"FBC" (space) message & send to 7575

اندھی تقلید سے گریز لازم

27مارچ کواسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان ایک خط لہراتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیرملکی سازش کا نتیجہ ہے۔ اِس حوالے سے وہ پہلے کسی ملک کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں اور بعد میں امریکا کا نام لیتے ہیں۔ پرتیں کھلتی ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ ایک سفارتی کیبل تھی جو امریکا میں پاکستانی سفارتکار اسد مجید کی طرف سے بھیجی گئی تھی۔ کیبل میں اسد مجید صاحب نے امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اہم عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات اور اُن کی باتوں کا تذکرہ کیا تھا۔ کیبل کے متن کے مطابق اِس میں مبینہ طور پر امریکی عہدیدار کی طرف سے آگاہ کیا گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا عہدے پر قائم رہنا دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کرسکتا ہے۔ یہ ویسی ہی سفارتی کیبل تھی جو دنیا بھر کے مختلف ممالک میں موجود سفارت کار اپنے ملک کو بھیجتے رہتے ہیں۔ اِسی طرح ہمارے ملک میں موجود غیرملکی سفارت کار بھی ایسی کیبلز اپنے اپنے ممالک کو بھیجتے رہتے ہیں۔ اِن کیبلز میں باہمی تعلقات کا احاطہ اور اپنے ملک کو کسی بھی ملک کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ کیبلز انتہائی خفیہ ہوتی ہیں جنہیں کسی بھی طور عوامی سطح پر عام نہیں کیا جاتا لیکن بقائے اقتدار کے لیے عمران خان یہ بھی کر گزرے۔ اِس کے امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر تو جو اثر پڑے گا‘ وہ تو پڑے گا ہی لیکن اِس فعل نے وزارتِ خارجہ کو بھی تنازعات کے بیچ لا کھڑا کیا۔ اب وزارتِ خارجہ کے افسران کے درمیان تاثر یہ اُبھر رہا ہے کہ آئندہ اُنہیں ایسی کیبلز بھیجتے ہوئے احتیاط برتنا ہوگی۔ اگر سفارتی افسران آئندہ کے لیے احتیاط برتنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو یقینا اِس سے اُن کی قوتِ فیصلہ متاثر ہوگی۔ دوسرے ممالک بھی وہاں موجود پاکستانی سفارت کاروں پر اعتماد کرنے میں محتاط ہوجائیں گے جس کے لامحالہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ شاید ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سفارتی معاملات کو بھی سیاسی تنازعات کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
بہرکیف قصہ آگے بڑھتا ہے اور اِس سفارتی کیبل کو لے کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیرملکی سازش قرار دے کر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ اِس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے جو پانچ دن کی سماعت کے بعد ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے اور عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم جاری کرتی ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر اجلاس بلا کر تحریک عدم اعتماد پر رات گئے ووٹنگ کرائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وزیراعظم صاحب کو اپنا عہدہ چھوڑتے ہی بنتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس کا طوفان آجاتا ہے جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ عمران خان کو غیرملکی طاقت کا حکم نہ ماننے کی سزا دی جارہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خود مختاری کا راگ الاپنے والوں کو شاید وہ دن یاد نہیں رہے جب غیرملکی دباؤ پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کی گئی تھی۔ یہ بات ہے 6 دسمبر 2019ء کی‘ جب دفترِ خارجہ کی طرف سے باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ 14 دسمبر کو وزیراعظم صاحب نے ایک برادر مسلم ملک کا دورہ کیا جس کے بعد کہا گیا کہ وزیراعظم کے بجائے وزیرخارجہ کوالالمپور سمٹ میں شرکت کریں گے۔ اِس پر ایک مرتبہ پھر دباؤ آیا تو کانفرنس میں شرکت ہی سے معذرت کرلی گئی۔ اِس معذرت پر بعدمیں ہم اپنے دوسرے برادر مسلم ممالک کو صفائیاں دیتے رہے تھے۔
اُنہی دنوں ایک سابق سفیر کے ساتھ اِس معاملے پر بات چیت ہوئی تو اُنہوں نے واضح طور پر یہ قرار دیا کہ اگرچہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنا ملک کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے لیکن ہماری کچھ معاشی مجبوریاں ہیں۔ سابق سفیر کے بقول اِن مجبوریوں کی وجہ سے ہم خصوصی طور پر دوبرادر خلیجی ممالک کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ ہم حکومت کی تبدیلی کوبرملا ایک بڑی طاقت کی سازش قرار دے رہے ہیں؟ جب اقتدارہاتھ سے پھسلنا شروع ہوا توخودمختاری کا راگ الاپنا شروع کردیا گیا۔ افسوس کہ ایک سفارتی کیبل کو بنیاد بنا کر اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کو بھی غدار اور ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ہی اگر‘ مگر سے مشروط رہی ہے اور یہ تب تک اگر مگر سے مشروط رہے گی جب تک ہم معاشی اور سیاسی استحکام حاصل نہیں کرلیتے جس کا فی الحال دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ جب کوئی حکومت اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو بیٹھتی ہے تو اُسے خندہ پیشانی سے اپنی شکست کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر تحریک انصاف کی جگہ کسی دوسری جماعت کی حکومت بھی یہ طرزِ عمل اپناتی تو یقینا سنجیدہ احباب اِس کی بھی مذمت کرتے اور اِسے ناپسندیدہ قرار دیتے۔ ایوان میں ہوئی شکست کو غیرملکی سازش قرار دیا جارہا ہے تو اِسے احسن عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اقتدار سے محرومی کو اگر غیرملکی سازش قرار دینے کے بجائے اپنی حکومتی کارکردگی پر بات کی جاتی توکوئی بات بھی تھی۔ آج اگریہ سوالات پوچھے جائیں کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس کسی بھی صورت نہ جانے کا بیانیہ کہاں گیا؟ پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بحال کرانے کے دعوے کہاں گئے؟ ملک کے لوٹے گئے اربوں ڈالر ملک میں واپس لانے کی باتوں کا کیا ہوا؟ نوے دنوں کے اندر کرپشن ختم کرنے کے دعوے کہاں گئے؟اِن سب سوالات پر تحریک انصاف کے ساتھی برا مناتے ہیں لیکن وہ یہ سمجھنے کے لیے تیارنہیں کہ اگر بڑی بڑی باتیں‘ بڑے بڑے دعوے کیے تھے تو اب اُن کا جواب دینے سے گریز کیوں؟
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس سارے قضیے میں اراکین اسمبلی کا وفاداریاں تبدیل کرنا کسی طور بھی احسن یا جائز قرار نہیںدیا جاسکتا۔ 2018ء میں جب یہ کھیل کھیلاجارہا تھا‘ تب بھی سنجیدہ حلقوں کی طرف سے اِس پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اب بھی اِس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جارہا۔ سوال یہ بھی ہے کہ 2018ء میں کیا جانے والا عمل اب تحریک انصاف کے نزدیک ناپسندیدہ کیوں ہو گیا ہے؟ ایک 'وسیم اکرم پلس‘ کی خاطر آپ نے پنجاب میں اپنی جماعت کے اندر پانچ
گروپ بنوا دیے۔ وفاقی سطح پر بھی جماعت کے اندر شدید اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں مگر ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اب اگر آپ کے اپنے ہی ارکان آپ کا ساتھ چھوڑ گئے تو اِس میں دوسروں کو قصور وار کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے؟ آپ کے اپنے اراکین کا منحرف ہو جانا کیا غیر ملکی سازش ہے؟ البتہ دوسری جانب اس پر بھی افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر نیب زدہ شخصیات زمامِ اقتدار سنبھال چکی ہیں۔ کابینہ کے 35 میں سے 24 افراد مختلف مقدمات میں نامزد ملزم ہیں۔یقینا ان لوگوں کے دوبارہ عوام پر مسلط ہونے کی ذمہ داری بھی تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ 151 افراد کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے‘ اب جلد ہی 'اے ٹی ایمز‘ بھی نئی حکومت کا حصہ بن جائیں گی۔
عوام نے اچھے کی آس‘ اُمید پر تحریک انصاف کو اقتدار دلایا تھا لیکن افسوس کہ کوئی ایک توقع بھی پوری نہ ہوسکی۔ ساڑھے تین سالوں سے زائد کے دور میں ایک ہی طرح کی باتیں سن سن کر کان پک گئے۔ ستم بالائے ستم اب سابق حکمران جماعت نے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہاں ہم جیسے عام افرادکو بھی اپنے رہنماؤں کی اندھی تقلید کا طرزِعمل ترک کرنا ہوگا۔ حالات میں بہتری تبھی آ سکتی ہے جب عوامی سطح پر جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا چلن عام ہو گا۔ اِسی طرز عمل سے اُن لیڈران پر بھی دباؤ بڑھے گا جن کے فیصلوں نے عوامی اعتماد کو مجروح کیا۔ مناسب طرزِ عمل یہی ہے کہ درست کا ساتھ دیا جائے اور غلط سے دور رہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل جیسی نعمت سے نواز ا ہے تو پھر ہمیں اِس کا استعمال بھی کرنا چاہیے ورنہ اندھی تقلید انتہائی تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں