۔ 11 مارچ 2011ء کو اِس خطے میں شدید ترین زلزلہ آیا تھا۔ اِس کے باعث جنم لینے والے خوفناک سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی حصے کو پوری طرح سے تاخت وتاراج کرکے رکھ دیا۔ تباہی بہت زیادہ تھی جس میں لگ بھگ اٹھارہ ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ آج بھی انٹرنیٹ پر اس تباہی کے مناظر دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد جاپان میں کیا ہوا؟کیاجاپانیوں نے امداد کے لیے دنیا کے سامنے کشکول پھیلا دیا؟ کیا جاپانی اپنی تباہی کا رونا دھونا روتے ہوئے ایک ایک دروازے پر دستک دیتے رہے یا پھرایک دوسرے کوہی نوچ نوچ کر کھا گئے؟
کم از کم ہمارے لیے یہ امر حیرت انگیز ہو گا کہ جاپانیوں نے اِن میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کیا تھا۔ سب سے پہلے اِس عزم کا اظہار سامنے آیا کہ تباہی جتنی بھی بڑی ہو‘ اِس سے اپنے وسائل سے ہی نمٹا جائے گا۔ سونامی کے بعد جب اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہونے لگی تو جاپانی حکومت نے اعلان کیا کہ لوگ اشیا ذخیرہ نہ کریں‘ حکومت اُن کی ضروریات پوری کرنے کی پابند ہے۔ صرف ایک اعلان پر ذخیرہ شدہ اشیا کی واپسی کاعمل شروع ہو گیا۔ بڑے بڑے سٹورز نے اپنے شٹراُٹھا دیے کہ جس کو جس چیز کی ضرورت ہو‘ وہ لے جائے۔ حیرت انگیز طور پر کہیں بھی لوٹ مار کی کوئی شکایت موصول نہ ہوئی۔ ہوسکتاہے کہ اکا دکا کچھ واقعات پیش آئے بھی ہوں لیکن شاید اُن کی تعداد اتنی کم رہی کہ وہ رپورٹ نہ ہوسکے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سونامی کے بعد دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا‘ حتیٰ کہ بنگلہ دیش جیسے ملک نے بھی اپنے جہاز بھیج دیے تھے۔ دوسری طرف آفت کی اِس گھڑی میں وہاں مقیم پاکستانیوں نے انسانیت دوستی کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ پاکستانی دیوانہ وار تباہ شدہ علاقوں میں پہنچے اور وہاں بے کس پڑے افراد میں خوراک تقسیم کی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جاپانی لوگ پاکستانیوں کی اِس انسانیت نوازی پر جھک جھک کراُن کاشکریہ ادا کرتے تھے اور بعض اوقات اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ تب انسانیت نوازی کی اِن مثالوں پر ایک شاندار دستاویزی فلم بھی بنی تھی جو آج بھی یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے۔ جاپانی اِس کے لیے آج بھی پاکستانیوں کے احسان مند ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ جاپان اِس تباہی کے اثرات سے مکمل طور پر باہر نکل آیا اور آج اِس آفت کو بیتے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن جاپانی ہرسال اِس آفت میں ہلاک ہونے والوں کو یادکرتے ہیں۔ بھیگی ہوئی آنکھوں سے اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
اب اپنی حالت پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ مری صوبہ پنجاب کا ایک بلند اور صحت افزا مقام ہے جہاں ہرسال لاکھوں سیاح سیروتفریح کی غرض سے جاتے ہیں۔ ملک کے دارالحکومت سے صرف 54کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اِس شہر کے داخلی خارجی راستوں پر 7اور8جنوری کی درمیانی رات کو ہزاروں گاڑیاں برف کے طوفان میں پھنس جاتی ہیں۔ ذہن میں رکھیے گا کہ یہ گاڑیاں پورے 54کلومیٹرکے علاقے میں نہیں بلکہ مری کے قریب لگ بھگ 10کلومیٹرطویل ایک شاہراہ پر پھنسی تھیں۔ اِس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اُس نے ہماری انتظامی صلاحیتوں اور اخلاقیات کاایسا جنازہ کہ شرم کے مارے سر نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس سانحے سے محض ایک روزقبل فخریہ انداز سے یہ بتایا جارہا تھاکہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہو گئی ہیں جس سے عوام کی قوتِ خرید میں اضافے اور خوشحالی کا ثبوت ملتا ہے۔ حکومتی افلاطونوں کا اِس بات کی طرف دھیان ہی نہ جاسکاکہ جس علاقے میں گاڑیوں کی کُل گنجائش ہی چند ہزار ہے‘ وہاں ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں کا داخل ہو جانا کیا مصیبت ڈھا سکتا ہے۔ اس حکومت کا شروع دن سے یہی المیہ رہا ہے کہ ہرمعاملے میں جانے والوں کو موردِالزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سانحۂ مری کے معاملے میں بھی یہی سب دیکھنے میں آیا کہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کو پیٹنا شروع کردیا گیا۔ اب چونکہ اِس معاملے پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے سو قارئین تفصیل سے مکمل طور پر آگاہ ہوں گے؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ حکومت تو ایک طرف‘ جو کچھ مری میں سیاحوں کے ساتھ ہوا‘ اُس پر بھی دل بہت دکھی ہے۔ ہم نے یہ کون سا راستہ چن لیا ہے جس پر چلتے ہوئے ہمیں دنیا یاد رہی اور نہ آخرت۔ یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ بیشتر صورتوں میں ہمارا مقصد صرف اور صرف پیسہ رہ گیا ہے۔ حکومت عوام کو نچوڑ رہی ہے‘ طاقتور اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں اور عوام ایک دوسرے کوہی نوچ کھانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
اب ذرا جاپان میں سونامی سے آنے والی قیامت خیز تباہی اور مری میں پیش آنے والے یکسر دومختلف واقعات کے بعد کے حالات کا خود ہی جائزہ لے لیجئے۔ ایک وہ ملک جس نے اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا یا نہ ایک دوسرے کو نوچا۔ ایک طرف ہم کہ ایک مختصر سے علاقے میں مصیبت کے دوران انسانیت دشمنی کی ایسی مثالیں قائم کردیں کہ آج ہم سب شرم سے اپنے منہ چھپائے ہوئے ہیں۔ خیر یہ بھی کہنے کی بات ہے کہ ہم شرم محسوس کررہے ہیں‘ دیکھا جائے تو ایسی باتیں صرف دل کو تسلی دینے کے لیے کی جاتی ہیں ورنہ ہمارا اخلاقیات اور شرم سے ناتا تو عرصہ ہوا ٹوٹ چکا ہے۔ کیا کمزور اور کیا طاقتور‘ سب کے لیے صرف پیسہ ہی سب کچھ بن چکا ہے۔ آج کل غیرقانونی تعمیرات کے حوالے سے عدالتوں کے فیصلے کھول کھول کر ساری کہانیاں بیان کررہے ہیں۔ اس سارے معاملے پر خوب غور و فکر کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جاپان اور ہمارے معاشرے میں اتنا تفاوت کیوں موجود ہے۔ تھوڑا سا ذہن پر زور دیا تو کہیں پڑھی ہوئی ایک تحریر چھپاک سے ذہن کے گوشوں میں ابھر آئی۔ جاپان میں پہلی سے چھٹی جماعت تک طلبہ کو صرف اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے۔ چھٹی جماعت تک طلبہ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی قوم نے دشمنوں کو کس طرح نیچا دکھایا اور کیسے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ اُنہیں صرف یہ سیکھنا ہوتا ہے کہ کسی سے ملاقات کا طور طریقہ کیا ہوتا ہے، وقت کی پابندی کیوں ضروری ہے، جھوٹ بولنا کس قدر برا فعل ہے، کھانے پینے کے آداب کیا ہیں، کسی کو مشکل میں دیکھیں تو اُس کی مدد کیسے کرنی ہے، اپنے اردگرد کا ماحول صاف ستھرا کیسے رکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون کا احترام ہرحال میں لازم ہونا چاہیے۔ گویا جب وہ جوان ہوتے ہیں تو اُن کی یہ اچھی عادات پختہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ اِس تناظر میں ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری اخلاقی حالت اس نہج پر کیوں پہنچ چکی ہے۔ تسلیم کرلیجئے کہ مری میں جوکچھ ہوا، وہ کوئی دوچار روز کی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اِس سطح تک پہنچنے کے لیے ہم نے دہائیوں محنت کی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں