"FBC" (space) message & send to 7575

حالات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے

1887ء میں فیروزوالا سے پیسہ اخبار کا اجرا کیا گیا۔ ہفتہ وار شائع ہونے والا یہ اخبار آٹھ صفحات پر مشتمل ہوا کرتا تھا‘اور ایک پیسے میں فروخت ہوتا تھا۔ 20ویں صدی کے آغاز پر اِس کا مرکزی دفتر لاہور منتقل کردیا گیا‘ بعد میں جہاں سے یہ روزانہ کی بنیاد پر شائع ہونے لگا۔ جب مولانا ظفر علی خان نے لاہور سے زمیندار اخبار جاری کیا تو اس کے ستارے گردش میں آ گئے۔ زمیندار کی مقبولیت نے اِسے کافی نقصان پہنچایا؛ تاہم کسی نہ کسی طور یہ قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک شائع ہوتا رہا۔ 24 اپریل 1948ء کے شمارے میں پیسہ اخبار میں ملکی معیشت کے حوالے سے ایک کالم شائع ہوا تھا‘ آپ بھی ملاحظہ کیجئے :
'' کسی بھی ملک کے خوشحال مستقبل کا اندازہ اُس کی تجارت، برآمد اور درآمد کے توازن ہی سے لگایا جاسکتا ہے، پاکستان کے دشمنوں کا پروپیگنڈا یہ تھا کہ یہ ملک مالی لحا ظ سے دیوالیہ ہوگااور یہ پروپیگنڈا کئی ماہ تک کافی زوروشور سے جاری رہا۔ امرواقع یہ ہے کہ اپنے قیام کے بعد سے 31 دسمبر 1947ء تک پاکستان کی تجارت، درآمد اور برآمد کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار انتہائی خوش کن ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کی مالی حالت بھارت سے کہیں بہتر ہے۔ اِس عرصے کے دوران ملک سے 22 کروڑ روپے کا مال باہر گیا، 15 کروڑروپے کا مال کراچی اور اورسات کروڑ کا مال چٹاگانگ کی بندرگاہ سے برآمد کیا گیا۔ برآمدات کے مقابلے میں15 کروڑ روپے کا مال درآمد کیا گیا اوریوں توازن پاکستان کے حق میں رہا۔ اب معمولی عقل والا انسان بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل کتنا روشن ہے‘‘ ۔ تحریر کے آخر میںلکھا تھا ''اگر حالات بہتر رہے تو ان شاء اللہ پاکستان کی کرنسی کا شمار دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں ہوگا، یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان مالی طور پر بہت مضبوط ہوگا‘‘۔
ذہن میں رکھیے گا کہ یہ وہ دور تھا جب ملک انتہائی مشکلات کا شکار تھا۔ قیامِ پاکستان کو ابھی چند ماہ ہوئے تھے، خزانہ بالکل خالی تھا اور ملک میں سیاسی طور پر بھی افراتفری پھیلی ہوئی تھی لیکن اِس کے باوجود تجارتی توازن ملک کے حق میں تھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ قائد اعظم کی رحلت اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد حصولِ اقتدار کے لیے میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگیا۔ اِس عرصے میں ایک ایسا گورنرجنرل بھی ملک پر مسلط رہا جو ٹھیک طریقے سے بول بھی نہیں سکتاتھا۔ اِن سیاسی حالات کے اثرات ملکی معیشت پر بھی پڑنے لگے۔ ہوتے ہوتے 1958ء میں ملک میں پہلا مارشل لا نافذکردیا گیا اور ایوب خان ملک کے سیاہ و سفید کے حکمران بن گئے۔ معاشی ترقی کے حوالے سے اُن کے دورکو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اُن کے دور میں تیزی سے اور بڑے پیمانے پر اثاثے بنے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ترقی کے اِس ماڈل کے باعث افراد اور علاقوں کے مابین معاشی ناہمواری پیدا ہوئی۔ اِسی تناظر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو براہ راست صدر ایوب خان کی پالیسیوں سے جوڑا جاتا ہے۔ اِس حوالے سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اگر ایوب خان کے دس سالہ دورِ اقتدار میں بڑھنے والے افراطِ زر کو منہا کرکے دیکھا جائے تو مزدور کی و ہی اُجرت بنتی ہے جو اس ''ترقیاتی عشرے‘‘ سے پہلے تھی۔ اکثر معاشی ماہرین کا یہ اعتراض بھی ہے کہ اُس دور میں چند خاندانوں کو مضبو ط کیا گیا اور دولت کے معاشرے میں پھیلائو کو روکا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب ہمیں غیرملکی قرضوں کی عادت پڑی تھی۔ ملک دو لخت ہونے کے بعد‘ جب ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدارا ٓئے تو اُنہوں نے بڑی بڑی صنعتوں کو قومیا لیا۔ حسبِ روایت حکومت نے اپنے اِس اقدام کو عوام اور ملک دوست قرار دیا لیکن اِس کے جو منفی نتائج نکلے‘ وہ سب کے سامنے تھے۔ کاروباری طبقے نے حکومت کے اِس اقدام کی شدید مخالفت کی اور یوں ایک طرف جہاں حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہوئیں‘ وہیں دوسری جانب عوام کی مشکلات بھی بڑھ گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو اُن کی زیادہ توجہ اِسی پر رہی کہ کسی طرح اُن کا اقتدار قائم رہے۔ اِسی چکر میں ملک کو غیر ملکی جنگ میں جھونک کر پورے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کا ستیاناس کردیا گیا۔ اُنہی کے دور میں دہشت گردی کے عفریت نے ایسے قدم جمائے کہ آج بھی اِنہیں اُکھاڑنامشکل ہورہا ہے۔ اِن حالات میں ملکی معیشت نے کیا ترقی کرنا تھی‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں افغان جنگ کے باعث دنیا بھرسے ڈالرز بارش کی طرح پاکستان میں برس رہے تھے؛ تاہم اِن ڈالروں کا بیشتر حصہ اُن لوگوں ہی کے اکاؤنٹس میں گیا جو اس جنگ کو پاکستان میں امپورٹ کرنے کا سبب بنے تھے۔ ضیاء الحق کے بعد سیاسی میوزیکل چیئر کا ایسا کھیل شروع ہوا کہ محض ایک عشرے میں (1989-99ء) نو (چار عبوری، پانچ منتخب) وزیراعظم آئے اور گئے۔ بعدمیں آنے والے دیگر حکمرانوں کی بھی اپنی اپنی ترجیحات رہیں جس کے نتیجے میں ملکی معیشت میں گراوٹ کا عمل مستقل بنیادوں پر جاری رہا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں پالیسیوں میں استحکام نہیں ہوتا‘ وہاں ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ساتھ ہمیشہ سے یہی مسئلہ درپیش رہا ہے۔ ہوتے ہوتے آج ہم گویا دیوالیہ پن کی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج کے حکمران بھی معاشی مشکلات کے لیے جانے والوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حالیہ اتحادی حکومت مختصر سے عرصے میں پٹرول‘ ڈیزل کے نرخوں میں 60روپے فی لٹر اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میںآٹھ روپے کا اضافہ کر چکی ہے جبکہ گیس کی قیمت میں بھی 45 فیصد تک اضافہ کیا جاچکا ہے۔ اِس کے ساتھ‘ ہمیشہ کی طرح وہی گھسے پٹے بیانات دیے جارہے ہیں کہ مشکل فیصلے وقت کا تقاضا ہیں اور یہ کہ مشکل فیصلے کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ جانے والوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی جس کے باعث مسائل میں اضافہ ہوا جبکہ جانے والے‘ موجودہ والوں کو موردِالزام ٹھہرا رہے ہیں‘ اُن کے نزدیک‘ انہوں نے آئی ایم ایف کے سامنے سٹینڈ لیا ہوا تھا‘ مگر موجودہ حکومت ہر معاملے میں سرِ تسلیم خم کرتی جا رہی ہے۔ وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں‘ قصور چاہے کسی کا بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سنگین معاشی مشکلات میں گھر چکے ہیں۔ کوئی ہمارا بازو تھامنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ابتر حالات کا تمام نزلہ عوام پر گر رہا ہے۔
یہ اُس ملک کا حال ہے جو اپنے قیام کے وقت شدید مشکلات کے باوجود تجارتی توازن اپنے حق میں رکھے ہوئے تھا۔ یہ اُس ملک کا حال ہے جسے دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اُس ملک کا حال ہے جو انتہائی اہم جغرافیائی پوزیشن رکھتا ہے۔ یہ اُس ملک کا حال ہے جس کی زمین میں معدنیات کے کثیر خزانے چھپے ہوئے ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ ہم کشکول اُٹھائے دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں۔ قصہ مختصر‘ ہم نے اپنے ملک کو اُس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ جو کسی ایک شعبے کی ترقی کو بھی بطورِ مثال پیش نہیں کرسکتا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ہم اخلاقی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے نیچے سے نیچے ہی جارہے ہیں۔ یہ سب ہمارااپنا کیا دھرا ہے‘ جس کے لیے ہم ہمیشہ دوسروں پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے جانے انجانے دشمنوں کا خوف پیدا کرنا ایک پرانا مگر آزمودہ حربہ ہے اور اب یہی کچھ ہورہا ہے۔ امرواقع یہ ہے کہ آج بھی ہم اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں نہ خود کو اپنی ذمہ داریوں تک محدود رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بس یہ یاد رکھیے کہ ہمیشہ سے ایسی صورتحال نہیں تھی۔ ہمارے پاسپورٹ کی عزت تھی اور روپے کا شمار بھی مضبوط کرنسیوں میں ہوتا تھا۔ پاکستان جو تقسیم کے ابتدائی سالوں میں بھارت کے مقابلے میں اقتصادی طور پر خاصا مضبوط تھا‘ آج معاشی اعتبار سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں