"FBC" (space) message & send to 7575

اپارتھائیڈ انڈیا

جنوری 1950ء میں آسٹریلیا کی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف ڈربن میں اپنا تیسرا ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی۔ مہمان ٹیم کو جیتنے کے لیے336رنز کا ہدف ملا تھا۔ آسٹریلیا نے نیل ہاروے کے 151رنز کی بدولت مطلوبہ ٹارگٹ پانچ وکٹوں کے نقصان پر پورا کرکے فتح حاصل کرلی۔ یہ میچ کرکٹ کے دوسرے میچز کی طرح ہی تھا‘ وہی تماشائیوں کا شوروغل اور گیند اور بلے کی جنگ لیکن کوئی وجہ تو ہے کہ اتنے عرصے کے بعد آج بھی اکثر اِس میچ کا تذکرہ سننے کو ملتا رہتا ہے۔ اِس میچ کو یاد رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ تب تماشائیوںمیں ایک اکتیس سالہ سیاہ فام شخص بھی موجود تھا۔ اِس شخص نے کچھ دیگر سیاہ فام افراد کے ساتھ مل کر یہ میچ دیکھا تھا لیکن ویسے نہیں جیسے دیگر تماشائی اِس میچ سے لطف اُٹھا رہے تھے بلکہ ان افراد کے لیے سٹیڈیم میں خاردار تارلگائے گئے تھے جہاں بیٹھ کر اُنہوں نے میچ سے لطف اُٹھایا۔ وہ اکتیس سالہ شخص نیلسن منڈیلا تھا اور اِن سب سیاہ فاموں کو الگ تھلگ خاردار تاروں کے پیچھے بٹھانے کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ تم لوگ سفید فاموں کے مقابلے میں گھٹیا درجے کے ہو۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کے ساتھ انتہائی متعصبانہ رویے کے واقعات 1940ء سے مسلسل پیش آرہے تھے۔ یہ سب کچھ ''اپارتھائیڈ نظام‘‘ کا شاخسانہ تھا جس کے تحت سیاہ فاموں کو دبانے اور ذلیل کرنے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اکثر مواقع پر حکومت کے لیے مشکلات پیداکرنے والے سیاہ فاموں کے مکانات گرانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تھا۔ ایسے متعدد واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ جب ایک شخص کے انفرادی فعل کی سزا اُس کے پورے خاندان کو دی گئی۔ اُس شخص کے گھر کو گرا کر اہلِ خانہ کو بے گھر کردیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا تاآنکہ 1994ء میں‘ خاردار تاروں کے پیچھے سے میچ دیکھنے والے نیلسن منڈیلا ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔
جنوبی افریقہ میں جو کچھ بطور اپارتھائیڈ سٹیٹ‘ سیاہ فاموں کے ساتھ ہوتا رہا ، ویسا ہی سب کچھ اسرائیل نے مزید شدت سے اپنے ہاں بسنے والے عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کیا اورمسلسل کررہا ہے۔ جنوبی افریقہ میں تو اب وہاں کے اصل باشندے دوبارہ سے بااختیار ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل میں عربوں اور وہاں محدود تعداد میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے صورتحال ہنوز انتہائی خوفناک ہے۔ کہنے کو اسرائیل میں بسنے والے یہ لوگ وہاں کے شہری ہیں جنہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہے لیکن یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اپارتھائیڈ پالیسیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ مطلب ایک ہی ملک میں دومختلف اقوام سے بالکل الگ الگ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ فلسطینی عرب بغیر اجازت ایک سے دوسرے شہر نہیں جاسکتے۔ کسی دوسرے علاقے میں کام کرنے کے لیے اِنہیں سرکاری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت عربوں کے علاقوں سے پھل دار درخت کاٹ کر وہاں ایسے درخت لگائے گئے ہیں جو پھل دیتے ہیں نہ سایہ۔ اِن سب مظالم کی سب سے خوفناک شکل یہ ہے کہ معمولی الزامات پر بھی بے دریغ اِن مظلوموں کے گھروں کو مسمار کردیا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکومت خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی کو بے گھر کرکے ، اُس کے سر سے چھت چھین کر اُسے طویل عرصے کیلئے مزاحمت کرنے کی صلاحیت سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ خود امریکی اداروں کی جاری کردہ بے شمار رپورٹس میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے۔ کئی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اکثر اوقات گھروں کی مسماری کیلئے صرف چند گھنٹوں کا نوٹس دیا جاتا ہے جس کے بعد کارروائی شروع کر دی جاتی ہے‘ بغیر اس بات کا دھیان کیے کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔
جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے بعد اپارتھائیڈ کی تازہ شکل بھارت میں ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے اِس ملک میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک روا رکھنے کا سلسلہ تیز تر ہوچکا ہے۔ دیکھا جائے تو بھارت میں بسنے والے مسلمان تقسیم کے بعد ہی سے اکثریت کے ظلم کا نشانہ بنتے آرہے ہیں لیکن 2002ء کے گجرات فسادات کے بعد اِن مظالم میں بہت تیزی آچکی ہے۔ طویل عرصے تک یہ گمان کیا جاتا رہا کہ شاید ہندو‘ مسلم کارڈ کو انتخابی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن حالات و واقعات نے ظاہر کرنا شروع کردیا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے برسراقتدار آنے کے بعد سے جس طرح انتہا پسند ہندو تنظیموں کوشہ دی جارہی ہے‘ مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر جس طرح اُنہیں سرکاری سرپرستی فراہم کی جارہی ہے اُس سے بخوبی ظاہر ہورہا ہے کہ معاملہ 'رام راج‘ کے قیام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب تو حالات اس نہج تک آن پہنچے ہیں کہ دھرم سنسد یعنی مذہبی اجتماعات میں نرسنگھا نند جیسے انتہا پسند کھلے عام مسلمانوں کے قتلِ عام کی باتیں کر رہے ہیں۔ بجرنگ مُنی جیسے انتہا پسند مسجد کے سامنے کھڑے ہوکر مسلمان خواتین کو گھروں سے نکال کر اُن کا ریپ کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ کرناٹک میں مسلم خواتین کوحجاب کے مذہبی حق سے محروم کیا جاچکا ہے۔ اِس سال بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو تہوار 'نوراتری‘ کے موقع پر کئی ریاستوں میں گوشت کی فروخت اور اِسے کھانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اب مساجد سے لائوڈ سپیکر اُتارنے کیلئے بھرپورمہم چلائی جا رہی ہے۔ جن مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دی جاتی ہے‘ وہاں اذان کے وقت ہندو سپیکر پر اپنے بھجن گانے لگتے ہیں۔ جا بجا مسلمانوں دکانداروں سے سوداسلف نہ خریدے جانے کے اعلانات ہورہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اب بھارت کے 20کروڑ مسلمانوں کے گرد شکنجہ پوری طرح سے کس دیا گیا ہے۔ اِس شکنجے کی انتہائی شکل مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کے مسمارکیے جانے کی صورت میں بھی سامنے آنا شروع ہوچکی ہے۔ اُتر پردیش میں مسلمانوں کی املاک پر وہاں کے وزیراعلیٰ ادتیہ ناتھ کا بلڈوزر عرصہ دراز سے چل رہا ہے۔ اِسی کی دیکھا دیکھی مدھیہ پردیش کے وزیرداخلہ نروتم مشرا کے حکم پر مسلمانوں کے کم از کم 22مکانات اور 16دکانیں مسمار کردی گئی ہیں۔ بہانہ یہ بنایا گیا تھا کہ اِن مکانات اور دکانوں سے ہندوئوں کے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا تھا۔ یہی سلسلہ دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں بھی دیکھنے میں آیا۔ یہاں بھی ایک جلوس پر پتھراؤ کے الزام میں مسجد سمیت مسلمانوں کی متعدد املاک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ تین دیگر ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی املاک مسمار کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ گویا مسلمانوں کو دیوار سے لگا دینے کے آخری مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ بظاہر اب اِس عمل کے جاری رہنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی۔اب اِس عمل میں ہرگزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی چلی جائے گی۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں انتہاپسندوں کے مقابل سیکولر آوازیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ بھارت میں تو مسلمان یو ں بھی اچھی سماجی حیثیت کے حامل نہیں تھے‘ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ حالات نے اُنہیں کس سطح تک پہنچا دیا ہوگا۔ باقی رہی بات اُمت مسلمہ کی‘ تو اس طرف سے کسی آواز کے بلند ہونے کی توقع خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس طرح سب مل کر فلسطینیوں کی بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں یا جس طرح روہنگیا مسلمانوں کی بربادی کا تماشا دیکھا‘ اُسی طرح بھارتی مسلمانوں کو بھی برباد ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ دوچار مذمتی بیانات جاری کردیے جائیں گے اور یوں سب اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوجائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں