"FBC" (space) message & send to 7575

خوش آمدید محمد حبیب !

کرتار پور راہداری میں 74سالوں کے بعد دوبھائی محمد صدیق اور محمد حبیب آپس میں گلے مل رہے تھے۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور جسموں کی لرزش اُن کے جذبات کا پتا دے رہی تھی۔ چوہتر سالوں کا غم آنسو ئوں کی صورت میں آنکھوں سے بہہ رہا تھا اور دیکھنے والے بھی اِس ماحول کا حصہ نظر آ رہے تھے۔ کون اندازہ لگا سکتا ہے کہ دونوں بھائیوں کے کیا جذبات ہوں گے جو چوہتر برسوں کے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ مختصراً بیان کرنا ہوتو پھر میاں محمد بخش صاحب کے اِن اشعار سے بہتر الفاظ کہاں مل سکتے ہیں:
ماں مرے تے پیکے مکدے، پیو مرے تے گھر ویلا
شالا مرن ناں ویر کسے دے،تے اُجڑ جاندا جے میلہ
بھائی بھائیاں دے دردی ہوندے، تے بھائی بھائیاں دیاں بانہواں
باپ سراں دے تاج محمدؔ تے، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
1947ء میں معلوم نہیں کتنے افراد قربان ہوئے‘ کتنے یتیم ہوئے اور کتنے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے لیکن محمد صدیق اور محمد حبیب اِس حد تک خوش قسمت رہے کہ ایک مرتبہ پھر مل گئے۔محمد صدیق اور محمد حبیب اپنے خاندان کے ساتھ جالندھر سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ راستے میں اُن کے والد بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے اور محمد صدیق اپنی بہن کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے جبکہ محمد حبیب اور اُن کی والدہ‘ دونوں بھارت میں ہی رہ گئے۔ دہائیاں گز ر گئیں اور دونوں کو ایک دوسرے کی کچھ خبر نہ رہی۔ پھر کرشمہ کچھ یوں ہوا کہ ایک یوٹیوبر ناصرڈھلوں کی محمد صدیق سے ملاقا ت ہوئی جنہوں نے بتایا کہ تقسیم کے وقت اُن کاایک بھائی بھارت میں رہ گیا تھا۔ ناصرڈھلوں نے کچھ کھوج لگایا تو محمد حبیب کی بھارتی پنجاب میں موجودگی کے کچھ شواہد ملے۔وہ وہاں سکا خان کے نام سے رہ رہے تھے۔ بھارت میں موجودہ ڈاکٹر جگفیر سنگھ بھی اِس معاملے میں بھرپور مدد کررہے تھے۔ دونوں بھائیوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرنے والوں نے دونوں بھائیوں سے ایک دوسرے کے بارے میں کنفرم کیا تو ثابت ہوگیا کہ یہی بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ اِس کے بعد ان دونوں کو ملانے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
اِس مقصد کے لیے کرتار پور راہداری سے زیادہ مناسب مقام کون سا ہوسکتا تھا۔ بالآخر رواں سال 12 جنوری کا وہ دن آجاتا ہے جب دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دلوں کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع مل گیا۔یہ بھی بٹوارے کی اُنہی داستانوں میں سے ایک داستان ہے جو آج بھی خون کے آنسورلادیتی ہیں۔ آزاد وطن کے لیے کیسے کیسے ہیرے قربان ہوگئے۔ ماؤں‘ بہنوں کی عظمتیں تار تار ہوئی اور دریا خون کے نالے بن گئے۔ اِس درد کو امرتا پریتم نے اپنے الفاظ کی صورت جیسے سب کا درد بنا دیا ہو۔ جو امرتا نے محسوس کیا یقینا تب سب کے یہی محسوسات رہے ہوں گے۔
اج اکھاں وارث شاہ نوں‘ کیتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا‘ کوئی اگلا ورقہ پھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی‘ تے توں لکھ لکھ مارے وین
آج لکھاں دھیاں روندیاں‘ تے وارث شاہ نوں کین
اُٹھ درمنداں دیا دردیا! اُٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں‘ تے لہو دی بھری چناب
دھرتی تے لہو وسیا‘ قبراں پئیاں چون
پریت دیاں شاہ زادیاں‘ اج وچ مزاراں رون
اج سبھے کیدو بن گئے‘ حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لبھ کے وارث شاہ اِک ہور
آج ہمیں کیا معلوم کہ آزادی کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دی گئی تھیں۔ ہمیں تو آزادی پلیٹ میں رکھ کر ملی‘ بھلا ہمیں اِس کی کیا قدر ہوسکتی ہے۔ موقع ہے کہ کوئی اِس کی قدر محمد صدیق اور محمد حبیب سے پوچھے کہ دونوں بھائیوں کا بچھڑنا اور ملنا تقسیم کے وقت کی ایک ان کہی داستان ہے۔اِس ملاقات کے بعد جب وقتِ رخصت آیا تو محمد حبیب کی دلگداز اپیل نے سب کی آنکھوں کو نم کردیا۔''عمران خان سے کہو نا! مجھے ویزہ دے دے، میرا تو بھارت میں کوئی نہیں ہے‘ دل چاہتا ہے کہ میرا آخری وقت اپنوں کے درمیان آئے‘‘۔اور پھر حکومت نے یہ اپیل سن لی۔ بھارت میں ڈاکٹر جگفیر سنگھ کو پاکستانی ہائی کمیشن سے فون آتا ہے کہ اگر سکا خان عرف محمد حبیب کو ویزہ چاہیے تو وہ ہمارے پاس آئیں۔ پاکستان سے محمد صدیق کا سپانسر خط پاکستانی ہائی کمیشن کو موصول ہوتا ہے اور پھر محض دوگھنٹوں کے دوران محمد حبیب کا ویزہ لگ جاتا ہے۔ اب فیصل آبادکی چک 252 کے رہائشی محمد صدیق کو اپنے بھائی کی آمد کا بے تابی سے انتظار ہے۔ اُ ن کے ساتھ پورا گاؤں بھی محمد حبیب کی آمد کا منتظر ہے۔ محمد حبیب اب واہگہ کے راستے پاکستان آئیں گے اور محمد صدیق کا کہنا ہے کہ وہ ڈھوپ کی تھاپ پر اپنے بھائی کا بارڈر پر استقبال کریں گے۔ دوسری طرف ڈاکٹر جگفیر کے مطابق بھارتی پنجاب میں محمد حبیب کے گاؤں کے لوگ افسردہ بھی ہیں کہ اُن کے دکھ سکھ کا ساتھی پاکستان جارہا ہے۔ اُنہیں گمان ہے کہ تمام عمر مجرد زندگی گزارنے والا محمد حبیب اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
بہرحال آگے جو بھی ہو‘ سچی بات یہ ہے کہ جب سے یہ کہانی سامنے آئی ہے‘ سوچوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی گردش میں ہے۔ تقسیم کی خونچکاں داستانیں ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہیں۔بات پھر وہی کہ جنہیں پیدا ہوتے ہی آزادی کی نعمت حاصل ہو گئی ہو‘ اُنہیں اِس کی کیا قدر ہوسکتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک کیا سے کیا بن چکا ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر ہم اپنے ملک کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے کئی دہائیوں بعد بھی ہمیں اپنی سمت تک معلوم نہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں کرپشن،بے ایمانی، جھوٹ، دھوکا دہی، لاقانونیت اور حق تلفی جیسی قباحتیں اپنے عروج پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر بظاہر بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ صبح شام بس باتیں ہی باتیں لیکن عمل ندارد۔ بہرحال ہم محمد صدیق اور محمد حبیب جیسی شخصیات کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا۔یہ تو صرف دوبھائیوں کی کہانی ہے جو سامنے آگئی ورنہ تو ایسی اَن گنت داستانیں ہیں جو وقت کی گرد میں چھپ چکی ہیں۔
اب محمد صدیق اور اُن کے گاؤں والے محمد حبیب کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ محمد حبیب کو سرکاری مہمان کا درجہ دے کر حکومتی سطح پر اُن کا استقبال کیا جائے۔ اِس سے اُن کے دکھوں کا مداوا تو نہیں ہوپائے گا لیکن کم از کم اُنہیں اتنا احساس تو ہو جائے گاکہ پاکستانی قوم اور حکومت کو اُن کے درد کا احساس ہے۔ بلاشبہ یہاں ناصرڈھلوں، لولی سنگھ اور ڈاکٹر جگفیر سنگھ کی کوششوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیاجاناچاہیے جو بچھڑوں کو ملانے کے لیے اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔ اِس داستان کے سامنے آنے سے اِس بات کی اہمیت پھر اُجاگر ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو ویزہ کی پابندیاں نرم کرنی چاہئیں اورعوامی سطح پر رابطوں کوفروغ دینا چاہیے تاکہ تلخیاں کم ہوسکیں اور دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کاموقع مل سکے۔ہو سکتاہے کہ پابندیاں نرم ہونے سے بچھڑے ہوئے چند مزید خاندانوں کا ملنا ممکن ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں