"FBC" (space) message & send to 7575

بھارتی مسلمانوں کو تنہا نہ چھوڑیں!

طویل المیعاد حکمت عملی کے تحت بھارت بتدریج خلیجی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کرنے میں کامیابی حاصل کررہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سعودی عرب کے ساتھ اِس کے تعلقات میں کافی وسعت آئی ہے۔ تقریباً تین سال پہلے جب سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان بھارت گئے تھے تو بھارتی وزیراعظم نے پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے خود ایئرپورٹ پر اُن کا استقبال کیا تھا۔ امسال ماہِ فروری میں جب تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارتی آرمی چیف سعودی عرب کے دورے پر گئے تو اِسے ایک تاریخی دورہ قرار دیا گیا۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں جیسے جیسے بہتری آرہی ہے‘ ویسے ویسے سعودی عرب میں بھارتی باشندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ بھی بھارت اچھے تعلقات استوار کرنے میں کامیابی حاصل کررہا ہے۔ یہ اِسی حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اِس وقت ڈیڑھ سے تین کروڑ بھارتی کام کاج کے سلسلے میں خلیجی ممالک میں مقیم ہیں‘ اِن میں سے بے شمار اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ بھارتی خلیجی ممالک سے سالانہ 40 ارب ڈالرکی ترسیلاتِ زر بھارت بھجواتے ہیں۔ اِن ڈالروں سے جہاں ایک طرف بھارتی حکومت کو فائدہ ہوتا ہے‘ وہیںساڑھے تین‘ چار کروڑ بھارتی خاندانوں کی کفالت بھی ہوتی ہے۔ بھارت اور خلیجی ممالک کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم 88 سے 90 ارب ڈالر تک ہے۔ صرف اتناہی نہیں بلکہ بھارت عراق سے ہرسال تیل کی بھاری مقدار خریدتا ہے‘ سعودی عرب بھی بھارت کو تیل فراہم کرنے والا ایک بڑ املک ہے۔ بھارت میں گیس کا کم از کم چالیس فیصد قطر سے آتا ہے۔ یہی وہ چنیدہ عوامل رہے ہیں جن کے باعث توہین کے معاملے میں خلیجی ممالک کا ردعمل سامنے آنے کے بعد بھارت پچھلے قدموں پر جانے کے لیے مجبور ہوا ہے۔
بھارت میں توہین کا حالیہ معاملہ 26مئی کو پیش آیا تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپورشرما نے ایک ٹی وی پروگرام میں گستاخانہ کلمات کہے۔ ایک دوسرے رہنما نوین جندال نے اِس پر ایک ٹویٹ کر دیا۔ اِس پر بھارتی مسلمانوں نے بھرپوراحتجاج کیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ قصور واروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے‘ ایک ٹویٹ کے ذریعے دنیا کی توجہ اس واقعے کی جانب مبذول کرانے والے مسلمان صحافی محمد زبیر پر مقدمہ درج کرکے اُنہیں گرفتار کرلیاگیا۔ چند دن گزرنے کے بعد جب ملائیشیا، سعودی عرب اور ترکی سمیت خلیجی ممالک نے اپنا رد عمل ظاہر کرنا شروع کیا تو بی جے پی بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہوئی اور اپنے دونوں رہنماؤں کو پارٹی عہدوں سے برطرف کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ یہ ان کا انفرادی فعل تھا جس پر اُن کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے۔ اگرچہ ابھی تک بھارتی حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر کوئی معافی نہیں مانگی گئی لیکن وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر خلیجی ممالک مطمئن نہ ہوسکے تو بھارت کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ صورت حال اِس بات کی عکاسی بھی کررہی ہے کہ آج کے دور میں معاشی مفادات کس قدر اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارتی حکومت کو معاشی طور پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو کیا وہ جھکنے پر مجبور ہوتی؟ بادی النظر میں اِس سوال کا جواب نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں‘ جب خود بھارتی حکومت کسی حد تک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہ اِسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منافرت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب کھلے عام بیس‘ پچیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ انتہا پسندوں کی طرف سے گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا عام بات ہے۔ مسلمان خواتین صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم بھی جاری رہتی ہے۔
یہ امر اب کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ بھارت میں اعلیٰ حکومتی و ریاستی سطح پر بھی مسلم مخالف رویوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اب سرعام مسلمانوں کی بہو‘ بیٹیوں کے ریپ کی باتیں کی جا رہی ہیں مگر اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھارتی حکومت حالات سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اِن حالات میں بھی اگر بھارتی حکومت پچھلے قدموں پر جانے پر مجبور ہوئی ہے تو اِس کی واحد وجہ معاشی مفادات ہی ہیں۔ بھارتی حکومت کے معذرت خواہانہ رویے پر اب وہاں کے سخت گیر ہندوؤں کی طرف سے شدید مخالفانہ ردعمل سامنے آرہا ہے۔ اِن کی طرف سے قرار دیا جا رہا ہے کہ بھارتی حکومت نے جھک کر ملک کی سبکی کرا دی ہے۔ بھارت کی کچھ ریاستوںمیں انتہا پسندوں نے مظاہرے بھی کیے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن توہین رسالت کے معاملے پر مسلم دنیا کا یکجا ہو کر ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی اُسے کسی صورت بھی برداشت نہیں۔ غیرمسلم شاید اس جذباتی تعلق کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو مسلمان اپنے دین بالخصوص پیغمبرِ اسلامﷺ سے رکھتے ہیں۔ ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے نبیﷺ کی شان پر مرمٹنے کے لیے وہ ایک لحظہ کی تاخیر اور جھجک بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
مسلم دنیا کا رد عمل یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اگر تمام مسلم ممالک کسی معاملے پر متفقہ مؤقف اختیارکرلیں تو اِسے نظرانداز کرنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں۔ یہ اِسی رد عمل کا نتیجہ ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی نوعیت اختیار کرگیا جس پر بھارت کو چند اقدامات کرنا پڑے۔ بلاشبہ توہین جیسے معاملے پر مسلم اُمہ کو ایسے ہی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ ضروری ہے کہ اتحاد کی یہ طاقت بھارتی مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بھی دکھائی دے۔ گستاخی کے معاملے پر تو بھارتی حکومت کسی قدر پچھلے قدموں پر دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کھسیانی بلی کی طرح اُس کا تمام غصہ اپنے ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی بھارتی مسلمانوں پر نکل رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کرنے پر اب تک تقریباً چھ ہزار مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج ہوچکے ہیں جن میں گینگسٹرز ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ تین سو سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ ہنگامہ آرائی میں ملوث ہونے کے الزام میں متعدد مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا جاچکا ہے۔ جن چھ ہزار افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں‘ خدشہ ہے کہ اُن میں سے بھی بے شمار افراد کے گھروں کو مسمار کردیا جائے گا۔ بھارتی انتہا پسندوں کی طرف سے گھروں کو مسمار کیے جانے کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ عمل کی بھرپور حمایت کی جارہی ہے۔ اُترپردیش کے انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے واضح طور پر یہ احکامات جاری کیے ہیں کہ ''دنگائیوں‘‘ کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ 35 سیکنڈ کی ایک وڈیوبھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گرفتار کیے گئے 25مسلم نوجوانوں کو بھارتی پولیس انتہائی بے دردی سے پیٹ رہی ہے۔ نوجوانوں کی چیخ و پکار دل دہلائے دیتی ہے۔ پولیس نے یہ وڈیو بی جے پی کے ایک رہنما کو بھجوائی تھی جس نے اِسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ اِن حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے حالات کیا رخ اختیار کررہے ہیں۔ مختصراً یہ ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی سبکی کا بدلہ اب بھارتی مسلمانوں سے لیا جارہا ہے۔ اگر اِس معاملے پر مسلم اُمہ نے اپنا ردعمل ظاہر نہ کیا تو پہلے سے مشکلات کے شکار بھارتی مسلمانوں کے حالات مزید تکلیف دہ ہوجائیں گے۔ اگرچہ اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ مسلم اُمہ پوری قوت کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کیونکہ اس وقت اِنہیں تنہا چھوڑ دینا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں