"FBC" (space) message & send to 7575

مائنڈ سیٹ

18 اپریل 2022ء کوسب انسپکٹر محمد سلیمان لاہور ہائیکورٹ میں آیا تھا۔ پچپن سالہ سب انسپکٹر نے کسی مقدمے میں ملوث ملزم حسنین کی درخواستِ ضمانت کا ریکارڈ بغل میں داب رکھا تھا۔ درخواستِ ضمانت پر عدالتِ عالیہ نے فریقین کے دلائل سننے اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد ضمانت خارج کردی۔ سب انسپکٹر کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کمرۂ عدالت سے باہر نکلنے کے بعد اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی اس نے 10بجے کے قریب کمر ۂ عدالت سے قدم باہر نکالا تو ملزم پارٹی اور اُس کا وکیل اُس پر پل پڑے۔ محمد سلیمان اپنی جان بچانے کی لاکھ دہائیاں دیتا ہے۔ مارنے والوں کو بتاتا ہے کہ وہ دل اور شوگر کے امراض میں مبتلا ہے‘ خدا کے لیے اُس کی جان بخش دی جائے لیکن سب دہائیاں بے کار جاتی ہیں اور اسے کہا جاتا ہے کہ وہ اسے جان سے مارنا ہی چاہتے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ یہ سب کچھ وہاں ہورہا تھا جہاں سائلین صوبے بھر سے حصولِ انصاف کے لیے آتے ہیں اور جہاں صبح کے اوقات میں بے پناہ رش کے علاوہ سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات ہوتے ہیں۔ اِس سب کے باوجود کسی نے بھی مار کھاتے ہوئے سب انسپکٹر کو بچانے کے لیے کوئی کوشش نہ کی اور بالآخر وہ نڈھال ہوکر گرپڑا۔ اُسے گرتا دیکھ کر تمام افراد وہاں سے فرار ہوجاتے ہیں ۔ سب انسپکٹر کو ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ اب اِس واقعے کا مقدمہ تھانہ پرانی انارکلی میں درج کیا جاچکا ہے جس کی تفتیش جاری ہے۔ پولیس حکام کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ کچھ ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے لیکن اِن سطور کی تحریر تک مرکزی ملزم قانون کی گرفت سے باہر ہے ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ملزمان کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں‘ وغیرہ وغیرہ۔ مطلب وہی بیانات جو ایسے کسی بھی واقعے کے پیش آنے پر رٹے رٹائے انداز میں دیے جاتے ہیں‘ سامنے آنے لگے ہیں۔ ہائیکورٹ کے احاطے میں تشددسے ایک پولیس اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا مگر کسی بھی سطح پر کوئی ارتعاش برپا نہیں ہوا۔ چند روز مزید گزریں گے کہ یہ واقعہ بھی ذہنوں سے محو ہوجائے گا۔ جہاںذمہ داران کو ہروقت حکومتیں گرانے اور بچانے کی پڑی رہتی ہے‘ وہاں بھلا ایسے ''چھوٹے موٹے‘‘ واقعات پر اپنا وقت ضائع کرنے کی فرصت کس کے پاس ہوسکتی ہے۔
ابھی گزشتہ دنوں ایک عدالت نے سری لنکن باشندے کے قتل کیس پر فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے 89صفحات پر مشتمل فیصلے میں جا بجا آیات اور احادیث شریف کے حوالے بھی دیے گئے ہیں جبکہ قراردیا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات میں بہت اضافہ ہورہا ہے اور ایسے کیسز سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے غیرمسلموں کی لاشوں کی بے حرمتی کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن ہجوم نے لاش کی بے حرمتی کرکے نبی کریم ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی کی۔ عدالت کی طرف سے چھ افراد کو سزائے موت اور 82افراد کو قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ یقینا عدالت کے اِس فیصلے سے ہجومی انصاف جیسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ جب ایسے واقعات میں ملوث افراد کو ایسی ہی سخت سزائیں ملیں گی تو بلاشبہ ہجومی انصاف کے رحجان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ عدالت کے اِس فیصلے کو پڑھتے ہوئے ذہن میں ایک واقعہ گھومنے لگا جو کچھ زیادہ پرانا بھی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک تنظیم کے احتجاج کے دوران کم از کم سات پولیس اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے مگر کسی ملزم کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوئی۔ سوال ہے کہ اگر سری لنکن باشندے کو قتل کرنے والوں کا تعلق بھی کسی بااثر حلقے سے ہوتا تو کیا اِنہیں سزائیں مل پاتیں؟
چند روز پہلے ہی ناظم جوکھیو قتل کیس میں ناظم کی اہلیہ شیریں جوکھیونے ملزمان کو معاف کردیا۔ یہ وہی ناظم جوکھیو ہے جس نے گزشتہ سال دواکتوبر کی صبح کچھ غیرملکیوں کو اپنے گاؤں کے قریب غیرقانونی شکار سے منع کیا تھا اور ان کی وڈیو بنائی تھی۔ بعد میں اُس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مہمانوں سے معافی مانگے ۔ انکار کی پاداش میں مقامی وڈیروں نے اُسے اپنے ڈیرے پربلایا اور وہاں تشدد کرکے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اُس کے بعد مقدمہ تو درج ہوگیا لیکن اندراج مقدمہ کے بعد جو کچھ ہوا‘ اُس میں شاید ملزم سے زیادہ مدعی ذلیل ہوا ۔ایسے میںشیریں جوکھیوکے لیے ملزموں کو معاف کرنا ہی ''اکلوتا آپشن‘‘ تھا کیونکہ ملزمان کی فہرست میں پیپلزپارٹی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی‘ ایک رکن قومی اسمبلی اور اُن کے چار دیگر ساتھی شامل ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اراکینِ اسمبلی اور ان کے دوست‘ ساتھی بھی بااثر ہی ہوں گے ۔
معافی کے حوالے سے شیریں جوکھیو کا جو بیان سامنے آیا ہے‘ اگر وقت ملے تووہ ضرور سنیے گا۔ ''کوئی بال بچوں والا ہی میری مجبوری سمجھ سکتا ہے، جو ماں بہن والا ہوگاوہی میرا درد محسوس کرسکتا ہے، میں یہ مقدمہ لڑنا چاہتی تھی لیکن نہیں لڑ سکتی کیونکہ مجھ میں ہمت نہیں رہی‘ اِس لیے میں اپنا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتی ہوں‘‘۔اس سے قبل زین قتل کیس میں بھی زین کی والدہ کے الفاظ کچھ ایسے ہی تھے۔‘ پندرہ سالہ زین‘ جسے مبینہ طور پر مصطفی کانجو نے گاڑی سے ٹکرانے پر سب کے سامنے گولیاںبرسا کر قتل کر دیا تھا‘ کی والدہ کا کہنا تھا کہ میں ان طاقتوروں کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی سو اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑتی ہوں۔ ویسے کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ کسی بڑے آدمی نے اپنا فیصلہ روزِ قیامت پر چھوڑا ہو؟ہمیشہ کمزور آدمی ہی یہ فیصلہ کیوں کرتا ہے کہ اب اُس کے لیے دنیا میں اپنے مقدمے کی پیروی ممکن نہیں رہی، اِس لیے وہ اپنا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہے۔ کمزوروں کو لارے لپے کیوں لگائے جاتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے؟ بظاہر جو حالات ہیں اُ ن کے پیش نظر محسوس یہی ہوتا ہے کہ آئندہ بھی صورت حال میں بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہی ہے ہماراالمیہ! یہاں قانون کی بالادستی کا راگ سب الاپتے ہیں لیکن اِس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملاً کوئی بھی تیار نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب یہاں جس کی لاٹھی‘ اُس کی بھینس کاقانون پوری مضبوطی سے اپنی جڑیں گاڑ چکا ہے۔ کوئٹہ میں دن دہاڑے ایک ایم پی اے کا ٹریفک کانسٹیبل کو اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے کا واقعہ بھی سب کو یاد ہی ہوگا۔ اِس واقعے کی فوٹیج تک موجود ہے لیکن اِس کے باوجود ''عدم ثبوتوں‘‘ کی بنا پر ایم پی اے صاحب بے گناہ قرار پائے۔ ناظم جوکھیو کو قتل کرنے والوں کو قانون کا کوئی ڈر تھا نہ پولیس اہلکاروں کی جانیں لینے والوں کوجوابدہی کا کوئی خوف تھا۔ اِسی طرح ہائیکورٹ کے احاطے میں ایک مرتبہ پھر پیش آنے والے افسوس ناک واقعے کے ذمہ داروںکو بھی یہی گمان ہوگا کہ وہ کچھ بھی کرگزریں‘ اُن کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ اِسی سوچ کے پیش نظر ماضی میں بھی عدالتی احاطوں میں پولیس اہلکاروں کی پٹائی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ سائلین پر تشدد کرنا بھی معمول بن چکا ہے لیکن صورت حال میں بہتری اِسی لیے نہیں آرہی کہ ذمہ دار سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ سب انسپکٹر سلیمان کے واقعے میں اُمید کی اتنی سی کرن ضرور نظرآرہی ہے کہ قائم مقام سی سی پی او کی طرف سے اِس کا سخت نوٹس لیا گیا ہے جبکہ پنجاب بارکونسل کی طرف سے بھی واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ معاملہ چاہے سب انسپکٹر سلیمان کا ہو، ناظم جوکھیو کا ہو‘ احتجاج کے دوران اپنے زندگیوں سے محروم ہوجانے والے پولیس اہلکاروں کا ہو یا پھر ایم پی اے کی گاڑی کے نیچے کچلے جانے والے ٹریفک کانسٹیبل کا‘ دراصل ہمارے ہاں طاقتوروں کا یہ مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ وہ کچھ بھی کر گزریں، قانون اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ دیکھا جائے تو اُن کی یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے کہ ہمارے قانون کو جس طرح موم کی ناک بنا دیا گیا ہے‘ اُس کا حتمی نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔ بدقسمتی سے یہ رجحان اب معاشرے میں نچلی سطح تک اپنے پنجے گاڑ چکاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں