"FBC" (space) message & send to 7575

یہ ہیں شہری خدمت کے ادارے

اہلِ لاہور 18جنوری کے بعد سے آسمان پر نظریں جمائے ہوئے تھے کہ اب بارش برسی کہ تب لیکن یہ انتظار طویل ہوتا گیا۔ کم از کم پانچ ماہ تک بارشیں نہ برسنے کے باعث خشک سالی نے سب کی حالت خراب کررکھی تھی۔ پیڑ‘ پودے گردوغبار سے اٹ چکے تھے تو گرمی کی شدت سب کو ہلکان کیے دے رہی تھی۔ طویل عرصے تک بارشیں نہ ہونے کے باعث اِس مرتبہ شہریوں کو یکے بعد دیگرے کئی ایک ہیٹ ویوز کا سامنا بھی رہا جس دوران ایک موقع پر تو شہر کا درجہ حرارت 46ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی جا پہنچا تھا۔ پوری قوم گڑگڑا کر ربِ کائنات کے حضور بارش کی التجائیں کررہی تھی جو بالآخر قبول ہوگئیں۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح لاہور میں بھی پری مون سون کا آغاز ہو چکا ہے‘ اِس کے ساتھ ہی شہری خدمت کے اداروں کی کارکردگی بھی سامنے آنے لگی ہے۔ شہر میں بارش برسی تو حسب روایت سب سے پہلے لیسکو کا ترسیلی نظام جواب دے گیا۔ آدھے سے زیادہ شہر کم از کم 8سے 16گھنٹوں تک اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اِس دوران کئی ایک مواقع پر وولٹیج کی کمی بیشی کے باعث بڑی تعداد میں شہریوں کے فریج‘ اوون‘ موٹریں‘ ٹی وی اور دیگر ساز وسامان جل گیا۔ اندازہ لگائیے کہ کہاں کل تک سب گرمی کی شدت سے ہلکان ہوکر بارش کی دعائیں مانگ رہے تھے اور جب بارش برسی تو شہریوں کا نیا امتحان شروع ہوگیا۔ اب ہے کوئی جو شہریوں کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو؟ ہمارے ملک میںذمہ داری قبول کرنے کا تو یوں بھی کوئی رواج نہیں ہے اور بات جب لیسکو کی ہے تو اِس سے جوابدہی کی ہمت بھلا کون کر سکتا ہے۔ کبھی حکام سے ملاقات ہو تو باتیں ایسی کی جاتی ہیں جیسے لیسکو کا ترسیلی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے۔
زیادہ بارشوں کی صور ت میں لیسکو کے بعد واسا کی کارکردگی سب سے زیادہ زیر بحث رہتی ہے۔ اُدھر تیز بارش ہوتی نہیں کہ اِدھر شہر کے نشیبی علاقے زیرآب آجاتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ عمومی طور پر واسا حکام کی طرف سے مون سون کا آغاز ہونے سے بہت پہلے ہی یہ دعوے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ جب سر پر پڑتی ہے تو بیشتر صورتوں میں تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ مون سون کی پہلی بارش کے دوران بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی۔ یہ سچ ہے کہ واسا اہلکار صورت حال میں بہتری کے لیے اپنی سی کوششیں ضرورکرتے رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وسائل کی کمی کا واویلا بھی کیا جاتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ شہری خدمت کے ادارے بیشتر صورتوں میں اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے شہری خدمت کے ادارے اپنی فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں؟بلدیہ‘ محکمہ مال‘ پولیس‘ واسا یا پھر لیسکو کا ادارہ ہو‘ شاید ہی کوئی اِن کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ اِس مرتبہ تو یوں بھی موسم کا حال بتانے والوں نے یہ پیش گوئی کررکھی ہے کہ رواں مون سون کے دوران معمول سے کم سے کم 30فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی۔ معمول کے مطابق مون سون کے تین ماہ کے دوران اوسطاً 430ملی میٹر بارش برس جاتی ہے لیکن اِس مرتبہ یہ مقدار 530ملی میٹر سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں کے دوران شہریوں کے لیے کیا صورت حال پیدا ہونے والی ہے۔ گویا شہریوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ رواں مون سون کے دوران اُنہیں اِس مرتبہ زیادہ عرصہ کے لیے بجلی سے محروم رہنا پڑ سکتا ہے۔ اِس کے ساتھ جگہ جگہ کھڑا ہونے والا پانی بھی اُن کا امتحان لیتا رہے گا۔
دراصل امر واقع یہ بھی ہے کہ سیاست کے چسکے نے ہمیں کچھ اِس طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ ہمیں کوئی دوسری بات سوجھتی ہی نہیں۔ جن افراد سے بھی ملاقات رہتی ہے اُن میں سے بیشتر ایسی ہی باتوں کا مزہ لیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہاںجی‘ کیا بنے گا پھر نواز شریف کا۔ آپ کو تو زیادہ معلومات ہوتی ہیں‘ یہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئے گا کہ نہیں؟ یا پھر اکثر اِس طرح کی گفتگو رہتی ہے کہ آپ نے رات کو فلاں کا شو دیکھا تھا‘ کیسے میزبان نے وزیر کو بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ ہمیں آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ سیاست پر ہونے والے شوز کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ ایک گھنٹے تک تمام شرکا آپس میں سرپٹھول کرتے رہتے ہیں جس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں۔ گویا یہ تو وہی بات ہوگئی کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔ ہمیں آج تک کوئی ایسا شو دیکھنے کو نہیں ملا جس میںکوئی ایک صاحب کبھی اپنی غلطی تسلیم کرتے دکھائی دیں۔ الزامات در الزامات کا ایسا سلسلہ جاری رہتا ہے جن کا کوئی نتیجہ ہم نے تو آج تک نکلتے نہیں دیکھا۔ سیاست کے مدعے پر اتنی زیادہ گفتگو اُس ملک میں ہو رہی ہوتی ہے جو اِس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکا ر ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کا یہ سلسلہ اُس ملک میں جاری رہتا ہے جہاں کے باشندے بجلی کو ترس رہے ہیں۔ بجلی کو تو ایک طرف رکھیے‘ یہ چسکے اُس ملک میں لیے جا رہے ہوتے ہیں جہاں کے باشندوں کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کا پانی ہے۔ کتنی قابلِ شرم بات ہے کہ 74برسوں کے دوران ہم اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی فراہم نہیں کر سکے۔ دیہی علاقوں کوتو چھوڑیے‘ لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی یہ مسئلہ پوری سنگینی کے ساتھ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے ہسپتال پیٹ کے امراض میں مبتلا مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔ اِس صورت حال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے معاملات کو اُس شدت کے ساتھ سامنے نہیں لایا جاتا‘ جس کے یہ متقاضی ہیں۔ ہماری زیادہ توجہ سیاست پر ہی مرکوز رہتی ہے جس کے باعث شہریوں کو درپیش مسائل زیادہ شدت کے ساتھ سامنے نہیں آپاتے۔
ایسے ہی حالات کے باعث ہماری یہ حالت ہو چکی ہے کہ سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے ہوجاتے ہیں‘ پاؤں ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں تو سر ننگا ہوجاتا ہے۔ بظاہر مستقبل قریب میں بھی اِن حالات میں بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ خوف تو اِس بات سے بھی آرہا ہے کہ مون سون کا آغاز ہو چکا ہے اور شہر لاہور کی بیشتر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کئی ایک کو مرمت یا نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے اُکھاڑا جا چکا ہے۔ اِن حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مون سون کے دوران اِن علاقوں کے مکین کس عذاب سے گزرنے والے ہیں۔ حد ہے کہ کسی کو اِس بات کی پروا ہی نہیں کہ عوام نامی ایک مخلوق بھی حکمرانوں کی رعایا میں رہتی ہے۔ اُس کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ زندگی میں کوئی لمحہ تو سکون سے گزار سکے۔ گرمی ہو تو بجلی غائب اور اگر بارشیں ہوں تو پھربجلی کے آلات جلنے کی صورت میں دہرا عذاب بھگتنا پڑتا ہے۔ گرمی پڑے تو شہری ہلکان اور اگر بارشیں برس جائیں تو جگہ جگہ کھڑا پانی شہریوں کا امتحان لیتا رہتا ہے۔ یہی صورت حال شہری خدمت کے دوسرے اداروں کی بھی دکھائی دیتی ہے۔ عوام کے ٹیکسوں پر چلنے والے یہ ادارے عوام کا ہی خون چوسنے کے درپے رہتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ شہری خدمت کے نام پر قائم یہ ادارے کچھ اس انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکیں کہ شہری ان کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دینے لگیں۔ ایسا اسی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم سیاست کے چسکے سے جان چھڑا کر اپنی توجہ شہری مسائل پر مرکوز کریں۔ چلتے چلتے یہ بھی جان لیجئے کہ اِس وقت ہمارا ملک شدید ترین موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موسم گرما کے دوران ہمیں شدید گرمی کا سامنا رہا جو آئندہ برسوں میں مزید شدید ہوگی۔ ایسے میں خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسا ماحول چھوڑ کر جارہے ہیں لیکن مجال ہے جو ایسے مسائل ہماری ترجیحات بن سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں