"FBC" (space) message & send to 7575

’مجھے کیوں نکالا‘ کے بعد ’اگر مجھے نکالا‘

ملکی تاریخ کے مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو1971ء سے 1977ء تک سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘ صدر اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے برسرِاقتدا ررہے۔ پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے اُن کا تختہ اُلٹ دیا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ اُن کا تختہ عین اُس وقت اُلٹا گیا جب وہ انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج کرنے والے پاکستان قومی اتحاد سے مذاکرات کے بعد مفاہمت کی دستاویز پر دستخط کرنے والے تھے۔ واقفانِ حال کے مطابق‘ اگر پاکستان قومی اتحاد اور بھٹو کے مابین مفاہمت کی دستاویز پر دستخط ہوجاتے تو پھر بغاوت کا جواز ختم ہوجاتا ‘جس کا ہونا تقریباً طے پاچکا تھا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اِس ہونی کے ہونے کی اطلاع بھٹو صاحب کو دودن پہلے ہی مل چکی تھی لیکن تب تک جوابی اقدامات کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ یہ تو بعد میں معلوم پڑا کہ انتخابات میں کوئی بڑی دھاندلی ہوئی تھی نہ ہی بھٹو کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی آئی تھی، لیکن فیصلہ کرنے والے فیصلہ کرچکے تھے۔
بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد اُن کے تشخص کو مجروح کرنے کے لیے ایک ''وائٹ پیپر‘‘ شائع کیا گیا۔ بعد میں راولپنڈی جیل میں اپنی قید کے دوران مسٹر بھٹو اِس وائٹ پیپر کے جوابات اپنے وکلا کے لیے ذریعے لکھ کر باہر بھیجتے رہے اور یوں ایک مکمل دستاویز تیار ہوگئی‘ جسے سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا۔ اس وقت کی ضیا حکومت نے اِس کی ملک میں اشاعت پر پابندی عائد کردی لیکن بعد میں یہ دستاویز سمگل ہوکر لندن پہنچ گئی۔ بعد ازاں اِسیدہلی کے 'وکاس پبلشنگ ہاؤس‘ نے شائع کردیا اور پھراِس کی فوٹو سٹیٹ کاپیاں پاکستان میں بھی گردش کرنے لگیں۔ اپنی اِس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹونے ''اُنہیں کیوں نکالا‘‘ کی تمام وجوہات عوام کے سامنے رکھ دی تھیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن آخر کار ملک کایہ مقبول ترین رہنما 4 اپریل 1979ء کوتختۂ دارپرچڑھا دیا گیا۔ یہ سب کچھ اُس رہنماکے ساتھ ہوا جسے اِس بات کایقین تھاکہ اُس جیسے بین الاقوامی اہمیت کے حامل رہنما کو پھانسی پر چڑھانے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا ہے‘ لیکن طاقت کااپنا طریقہ ہوتا ہے۔
اِس سے پہلے ایک بڑی مثال اسکندر مرزا کی صورت میں بھی سامنے آچکی تھی۔ 1956ء میں ملک کو پہلا آئین ملا تواِس کے تحت اسکندرمرزا ملک کے صدربن گئے۔ انتخابات سر پر آئے تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ تادیر اقتدار کے لیے ا پنے دوست جنرل ایوب خان کو بھی اقتدار میں شراکت دار بنا لیا جائے۔ اِس کے لیے ہرطرح کے پاپڑبیلے گئے لیکن اِس کے باوجود 7 اکتوبر1958ء کا دن آہی گیا جب آئین منسوخ کرکے ملک میں پہلامارشل لانافذ کیا گیا تھا۔ ایوب خان کو اقتدار کی غلام گردشوں سے روشناس کرانے والے آئین منسوخ کرنے والوں کے سامنے بھیگی بلی بنے کھڑے تھے۔ اُنہیں نصف شب کو جگا کر آگاہ کیا گیا کہ ''ملک و قوم کے بہترین مفاد میں‘‘ اُنہیں ملک چھوڑنا پڑے گا۔ بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے گئے لیکن بالآخر ملک چھوڑتے ہی بنی۔ کہاں تو اتنی طاقت کہ پانچ پانچ وزرائے اعظم کو گھر بھجوا دیا اور کہاں یہ وقت کہ اُنہیں ایوانِ صدر سے براہِ راست ایئرپورٹ اور وہاں سے سیدھا لندن بھجوا دیا گیا۔ گویا اس روایت کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی کہ جو طاقتور ہوگا‘ فیصلہ بھی اُسی کا ہوگا۔ بعد میں اگرچہ ایوب خان کو بھی چاروناچار اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا لیکن جاتے جاتے وہ اپنے ہی ایک معتمدِ خاص کو اقتدار سونپ گئے۔ ایوب خان اور پھر بعد میں یحییٰ خان کے ادوار میں ملک کے ساتھ جوکچھ ہوا‘ وہ ہماری ملکی تاریخ کا المناک ترین باب ہے۔ اسی دور میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تھا ۔ یہ زخم آج بھی ہرسولہ دسمبر کوپوری قوم کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔ یحییٰ خان کے بعد اقتدار کا ہما ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر بیٹھا تو‘ جیسے بیان ہو چکا ہے کہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود اُنہیں پھانسی پر لٹکنا پڑا‘ کیونکہ ایک میان میں دوتلواریں بھلا کیسے سما سکتی تھیں ۔ ظاہر ہے کہ فیصلہ تو اُسی نے کرنا تھا جس کے ہاتھ میں طاقت تھی اور وقت نے یہ طاقت اس وقت ضیاء الحق کے ہاتھ میں دے رکھی تھی۔ مقبول ترین رہنما پھانسی چڑھ گیا لیکن ہمالیہ رویا نہ ملک میں کوئی تحریک اٹھی۔ ایک اور باب بند ہوگیا۔
ضیاء الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئیں تو فقیدالمثال استقبال کیاگیا ۔ لوگوں کے اِس جم غفیر کے ہم عینی شاہدہیں۔ لاکھوں کا مجمع ایئرپورٹ سے مینارِ پاکستان تک موجود تھا جس نے آمرانہ حکومت کو چونکا دیا تھا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں لیکن ہاتھ پائوں بندھے رہے۔ دوسری بار جب وہ پرویز مشرف کے دور میں واپس آئیں تب بھی ان کا شاندار استقبال ہوا جس میں دو خودکش حملے کر کے ان کی جان لینے کی کوشش بھی ہوئی مگر اس وقت تو یہ کوشش ناکام ہو گئی تاہم کچھ ہفتوں بعد‘ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں انہیں شہید کر دیا گیا۔
علاج کے لیے لندن میں مقیم نواز شریف کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ تین بار ملک کاوزیراعظم بننے والا آج بھی پوچھتا پھر رہا ہے کہ اُسے کیوں نکالا۔ مجھے یاد ہے کہ اپنی معزولی کے بعد وہ ایک جلسے سے خطاب کے لیے کوٹ مومن گئے تھے۔ تب اُن کا جلسہ کور کرنے کے فرائض ادارے کی جانب سے مجھے سونپے گئے تھے۔ اِس جلسے سے خطاب کے دوران اُن کی اور مریم بی بی کی پوری تقریر اِسی نکتے کے گرد گھوم رہی تھی کہ نواز شریف کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔ شاید اُن کے ذہن میں بھی یہی بات راسخ رہی ہوگی کہ وہ تو عوام کے مقبول ترین رہنما ہیں‘ انہیں بھلا کون اقتدار سے نکال سکتا ہے۔ اب یہ الگ بات کہ وہ نہ صرف تین بار اقتدار سے نکلے بلکہ اب ملک سے بھی نکل چکے ہیں۔ گویا جس روایت کی داغ بیل 1958ء میں ڈالی گئی تھی اُس کاتسلسل جاری وساری ہے‘ ذرا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔
یہ تو موجودہ حکومت کی بدقسمتی رہی کہ وہ ڈِلیور کرنے میں ناکام رہی اور اب ایک مرتبہ پھر ڈیل کی باتیں سر اُٹھا رہی ہیں۔ کہنے والوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ دوبڑی جماعتوں کے مابین معاملہ صرف اس بات پر اٹکا ہوا ہے کہ انتخابات فوری ہونے چاہئیں یا پھر آئندہ سال۔ جس دن اِس بات کا فیصلہ ہوگیا اُس دن شاید ''تبدیلی کا عمل‘‘ بھی تیزتر ہوجائے گا۔ اِس عمل کے آثار نظرآنا شروع ہوچکے ہیں۔ اپنی ہی صفوں کے اندر سے ہی اُٹھنے والی آوازیں آنے والے حالات کا پتا دے رہی ہیں۔ اِنہی حالات کے پیش نظر اب ایک نئی گردان شروع ہوگئی ہے '' اگر مجھے نکالا‘‘۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کیوں اپنی آنکھیں کبوتر کی طرح بند کرلیتے ہیں۔ اِس سے پہلے بھی تو ایسی آوازیں اُٹھتی رہی ہیں‘ اُن کا کچھ بن پایا تھا؟ وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ اگر اُنہیں نکالا گیا تو وہ بہت خطرناک ہوجائیں گے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب امور پیشِ نظر رکھ کر اور کوئی بندوبست کر کے ہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔اگر موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کا ڈول ڈالا جارہا ہے تو ایسا کرنے والوں کو یہ بخوبی علم ہو گا کہ اُس کے بعد کیا کرنا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے ماضی میں ہوتا آیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے معاملے میں یہ کام اس لیے بھی آسان نظر آتا ہے کہ یہ ان الیکٹ ایبلز یا اتحادیوں کے سہارے پر قائم ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک ہلکے سے اشارے یا ہوائوں کا رخ دیکھ کر وہ اپنی منزل بدلنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں لگاتے۔ ایسے افراد ہوا کا مخالف رخ اختیار کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی ایک فہرست ضرور تیار کر لینی چاہیے جو مشکل وقت میں اُن کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ دیکھا جائے تو اپنے نظریاتی کارکنوں کی بڑی تعداد کو وہ پہلے ہی ناراض کرچکے ہیں۔ اب اگر اپنے اردگرد موجود شخصیات کے بل بوتے پر خطرناک ثابت ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں تو اِسے سادگی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ڈیل کی باتیں ہو رہی ہیں تو اِن میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور موجود ہے۔ ویسے وہ کافی سمجھدار اور جہاندیدہ ہیں اور جانتے ہیں کہ ملکی تاریخ 'مجھے کیوں نکالا‘ یا 'اگر مجھے نکالا‘ کی صداؤں سے بھری پڑی ہے لیکن اُن کا جواب کبھی سامنے آیا اور نہ شاید آئندہ آ سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں