"FBC" (space) message & send to 7575

اُسی ڈگر پر

65 ہزار 610 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ ملک3 ہزار سالہ قدیم دستاویزی تاریخ کا حامل ہے۔ بھرپورثقافتی ورثے کے حامل اِس ملک کی جغرافیائی اہمیت بھی خاصی زیادہ ہے۔ یہ دنیا کی بہترین چائے پیدا کرتا ہے جبکہ یہاں کے گھنے جنگلات اِسے ایک منفرد حیثیت عطاکرتے ہیں۔ یہاں کی دار چینی پوری دنیا میں مشہور ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بھی یہ ایک نمایاں مقام کا حامل ہے۔ اِس ملک کے شہری پورے خطے میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں اور یہاں شرح تعلیم 92 فیصد سے بھی زائد ہے۔ برصغیر کی قدیم ترین لائبریری بھی اِسی ملک کے ایک شہر (گالے) میں واقع ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہمیں بھی یہاں جانے کا اتفاق ہوا تو جن خصوصیات نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا، اُن میں سے ایک خصوصیت یہاں کے لوگوں کا صفائی پسند ہونا تھی۔ خواہش تو یہی تھی کہ اِس ملک کے مختلف شہروں کو دیکھتے لیکن بوجوہ اِس کے دارالحکومت تک ہی محدودرہنا پڑا۔ یہاں جانا بلاشبہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ تب یہ معلوم نہیں تھا کہ اتنے پڑھے لکھے لوگوں کا یہ خوب صورت، چھوٹا سا ملک ایک روز ایسے شدید ترین بحران کا شکار ہوجائے گا کہ اِسے خود کو دیوالیہ قرار دینا پڑے گا لیکن اب ایسا ہوچکا ہے۔ اب یہاں بجلی ہے نہ پانی۔ دنیا سے خریداری کرنے کے لیے زرِمبادلہ ختم ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ملک کے اندر بے شمار ضروری اشیا کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ لوگوں کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ یہاں کے شہری ہرروز سڑکوں پر نکلتے ہیں اور پُرتشدد مظاہروں کے بعد شام کو اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اِن مظاہروں کے دوران سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومتی اہلکاروں کے پتلے جلائے جاتے ہیں لیکن حالات ہیں کہ سدھرنے کا نام نہیں لے رہے۔ اِس ملک کو دنیا ''سری لنکا‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
متنوع ثقافتوں اور بے شمار زبانوں کا گھر سمجھا جانے والا یہ چھوٹا سا ملک اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے لیکن پوری دنیا میں کوئی ایسا دکھائی نہیں دے رہا جو اِس کاہاتھ تھامنے کے لیے تیار ہو۔ اچھے خاصے ملک کو اِس سطح تک پہنچنے کے لیے سالوں کا وقت نہیں لگا بلکہ ایسا صرف چند ماہ کے اندر اندر ہوگیا۔ ملک کے برے سفر کا آغازرواں سال فروری میں ہوا۔ یہ وہ مہینہ تھا جب ایک جہازسری لنکا کے لیے 40ہزار ٹن فیول لے کر پہنچا تھا۔ جس کمپنی سے تیل خریداگیا تھا اُس سے یہ طے پایا تھا کہ جیسے ہی جہاز کولمبو کی بندرگاہ پر پہنچے گا تو تیل کی رقم آن لائن ادا کردی جائے گی۔ کمپنی نے سری لنکن حکام کی یہ درخواست منظور کرلی لیکن جب جہاز پورٹ پر پہنچا تو سری لنکا کے پاس کمپنی کو ادا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم موجود نہیں تھی۔ حکام کے طویل مذاکرات بھی کسی کام نہ آسکے اور جہاز وہاں سے تیل سمیت بھارت روانہ ہوگیا۔ یہ سری لنکا میں خوفناک بحران کی ابتدا تھی۔
تیل کی قلت کی وجہ سے فرنس آئل سے چلنے والے پاورپلانٹس بند ہوگئے جس کے نتیجے میں ملک میں بجلی کا بحران بھی سر اٹھانے لگا۔ یہ ذہن میں رکھیے گا کہ اِس ملک کی بجلی کی کل ضرورت محض تین ہزار میگاواٹ ہے جبکہ اِس کے پاس چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن اِس کے باوجود یہاں بجلی کا بدترین بحران پیدا ہوگیا۔ بجلی بند ہوئی تو یکے بعد دیگرے انڈسٹری بھی بند ہونے لگی جس کے نتیجے میں ملک کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں۔ اِس کی برآمدات کا 52 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل تھا جبکہ 31 فیصد برآمدات قیمتی پتھروںاور ربڑ وغیرہ پر مشمل تھیں۔ چائے کی ایکسپورٹ کا والیم 18 فیصد کے قریب تھا۔ برآمدات رکیں تو باہر سے ڈالر آنا بند ہوگئے جس کے ساتھ ہی بجلی کی بندش کے باعث ملک کے اندر بھی کاروبارِ زندگی بری طرح متاثر ہونے لگا۔ فیکٹریاں بند ہوئیں تو یکدم بے روزگاری میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ 12 اپریل کو سری لنکانے خود کو دیوالیہ قرار دے دیا۔ سری لنکا کی یہ حالت دیکھ کر اِس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ جب کوئی ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو اُس کے ساتھ کیا بیتتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ دیوالیہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا‘ بلکہ یہاں ایسے تجزیہ کاروں کی بھی کمی نہیں جو یہ مشورے دیتے ہیں کہ ہمیں بھاری قرضے اور ان کی قسطیں ادا کرنے کے بجائے خود کو دیوالیہ قرار دے دینا چاہیے۔ ایسا سوچنے والوں کو سری لنکا کے موجودہ حالات کا ضرور جائزہ لینا چاہیے تاکہ اُنہیں اندازہ ہوجائے کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کیا ہوتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک اچھا خاصا خوشحال اور پڑھا لکھا ملک اِس حالت کو کیونکر پہنچا اور اِس تناظر میں اپنے ملک کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سری لنکا کے حالات کی سب سے بڑی وجہ اِس پر بھاری قرضوں کا بوجھ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اِس ملک نے اتنے قرضے لیے جو بڑھتے بڑھتے جی ڈی پی کا 119 فیصد ہو گئے۔ اِن قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے گئے اور یوں ہوتے ہوتے سری لنکا ہرروز زوال کا شکار ہوتا رہا۔ موجودہ حالت کی متعدد دیگر وجوہات بھی ہیںلیکن سب سے بڑی وجہ اِس کا بے تحاشا قرضے لینا تھی جس کے باعث ملکی معیشت کے لیے سانس لینا بھی محال ہوگیا۔ دیکھا جائے تو ہمارے بیرونی قرضے بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ہم نے 2019-20ء میں 13.074 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا اور اِس سے 11.075 ارب ڈالرکا بیرونی قرضہ واپس کیا۔ اِسی طرح مالی سال برائے 2020-21ء میں 13.301 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا جس میں سے 8.388 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی واپسی کی مد میں ادا کیے گئے۔ اگر مجموعی طور پر قرضوں کے بوجھ کی بات کی جائے تو ہم پر اِس وقت 115 ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرض ہے۔ اتنے بھاری قرض کو اُتارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں صنعتیں چلیں‘ برآمدات میں اضافہ ہو اور ترقیاتی کام کیے جائیں لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا۔ اِس کے نتیجے میں ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ معمولاتِ زندگی کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ جب بجلی ہی نہیں ہوگی تو فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں کیسے نکلے گا۔ ہمارے اور سری لنکا کے حالات میں ایک اور قدرِمشترک بھی د کھائی دیتی ہے کہ جیسے ہمارے ہاں پی آئی اے، ریلویز اور سٹیل ملز جیسے متعدد سفید ہاتھی ہیں‘ سری لنکا میں بھی ایسے متعدد ادارے تھے جن پر حکومت ہرسال اربوں روپے خرچ کرتی تھی لیکن وہ ہمیشہ خسارے میں ہی رہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض احباب اِس بات سے اتفاق نہ کریں کہ ہم بتدریج سری لنکا جیسے حالات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کے نزدیک یہ باتیں ابھی قبل ازوقت ہوں لیکن سری لنکا میں بھی 22 فروری سے پہلے ایسی باتوں پر یقین کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ البتہ ایک واضح فرق یہ ہے کہ سری لنکا کے پاس اپنے حالات میں بہتری لانے کے لیے کچھ بھی نہیں لیکن ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ اب کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہمارے ہاں حالات کی خرابی اغیار کی سازشوں کانتیجہ ہے۔ یہ چورن بہت بک چکا۔ ہمیں اِس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہمارے ملک کے ابتر حالات ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں جن کے لیے صرف اور صرف ہم خود ذمہ دار ہیں۔ برے معاشی حالات کے باوجود سیاسی سطح پرہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے‘ یہ غیروں کی سازش ہے؟یہ ہم سے غیروں نے کہا کہ بے تحاشا قرضے لے کر اللے تللوں میں اُڑاتے رہیں؟ کیا ہم سے کسی نے فرمائش کی کہ ہم اپنے آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں؟ گزشتہ ایک ماہ سے ہرکوئی آئین‘ آئین کی بات کررہا ہے لیکن عملاً سب نے آئین کو فراموش کر رکھا ہے۔ سابق حکومت نے تورہے سہے پردے بھی چاک کرکے رکھ دیے ہیں۔ ملک کا کوئی ایک شعبہ بتا دیں جو افراتفری، رشوت اور اقربا پروری جیسی قباحتوں سے بچا ہو۔ لوگ بجلی کو ترس رہے ہیں۔ مہنگائی نے جینا دوبھر کررکھا ہے۔ قرضوں کا بوجھ استعداد سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔ آئی ایم ایف سمیت ہمارے دوست ممالک بھی ہم سے منہ پھیر چکے ہیں اور کہیں سے بہتری کی کوئی اُمید دکھائی نہیں دے رہی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں