"FBC" (space) message & send to 7575

پارلیمنٹ کے فیصلے چوکوں‘ چوراہوں میں؟

حکومت میں آنے کے لیے دھرنوں کا سہارا لیا گیا تھا تو اسے بچانے کے لیے جلسوں کا سہارا لینے میں کیا مضائقہ ہے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اپوزیشن میں رہتے ہوئے دھرنے دیے گئے تھے ‘ اب حکومت میں ہوتے ہوئے 27مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایسا جلسہ منعقد کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب 28مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی ہے حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں دس لاکھ بندے اکٹھے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تو کھلم کھلا اس اجتماع کا مقصد بھی بیان کردیا گیا ہے۔ حکومتی صفوں سے اعلان ہوا ہے کہ اراکین نے اسی مجمع سے گزر کر پارلیمنٹ میں پہنچنا ہے اور پھر اسی سے گزر کر اُن کی واپسی ہونی ہے۔ مطلب بہت سیدھا اور صاف ہے کہ تحریک انصاف کے جس رکن نے بھی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا تو پھر اُس کے لیے واپسی کا راستہ کافی مشکل ہوگا۔ حیرت کی بات ہے کہ جس جماعت کے سربراہ کہا کرتے تھے کہ جس دن اُنہیں چند سو لوگ بھی یہ کہہ دیں گے کہ ہمیں آپ کی ضرورت نہیں‘ وہ گھر واپس چلے جائیں گے۔ جس جماعت کی انتخابی مہم کا بنیادی ماٹو ہی یہی تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا ‘ آج وہ تحریک عدم اعتماد سے ڈرتی نظر آرہی ہے۔افسوس کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی حکومت اب خود ہی ہجومی سیاست کا راستہ اختیار کررہی ہے۔اس کی بہت سی دیگر وجوہات بھی ہوں گی لیکن بظاہر اس کی بڑی وجہ یہی دکھائی دے رہی ہے کہ حالات کی خرابی کا ‘‘ڈراوا ‘‘دے کر تحریک عدم اعتماد کی واپسی کا کوئی راستہ پیدا کیا جائے ۔ گویا بظاہر حکومت کو بھی یہ یقین ہوچکا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مرحلہ آن پہنچا تو پھر اُس کا بچنا محال ہوگا۔ ایسے نہ ہوتا تو پھر ایک آئینی مرحلے کے راستے میں اتنی رکاوٹیں نہ ڈالی جاتیں۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے کارکنوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہونے کا کہہ دیا ہے۔ اس کا مبینہ مقصد ووٹنگ کے لیے آنے والے اراکین اسمبلی کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اب اگر معاملات اس سطح تک پہنچ گئے ہیں تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورت حال کسی بھی رخ پر جاسکتی ہے۔ ابھی تو ذہنوں سے وہ 126دنوں کا دھرنا اور اُس کے نتائج ہی محونہیں ہوپائے کہ اب حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے سامنے آنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔حالات کی نزاکت کے پیش نظر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے حکومت اور اپوزیشن کواپنے اپنے اجتماعات منسوخ کرنے کی اپیل کی گئی ۔ اس اپیل کے جواب میں وزیراطلاعات فواد چوہدری صاحب نے قرار دیا کہ اُن کے اجتماع کا مقصد تصادم نہیں۔ ٹوئٹر پر اُن کی طرف سے سامنے آنے والے کچھ بیانات میں اُنہوں نے قرار دیا کہ ہم توہرگز شدت پسندی کی سیاست نہیں کرتے۔اب اس حوالے سے کیا کہا جائے کہ کچھ روز پہلے تک تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا کون سا رکن پارلیمنٹ تحریک کے حق میں ووٹ دے کر مجمع سے گزر پاتا ہے۔ دوسری طرف اب اُن کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف صرف اور صرف جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہے۔ اب کم از کم یہ سمجھنا معمولی عقل رکھنے والے ہم جیسوں کے لیے تو بہت مشکل ہے کہ دونوں میں سے کس بات کا یقین کیا جائے۔تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیدار عامر کیانی کی طرف سے بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے حوالے سے کافی سخت زبان استعمال کی گئی۔ یہ وہی عامرکیانی صاحب ہیں جن کی وزارت صحت کے دورمیں بھاری بھر کم حجم کا ادویات سکینڈل سامنے آیا تھا۔اسی پاداش میں اُنہیں اپنی وزارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے ۔وزارت تو اُن سے چھن گئی لیکن اس کا مداوا اُنہیں تحریک انصاف کااعلیٰ عہدہ دے کر کردیا گیا۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے بھی اپنی عوامی مقبولیت کو ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بات تو بہرحال تسلیم کرنا ہوگی کہ جلسوں کی حد تک تحریک انصاف اپنے کارکنوں کی کثیر تعداد اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔دیکھا جائے تو جلسوں میں اتنی بڑی تعداد میں عوام کی شرکت نے اپوزیشن کو کسی حد تک حیرت زدہ ضرور کیا ہے ورنہ یہی تاثر تھا کہ مہنگائی سمیت متعدد عوامل کی بنا پر حکومت اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ اندازے لگائے گئے تھے کہ اب بس باہر نکلنے کی دیر ہے باقی کام خود بخود ہوجائے گا لیکن بڑے جلسے منعقد کرکے حکومت خود پر دباؤ کم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔اب چاہے کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن حقیقت یہی نظرآئی کہ اپنے جلسوں میں تحریک انصاف بڑی تعداد میں کارکنوں کو لانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان جلسوں میں خطابات کے دوران کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی گئی ۔ وزیراعظم صاحب نے وہ باتیں بھی عوام کے سامنے بیان کردیں جس کے اُنہیں منفی اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ان نتائج سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اب تحریک انصاف کی طرف سے ڈی چوک پر جلسہ کرنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ کو درخواست دی جاچکی ہے۔غالب گمان ہے کہ یہ اجازت بھی مل جائے گی جس کے بعد اپوزیشن کو بھی وہاں اجتماع کرنے سے روکنے کا کم از کم اخلاقی جواز ختم ہوجائے گا۔ اُس کے بعد ممکنہ طور پر جو کچھ وہاں ہوسکتا ہے‘ اُس کے بارے میں اگرچہ حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن کچھ نہ کچھ اندازہ تو لگایا ہی جاسکتا ہے۔اللہ نہ کرے کہ وفاقی دارالحکومت میں کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہو لیکن موجودہ حالات آنے والے دنوں کی بابت کوئی اچھی خبر نہیں سنا رہے۔حکومتی صفوں سے تو یہ باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں کہ اُن کا 27مارچ والا جلسہ دنیا تادیر یاد رکھے گی۔ اب معلوم نہیں اُس جلسے میں ایسا کیا ہونے والا ہے کہ جسے دنیا تادیر بھلا نہیں پائے گی‘ حالانکہ جلسے تو منعقد ہوتے ہی رہتے ہیں اور چند دنوں بعد یادداشتوں سے محو ہوجاتے ہیں۔
گویا حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں اطراف سے صفیں آراستہ کی جاچکی ہیں اور طبل جنگ بج چکا ہے۔ دونوں ہی یہ سمجھ رہے ہیں کہ معاملہ اب نہیں تو کبھی نہیں جیسا ہوچکا ہے۔اپوزیشن اور حکومت کو معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانے سے گریز کی اپیلیں کی جارہی ہیں لیکن ان تجاویز کا نتیجہ نکلنے کی توقع اب کم ہی رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں چوہدری برادران وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔اپوزیشن کے ساتھ بھی ملے ہوئے ہیں اور اندر خانے حکومت سے بھی بات کو مکمل طور پر بگڑنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے بیانات تسلسل سے سامنے آرہے ہیں جن سے یہ تاثرملتا ہے کہ اُن کا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ہے ‘ مگر بیچ بیچ وہ حکومت کے ساتھی بھی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دراصل وہ حکومت سے باہر رہنا افورڈ ہی نہیں کرسکتے ‘ ان کی بھرپورکوشش ہے کہ کسی طرح سے وزارت اعلیٰ ہاتھ آ جائے ورنہ سپیکرشپ اور وزارتوں کے ساتھ ہی گزارا کر لیں گے۔ شاید کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ مسلم لیگ ق آخری دن تک موجودہ حکومت کا حصہ رہے گی اور پہلے ہی دن نئی حکومت کا حصہ بنی دکھائی دے گی۔ اب جس کی بھی حکومت آئے یہ اُس کے ساتھ مل جائیں گے‘ لیکن دھڑے تبدیل کرنے کا یہ عمل جس طرح سے جاری ہے وہ بہت تشویش ناک ہے۔
قوی خدشات موجود ہیں کہ حکومت بچانے اور حکومت گرانے کے لیے اختیار کیا گیا ہجومی سیاست کا انداز کہیں معاملات کو سنگین ترین حد تک نہ بگاڑ دے۔ جب طرفین آمنے سامنے بھی ہوں گے تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ویسے جب پارلیمنٹ موجود ہے تو پھر چوک چوراہوں میں تماشے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟شاید ایک مرتبہ پھر یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں آئینی‘ قانونی اور جمہوری طریقے سے بڑھ کر اپنے زور بازو پر بھروسا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں