"FBC" (space) message & send to 7575

18دنوں کی کہانی!

آج یومِ تکبیر منایاجارہا ہے۔ اس دن کی یاد منائی جا رہی ہے جب 28 مئی1998ء کو یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان ایٹمی قوت بن گیا تھا۔ اِس سے پہلے بھارت 11مئی کو تین ایٹمی دھماکے کرکے ہمیں آزمائش میں ڈال چکا تھا۔ محض دودِنوں کے بعد اُس نے مزید دوایٹمی دھماکے کرکے ہمارے لیے چیلنجز مزید بڑھا دیے تھے۔ بلاشبہ یہ ہمارے ملک کے لیے بہت کڑا وقت تھا کہ ہم اِن دھماکوں کو درگز رکریں یا طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لیے ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ یہ کل ہی کی بات لگتی ہے‘ پورے ملک میں اِس ایشو پر بحث چھڑی ہوئی تھی کہ ایٹمی دھماکے کرنے چاہئیں یا نہیں۔ بیشتر صورتوںمیں اکثریت کا یہی خیال تھا کہ ایٹمی دھماکے ضرور کرنے چاہئیں۔ اِس کی وجہ بہت سیدھی اور صاف تھی کہ بھارت روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے بھی ہم سے مضبوط پوزیشن میں تھا۔ اب اگر اُس کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہتے تو طاقت کا توازن بالکل ہی بگڑ جاتا۔ مسئلہ یہ تھا کہ امریکا سمیت بڑی عالمی طاقتیں نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان ایٹمی دھماکے کرے۔ تب کے امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم نواز شریف کو کم از کم پانچ فون کرکے درخواست کی کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ اِس مقصد کے لیے ہمیں قرضوں اور امداد کی پیش کش کرنے کے علاوہ ایٹمی چھتری فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ جاپان کی طرف سے بھی بار بار یہ اپیل کی گئی کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہیں کرنے چاہئیں۔ دراصل دنیا بھر میں جاپان ہی واحد ایسا ملک ہے جو 1945ء میں ایٹمی تباہ کاریوں کا سامنا کرچکا ہے۔ جاپان پر امریکا کے دو ایٹمی حملوں کے نتیجے میں ہی دنیاکو عملاً اِس بات سے آگاہی حاصل ہوئی کہ ایٹم بم کتنی خوفناک چیز ہے اور یہ کس حد تک تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ 11مئی کو بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کیے جانے کے بعد پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز تھیں تو یہ بات کسی طور غلط نہ ہو گی۔
صورت حال کچھ ایسی ہوچکی تھی کہ اگر دھماکے نہ کیے جاتے تو اندرونی دباؤ حکومت کو لے ڈوبتا۔ اگر دھماکے کر دیے جاتے تو پھر عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہم تو یوں بھی بیشتر صورتوں میں دوسروں کے ہی مرہون منت تھے‘ ایسے میں عالمی پابندیاں ہمارے لیے بے شمار مشکلات پیدا کر سکتی تھیں۔ تب کی بہت سی سرگرمیاں آج بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہیں کہ اس وقت پورے ملک کی کیاصورتحال تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ جب بھارت نے دھماکے کیے تھے تو تب وزیراعظم نواز شریف کسی غیرملکی دورے پر تھے۔ وہاں سے فوری واپسی کے بعد ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا جس میں ملک کی سیاسی قیادت کے علاوہ مسلح افواج کے چیفس اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم نے بھی شرکت کی تھی۔ ایک طرف اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں صورتحال کا جائزہ لیا جارہا تھا تو دوسری طرف جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی طرف سے دھماکوں کے حق میں سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ تب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) نے واضح طور پر وزیراعظم نواز شریف سے کہا تھا کہ اگر دھماکے نہ کیے گئے تو آپ کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔ خوب یاد ہے کہ تب مجید نظامی (مرحوم) کا ایک بیان بڑا مشہور ہوا تھا کہ نواز شریف ایٹمی دھماکا کریں‘ ورنہ قوم اُن کا دھماکا کر دے گی۔ اِس بیان نے عوام میں کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔ غرض حکومت پر دھماکوں کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ پہلی مرتبہ 16 مئی 1998ء کو حکومت کی جانب سے یہ اعتراف کیا گیا کہ اُن پر ہرگزرتے دن کے ساتھ ایٹمی دھماکے کرنے کا دباؤبڑھ رہا ہے۔ شومئی قسمت‘ ہمیشہ کی طرح اُن تناؤ بھرے دنوں میں بھی حکومت اور اپوزیشن کی توپیں ایک دوسرے پر لفظی گولے داغ رہی تھیں؛ البتہ اِن حالات میں جب وزیرخارجہ گوہر ایوب نے اپوزیشن لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو سے حمایت طلب کی تو اُنہوں نے فوراًغیرمشروط طور پر حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا۔
وقت تیزی سے گزرتا چلا جارہا تھا لیکن اِس دوران کافی حد تک یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اِس بات کا تذکرہ کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ایٹمی سائنسدانوں کی طرف سے حکومت کو واضح طور پر بتایا جاچکا تھا کہ اُن کی تیاری ہرلحاظ سے مکمل ہے۔ اِس کے لیے بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑوں میں طویل عرصے سے کام جاری تھا‘ جہاں تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد ایٹمی تجربات کے لیے بنائی جانے والی سرنگ کو بند کردیا گیا تھا۔ اب حکومت کی طرف سے صرف گرین سگنل دیا جانا تھا جس کے بعد ایٹمی دھماکا کرنے کیلئے تیاری چند دنوں کی بات تھی۔ اِس سے بہت پہلے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں پاکستان اپنے ایٹم بم کے کولڈ ٹیسٹ کرچکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ہم کمپیوٹر پر اپنے بم کے تجربات کرچکے ہیں‘ ہمارے بموں کے وائبریشن ٹیسٹ بھی مکمل ہوچکے ہیں اور دشمن یہ بات بخوبی جانتا ہے۔ بلاشبہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ہمیشہ ہماری تاریخ میںسنہرے حروف میں لکھا جاتا رہے گا۔ یہ الگ بات کہ ہم اپنے قومی ہیرو کی اُس وقت بھی قدر نہ کرسکے۔ جس کی وجہ سے ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے جارہے تھے‘ ایٹمی دھماکے کے لیے کی جانے والی تیاریوں سے اسے یکسر الگ کردیا گیا تھا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تب اِس ہیرو کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی۔ اِس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر اُن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا‘ کم سے کم الفاظ میں بھی اُسے انتہائی تکلیف دہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ جب تک زندہ رہے‘ ہمیشہ حصار ہی میں رہے۔ اُن کی نقل و حرکت محدود کردی گئی تھی اور یہ تلخ باب بھی ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہمارے ایٹمی ہیرو پر ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو غیرقانونی طور پر منتقل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
قصہ مختصر‘ بالآخر18مئی 1998ء کا دن آن پہنچا جب اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد کو دھماکوں کے لیے گرین سگنل دے دیا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ گرین سگنل دئیے جانے سے پہلے تمام سیاسی و عسکری قیادت دھماکوں کے حق میں تھی بلکہ متعدد کی طرف سے دھماکے نہ کیے جانے کے مشورے بھی دیے گئے تھے۔ تب کے وزیرخارجہ گوہر ایوب نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا تھا کہ چودھری نثار علی خان، سیدہ عابدہ حسین، مشاہدحسین سید اور سرتاج عزیز کا مشورہ تھا کہ دھماکے نہ کیے جائیں۔ کچھ دیگر حکام بھی دھماکے نہ کرنے کے حق میں تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ دھماکوں کی مخالفت کرنے والے ملک کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتے تھے بلکہ ہرکوئی اپنی فہم و فراست کے مطابق ملکی مفاد میں اپنے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کررہا تھا۔ پھر جب حتمی طور پر یہ فیصلہ ہوگیا کہ اب کچھ بھی ہوجائے‘ ہرصورت میں ایٹمی دھماکے کیے جائیں گے تو سب ایک پیج پردکھائی دیے۔ تمام اختلافِ رائے ختم ہوگیا۔ چاغی کے پہاڑوں میں تیاریاں تو پہلے ہی سے مکمل تھیں۔ گرین سگنل ملنے کے فوراً بعد تیاریوں کو حتمی شکل دی گئی۔ پھر 28مئی کا دن آن پہنچا جس روز بٹن دبایا جانا تھا۔ اٹامک انرجی کمیشن کے ایک جونیئر اہلکار سے دعا کرائی گئی۔ رقت آمیز دعا میں اللہ تعالی سے کامیابی کی دعا کی گئی اور پھر بٹن دبا دیا گیا۔ بٹن دبانے کے ٹھیک گیارہ سیکنڈ کے بعد زور دار دھماکے ہوئے۔ کالے رنگ کا گرینائیڈ پہاڑ پہلے گرے اور پھر آف وائٹ رنگ میں تبدیل ہو گیا۔ فضا ''اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ دشمن کوبھرپور جواب مل چکا تھا۔ کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ آج ایک مرتبہ پھر اُس دن کی یاد منائی جارہی ہے جب ایٹمی طاقت کے حصول نے ملک کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا تھا۔ اِس کے ساتھ ساتھ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو‘ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کرنے والے نواز شریف کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں