"FBC" (space) message & send to 7575

چولستان کا آنکھوں دیکھا حال

12 سو مربع کلومیٹر رقبے پر محیط صحرائے چولستان بہاولپور سے لگ بھگ 30 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اِس کے بارے میں سن تو بہت کچھ رکھا تھا لیکن جانے کا اتفاق چند روز پہلے ہی ہوا۔ کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اتنی شدید گرمی میں یہاں جانے کا تجربہ کیسا رہے گا۔ ہمارے میزبانوں کی طرف سے ہمیں ذہنی طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اِس موسم میں اِس سفر کو ایڈونچر ہی سمجھئے گا۔ بعد میں پیش آنے والے حالات نے اِس بات کو سچ ثابت کر دیا لیکن گرمی کے علاوہ جو کچھ وہاں دیکھنے کو ملا‘ وہ سب انتہائی قابلِ افسوس تھا۔ صحرا میں داخل ہوتے ہی ہر طرف سے گرم ہوا کے ساتھ اُڑتی ہوئی ریت کے تھپیڑوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی میں سفر کے باوجود صحرا میں داخلے سے پہلے ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے چل کر کیا موسمی حالات پیش آنے والے ہیں۔ اس روز چولستان میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا تھا۔ ہر طرف اُڑتی ہوئی ریت تک تو بات سمجھ میں آ رہی تھی لیکن جب جگہ جگہ مرے ہوئے مویشی دکھائی دینے لگے تو بات سمجھ سے باہر ہو گئی۔ یہاں باقاعدہ راستے دکھائی نہیں دے رہے تھے‘ ہماری گاڑی پہلے سے ریت پر بنی ہوئی لکیروں پر دوڑ رہی تھی۔ اِن راستوں پر بڑی تعداد میں مرے ہوئے مویشی دکھائی دیتے رہے۔ یہاں آنے سے پہلے تھوڑا بہت سن رکھا تھا کہ چولستان کے صحرا میں پانی کی شدید کمی واقع ہو چکی ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اتنا خوفناک اور گمبھیر ہے۔ ایک موقع پر گاڑی سے باہر نکل کر تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو گرمی کی بے انتہا شدت نے دوبارہ گاڑی کے اندر گھسنے پر مجبور کر دیا۔ خدا کی پناہ! کہاں ہم لاہور کی گرمی سے پناہ مانگتے رہتے ہیں لیکن چولستان کی گرمی کے مقابلے میں وہ نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتی ہے۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اپنے شہر میں جب گرمی محسوس ہوتی ہے تو ایئرکنڈیشنڈکی سہولت سے فائدہ اٹھانا ممکن ہوتا ہے۔ ہر وقت ٹھنڈا ٹھار شیریں پانی دستیاب رہتا ہے لیکن یہاں تو ہر طرف پیاس ہی پیاس دکھائی دے رہی تھی۔
یہاں کی صورت حال دیکھنے کے بعد ذہن میں بار بار یہ بات آ رہی تھی کہ شاید یہ خطہ کسی دوسرے ملک میں واقع ہے۔ اتنی تشویش ناک صورت حال کے باوجود قومی ذرائع ابلاغ میں اِس علاقے کی صورت حال کا ذکر کم ہی سننے‘ پڑھنے یا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنی آنکھوں سے یہاں کے حالات دیکھے تو خود پر شرم آنے لگی کہ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی اور ساتھ ڈبوں میں بند بہترین کھانا‘ جس کے ساتھ منرل واٹر کی بوتلیں بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ایک طرف یہ سب کچھ اور دوسری طرف علاقے کی حالتِ زار دیکھ کر اُن پر بھی لعن طعن کرنے کو دل چاہ رہا تھا جن کی دلچسپی صرف حکومت حاصل کرنے یا پھر اِسے بچانے ہی پر مرکوز رہتی ہے۔ 90 شاہراہِ قائداعظم کی ٹھنڈی ٹھار عمارت میں بیٹھ کر اِس علاقے کے بارے میں ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں جن پر کبھی عمل درآمد ہوتا دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ایسا ہی ایک فیصلہ پندرہ‘ سولہ سال پہلے بھی ہوا تھا کہ پانی کی پائپ لائن سے چولستان کے مختلف علاقوں میں پانی پہنچایا جائے گا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اِس مقصد کے لیے ابتدا میں کچھ کام ہوا بھی لیکن پھر وہی ہوا جو ایسے پسماندہ علاقوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ منصوبہ کاغذوں میں کہیں دب گیا۔ وجہ وہی تھی کہ منصوبے کے لیے فنڈز میسر نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چولستان میں بسنے والے دو‘ ڈھائی لاکھ افراد کے خواب ملیا میٹ ہو گئے۔ پہلے بلند بانگ حکومتی اعلانات سے ان میں یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ پانی ملنے سے ٹوبوں پر سے اُن کا انحصار بڑی حد تک ختم ہو جائے گا۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی صاف پانی آسانی سے میسر آ سکے گا۔ منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں وہ کنووں کا کھارا پانی پینے سے بچ جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہاں کنووں میں ایسا پانی ہوتا ہے جسے مویشیوں کو پلانا بھی نقصان دہ ہوتا ہے لیکن مقامی آبادی کو بھی مجبوراً یہ پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ 75 سالوں میں ہم پنجاب کے اِس خطے میں پانی تک نہیں فراہم کر سکے۔ آج بھی یہاں کے لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں۔ ہر اُس جگہ کی طرف اُن کا سفر جاری رہتا ہے جہاں سے اُن کو پانی مل سکتا ہو۔
یہ ہے ہمارے ملک میں ترقی کے دعووں کا ایک رخ کہ پنجاب کے اِس خطے کے باسی آج بھی منہ کھول کر آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ اُسی چولستان کی بات ہو رہی ہے جہاں 12 جون 2018ء کو تین بچیاں پانی کی تلاش میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ اِس واقعے پر تب بہت شور بھی مچا لیکن سیاست کے جھمیلوں سے جان چھوٹے تو کمزوروں کی طرف بھی کچھ دھیان دیا جائے۔ یوں بھی مرنے والی بچیاں غریب ترین گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں‘ لہٰذا اُن کی جان کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی تھی؛ چنانچہ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد یہ معاملہ ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ یہاں بسنے والوں کا انحصار آج بھی اِس بات پر ہوتا ہے کہ وقت پر بارشیں ہو جائیں تاکہ اُن کے ٹوبے بھر جائیں۔ یہ ٹوبے دراصل اُن تالابوں کو کہا جاتا ہے جو ہرگاؤں کے اردگرد بنے ہوئے ہیں۔ جب بارشیں برسنے سے یہ ٹوبے بھر جاتے ہیں‘ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ دن یہاں کے مکینوں کے لیے عید کے دن ہوتے ہیں۔ دورانِ سفر ایک جھونپڑی میں جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں تالا لگا ایک صندوق دکھائی دیا جبکہ باقی سب کچھ ویسے کا ویسے ہی پڑا تھا۔ جب پوچھا گیا کہ آخر اِس میں ایسی کیا قیمتی چیز ہے کہ جسے تالا لگا کر رکھا گیا ہے تو جواب سن کر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ بتایا گیا کہ اِس میں پانی سے بھرا ہوا ایک ڈول رکھا ہے اور تالا اِس لیے لگایا گیا ہے کہ کہیں بچے اِسے ضائع نہ کر دیں۔ اب ذرا شہروں میں بسنے والوں کے طرزِ عمل کا جائزہ لیں‘ جو پانی استعمال کرتے ہوئے کئی صورتوں میں نل کو بند کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ دراصل اُنہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ اس کی قدر و قیمت کیا ہے۔ یوں بھی ہمیں پسماندہ علاقوں کے مسائل سے کیا لینا دینا؟ ہمارے لیے تو سیاست ہی سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ جب بھی اور جہاں بھی دیکھا جائے‘ وہی گھسے پٹے بیانات کی گردان سننے کو ملتی ہے جنہیں سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ اِن حالات میں چولستان واسیوں کی آواز بھلا کون سنے گا۔
چولستان کے مشرق میں بھارتی ریاست راجستھان ہے جس کا صحرائی رقبہ چولستان سے بھی بڑا ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ آج کے دور میں بھی چولستان واسی بارشوں کے انتظار میں آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں مگر دوسری طرف کے حالات کافی مختلف ہیں۔ بھارتی حکومت نے راجستھان کے لیے ''جل جیون‘‘ نام سے ایک منصوبہ شروع کرر کھا ہے جس کے تحت 2024ء تک ہر گھر میں نل کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ راجستھان کو نہری پانی کی فراہمی کے لیے بھارت سب سے طویل ''اندرا گاندھی نہر‘‘ بھی تعمیر کر چکا ہے۔ 640 کلومیٹر طویل اِس نہر نے علاقے کی قسمت تبدیل کرکے رکھ دی ہے لیکن سرحد کے اِس پار کسی کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ ملک کے پسماندہ علاقوں کے بارے میں بھی سوچا جائے۔ عثمان بزدار صاحب پنجاب کے جنوبی علاقوں کی ترقی کے دعوے تو بہت کرتے رہے لیکن چولستان کی سرزمین تمام دعووں کا منہ چڑاتی دکھائی دے رہی تھی۔
ایک دن کے اِس ٹور نے ساری حقیقت کھول کر رکھ دی تھی۔ اس وقت ملکی میڈیا میں چولستان کی قحط سالی کا کچھ چرچا ہو رہا ہے مگر کچھ وقت کے بعد مون سون کا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ بارشوں سے چولستان کے ٹوبے بھر جائیں گے اوریہ معاملہ پھر آئندہ سال تک کے لیے مؤخر ہو جائے گا۔ جہاں یہ حالات دیکھ کر شدید دکھ ہوا‘ وہیں ان لوگوں کا بھی خیال آیا جن کو اللہ تعالیٰ نے پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ کیا انہیں جوابدہی کا کوئی خوف نہیں؟ جو کچھ چولستان میں دیکھا، وہ مختصراً بیان کر دیا لیکن خوب علم ہے کہ جب سات دہائیوں میں بدقسمت چولستان واسیوں کی قسمت نہیں بدل سکی تو اس ایک تحریر سے کیا فرق پڑ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں