"FBC" (space) message & send to 7575

سال کے سال ملا کرتی تھی پوشاک نئی

عید تنہا تھوڑی آتی ہے‘ یہ تو اپنے ساتھ جہاں ڈھیروں خوشیاں لاتی ہے وہیں اِس کے ساتھ ماضی کی یادوں کا ایک ہجوم بھی ذہن کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔ یادیں بھی ایسی کہ کبھی لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے تو کبھی آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں۔ کبھی کبھی شدت کے ساتھ یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ جب ہم حقیقی معنوں میں عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے تو تب ہمیں اِس بات کا اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ دن کتنے قیمتی ہیں‘ ایک دن آئے گا جب یہی یادیں ہماری زندگی کی سب سے قیمتی متاع بن جائیں گی۔ آج شاید وہ دن آچکا ہے۔ گویاعید کے آتے ہی جیسے یادوں کی بوچھاروں سے خوشی کے ساتھ ساتھ پلکیں بھیگنے بھی لگتی ہیں۔ نجانے کہاں چلے گئے وہ دن جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی عیدکی تیاریوں کا بھرپور آغاز ہوجاتا تھا۔ خواتین کو اِس بات کی فکر لاحق ہوجاتی کہ عید کے لیے سویّاں بنانی ہیں۔ ہم سویاں ''بنانے‘‘ کی بات کر رہے ہیں‘ پکانے کی نہیں۔ تب سویاں گھروں پر ہی تیار کی جاتی تھیں۔ اِس مقصد کے لیے لوہے کا ایک آلہ استعمال کیا جاتا تھا جسے ہمارے ہاں ''گھوڑی‘‘ کہا جاتا تھا۔ تب محلے میں یہ 'گھوڑی‘ ایک آدھ گھر میں ہی ہواکرتی تھی۔ جن گھروں میں یہ مشین موجود ہوتی تھی‘ رمضان کے آخری عشرے میں وہی گھرانے وی وی آئی پی ہوا کرتے تھے۔ عید کے قریب آتے ہی اِس مشین کی ایڈوانس بکنگ شروع ہوجاتی تھی کہ فلاں دن یہ فلاں گھر میں بھیجی جائے گی۔ پھر یوں ہوتا کہ جس بھی گھر میں یہ گھوڑی بھیجی جاتی‘پورے محلے کی خواتین بھی اُسی گھر میں پائی جاتی تھیں تاکہ ہاتھوں ہاتھ کام ختم کرکے یہ گھوڑی کسی اور کے استعمال میں لائی جا سکے۔ یہ موقع خواتین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ لگانے کا بھی ہوتا تھا۔ ایک طرف گپیں چلتی رہتیں اور دوسری طرف مشین سے سویاں برآمدہوتی رہتیں۔ ہم بچوں کا کام اِن سویوں کو چھت پر آڑھے انداز میں ڈالی ہوئی چارئیوں پر ڈالنا ہوتا تھا۔ کام چور مزاج کے بچے اکثر ایسے مواقع پر اِدھر اُدھر ہوجایا کرتے تھے۔
کیا کیا سنائیں اور کیا کیا بتائیں کہ وقت ہم سے کیا کچھ چھین کر لے گیا۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی بڑوں کو یہ فکر لاحق ہوجاتی تھی کہ بچوں کو کپڑے اور نئے جوتے دلانے کے لیے رقم کا انتظام کرنا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اب یہ فکر ہمیں لاحق ہوتی لیکن تب ہمیں یہ اندازہ کہاں تھا کہ ہمارے بڑے کیسے ہمیں نئے کپڑے اور جوتے دلاتے ہیں۔ ہمیں تو بس اِس بات سے غرض ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح کپڑوں کا نیا جوڑا اور نیا جوتا مل جائے اور اللہ اللہ خیرسلا۔ تب اکثر ہم اپنے والدین کو دبے دبے انداز میں اس موضوع پر باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا کرتے تھے مگر سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا باتیں کررہے ہیں۔ اب بخوبی علم ہو چکا ہے کہ وہ اِسی فکر میں غلطاں رہتے تھے کہ عید کے اخراجات کیسے پورے کرنے ہیں۔ ہم بچوں کو کپڑوں کے دوجوڑے مل جاتے تھے تو جیسے پاؤں ہی زمین پر نہیں پڑتے تھے۔ یہ وہی دن ہوا کرتے تھے جب عید کے نزدیک آتے ہی درزی حضرات بھی وی وی آئی پی قرار پاتے تھے۔ ہماری طرح کے مرنج مرنجاں مزاج کے حامل بچے تو پہلے ہی اپنے کپڑے درزی کو دے آتے تھے تاکہ عید سے پہلے پہلے سوٹ تیار ہوجائے۔ کچھ شوخ قسم کے احباب ایسے بھی ہوا کرتے تھے جو عید سے ایک آدھ روز پہلے منہ مانگے دام ادا کرکے اپنا سوٹ سلواتے تھے اور بعد میں جگہ جگہ فخریہ طور پر اپنے اِس کارنامے کا ذکر کرتے سنائی دیتے تھے۔ جہاں بھی بیٹھتے‘ فخریہ انداز میں بیان کرتے کہ میں نے آخری دن درزی کو سوٹ دیا تھا اور شام تک اُس نے تیار بھی کردیا تھا۔ آج جب ایسی باتیں یاد آتی ہیں تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرنے لگتی ہے۔ زاہد طالب، خادم حسین، عامر شہزاد جیسے دوستوں کی صورتیں آج بھی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہیں جو عید کے لیے اپنی تمام تیاریاں ہمیشہ عید سے صرف ایک روز پہلے ہی مکمل کرتے تھے۔ اِن میں سے خادم حسین تو اللہ کو پیارا ہوچکا ہے جو ہرعید پر بے طرح یاد آتا ہے۔
نہیں بھول سکتے وہ دن جب 29واں روزہ افطار کرتے ہی پورے محلے کے لوگ چھتوں پر دکھائی دینے لگتے تھے۔ سب کی نظریں آسمان پر چاند تلاش کررہی ہوتی تھیں۔ ایسے میں جو بھی سب سے پہلے اُفق پر چاند تلاش کرلیتا تو وہ جانِ محفل قرار پاتا تھا۔ جیسے ہی وہ اعلان کرتا کہ اُس نے چاند دیکھ لیا ہے تو سب اُس کے اردگرد جمع ہوجاتے تھے کہ ہمیں بتاؤ چاند کس طرف ہے‘ اب وہ ہاتھ کے اشارے سے بتاتا کہ بس جس طرف میں نے انگلی اُٹھائی ہوئی ہے، بالکل اُس کی سیدھ میں دیکھو‘ آپ کو بھی چاند دکھائی دینے لگے گا۔ پھر جیسے جیسے چاند اپنے درشن دیتا جاتا تو ویسے ویسے ہر چھت سے آوازیں بلند ہونے لگتیں کہ چاند نظرآگیا‘ چاند نظرآگیا۔ چاند دیکھے جانے کے بعد سب سے زیادہ انتظار اِس بات کا ہوتا تھا کہ کب محلے کی جامع مسجد کے امام صاحب چاند نظرآنے کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔یہ انتظار نوبت بجنے کے ساتھ ہی ختم ہوتا۔ پہلے زور زور سے نوبت بجائی جاتی اور اِس کے ساتھ ہی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہوجاتا کہ چاند نظرآگیا ہے اور صبح نمازِ عید اتنے بجے ادا کی جائے گی۔ نجانے کتنی بار یہ خواہش دل میں انگڑائیاں لے چکی ہے کہ بس ایک بار! ایک بار وہ وقت لوٹ آئے لیکن بھلا یہ خواہش کہاں پوری ہو سکتی ہے۔ وہ وقت کہاں واپس آسکتا ہے جب چاند کے نظر آتے ہی چاند رات کی سادہ سی سرگرمیاں شروع ہوجاتی تھیں۔ تب ساری ساری رات جاگنے کا رواج بالکل نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جلدی سو جائیں تاکہ صبح فجر کے ساتھ ہی عید کی نماز کی تیاریاں شروع کر دیں‘ ہاں! یہ الگ بات کہ صبح نئے کپڑے پہننے کی ''ایکسائٹمنٹ‘‘ سے ساری رات نیند ہی نہیں آتی تھی۔
جب بھی عید کا دن آتا ہے تومرحوم چچا نذیرکا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ اپنی زندگی کی آخری عید تک وہ عید کی نماز سے کافی پہلے ہی ہمارے ہاں آجایا کرتے تھے اور پھر سب کو جلدی جلدی تیار ہونے کی تلقین کرتے مبادا عید کی نماز ادا کرنے سے رہ جائیں۔ اپنی جوانی تک ہم سب اہلِ خانہ ہمیشہ میاں عارف صاحب کی اقتدامیں لاہور میں سلامت پورہ کی مرکزی عید گاہ میں نمازِ عید ادا کرتے رہے۔ آج اُس علاقے میں کم از کم ایک درجن سے زائد مقامات پر نمازِ عید کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپسی پر شدت سے عیدی ملنے کا انتظار ہوتا تھا۔ سب سے پہلے بڑے ہونے کی حیثیت سے میرے والد اور والدہ بچوں میں عیدی تقسیم کرتے‘ ان کے بعد چچا نذیر سمیت دیگر بڑے عیدی دیتے۔ عید ملنے کی دیر ہوتی تھی کہ سب بچے اپنی اپنی مصروفیت میں مشغول ہوجاتے تاکہ عیدی کو بروقت ٹھکانے لگایا جاسکے۔
اس وقت بڑی عمر کے افراد عید کے موقع پر فلم دیکھنے ضرور جایا کرتے تھے۔ بعد میں ہم نے بھی کسی حد تک عید کے موقع پر فلم دیکھنے کی روایت پر عمل کرنا شروع کردیا تھا۔ نوجوانی کے دور میں عید پر میٹھا پان کھانے کی عادت بھی رہی۔ تب عید کے دن سب سے زیادہ رش پان اور مٹھائی کی دکانوں پر ہی دیکھنے کو ملا کرتا تھا۔ یقین کیجئے کہ آج جب ہم اپنے بچوں کو اپنے بچپن کی عیدوں کے بارے میں بتاتے ہیں تو اکثر اُن کی طرف سے حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ میرا چھوٹا بیٹا روشان اکثر اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ پاپا! عید کے اصل رنگ تو آپ نے دیکھے ہیں۔ وہ سچ ہی کہتا ہے کیونکہ آج تو بچوں کے لیے ہردن عید اور ہررات شب برأت ہوتی ہے۔ جب جس چیز کا دل کیا‘ وہ خرید لی۔ وہ اُس وقت کے ہمارے جذبات سمجھ ہی نہیں سکتے جب :
سال کے سال ملا کرتی تھی پوشاک نئی
ہم جسے پہن کر اتراتے پھرا کرتے تھے
لیکن عید تو عیدہے‘ جو جب اور جس بھی رنگ میں آئے‘ بہرحال اپنے ساتھ بے شمار خوشیاں لے کر آتی ہے‘ تو جناب ہماری طرف سے آ پ سب کو ڈھیروں عید مبارک!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں