"FBC" (space) message & send to 7575

جو وقت گزر جائے

بادشاہ سلامت نے تمام عمر اپنی رعایا پر ظلم ڈھایا تھا۔ کسان جو کچھ اُگاتے تھے اُس کا بیشتر حصہ شاہی خزانے میں چلا جاتا تھا اور اناج اُگانے والے بھوکوں مرتے رہتے تھے۔ بادشاہ سلامت نے اپنی سلطنت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر بے شمار ٹیکسز بھی عائد کر رکھے تھے لیکن قومی خزانہ ہمیشہ خالی ہی رہتا تھا۔ البتہ بادشاہ اور اُس کے وزرا کے مال و دولت میں دن رات اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ رعایا اِس بات پر حیران رہتی تھی کہ آخر اتنے زیادہ ٹیکسز ادا کرنے کے باوجود اُن کی حالت بہتر ہونے میں کیوں نہیں آ رہی۔ نتیجہ یہ نکل رہا تھا کہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوامی سطح پر رشوت لینے اور دینے کا رجحان بھی ریاست میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ رعایا اکثر گزرے وقتوں کو یاد کرتی رہتی تھی کہ اِس سے تو پہلے والا دور ہی اچھا تھا۔ بادشاہ سلامت کے کانوں تک جب یہ باتیں پہنچتیں تو اُنہیں بہت تکلیف ہوتی کہ آخر رعایا سابقہ بادشاہوں کو کیوں یاد کرتی رہتی ہے۔ ایسی ہی باتوں پر سیخ پا ہو کر وہ اکثر یہ باتیں کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی کرتا رہتا تھا۔ کوئی زنداں میں ڈال دیا جاتا تو کسی کو ہاتھی کے پاؤں تلے روند دیا جاتا۔ بادشاہ کی بس یہی خواہش تھی کہ اُس کے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود لوگ صرف اُسی کے گن گائیں۔ اپنی تحسین کے لیے اُس نے وزرا کی ایک فوج ظفر موج بھی مامور کر رکھی تھی۔ بادشاہ کچھ بھی کرتا تو اُس کے حواری اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے۔ ہوتے ہوتے بادشاہ کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آن پہنچا۔ جب وقت آخر آیا تو اُسے اپنے مظالم پر کچھ کچھ ندامت محسوس ہونے لگی۔ بالآخر اُس نے اپنے جانشین کو بلایا اور اِس بات کا اعتراف کیا کہ اُس نے اپنی رعایا پر بہت مظالم ڈھائے ہیں۔ اب وہ اپنے ولی عہد سے اِس بات کا متقاضی تھا کہ وہ کچھ ایسا کام کرے کہ بادشاہ کو مرنے کے بعد عوام اچھے الفاظ میں یاد کریں۔ ولی عہد نے وعدہ کیا کہ بادشاہ سلامت ایسے ہی ہو گا۔
پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب بادشاہ سلامت اپنے خزانوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ ولی عہد بادشاہ بنا تو جشن تاج پوشی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اُسے بادشاہ سے کیے ہوئے وعدے کی یاد آئی۔ سب سے پہلے تو اُس نے ''بھاری دل‘‘ کے ساتھ رعایا پر ٹیکس دگنا کر دیے۔ وجہ ایک مرتبہ پھر ریاست و قوم کا بہترین مفاد قرار دی گئی اور عوام کو باور کرایا گیا کہ سلطنت کو معاشی مسائل سے بچانے کے لیے یہ اقدام اُٹھانا ضروری تھا۔ اِس کے ساتھ ہی دیگر اشیاکی قیمتوںمیں بھی بے تحاشا اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ ہوتے ہوتے مہنگائی کی شرح سابقہ بادشاہ کے دور سے کہیں زیادہ ہو گئی۔ اب رعایا کو پرانا بادشاہ یاد آنے لگا تھا۔ ہرکوئی یہی باتیں کرنے لگا کہ اِس سے تو پہلے والا بادشاہ ہی اچھا تھا۔ رعایا کی یہ حیرانی اِس دور میں بھی برقرار رہی کہ اگر سلطنت کے معاشی مسائل اتنے ہی گمبھیر ہیں تو بادشاہ سلامت اور اُن کے حواری اپنی آسائشات میں کمی کیوں نہیں لاتے۔ وہ اکثر یہ باتیں کرتے رہتے تھے کہ آخر بادشاہ کو کیا ضرورت ہے کہ ایک سے دوسری جگہ جانے کے لیے پچاس پچاس ہاتھی ساتھ لے جانے کی۔ اُنہیں زیادہ تکلیف اِس بات پر ہوتی تھی کہ بادشاہ سلامت کے جانشینوں کے ٹھاٹ دوسری ریاستوں کے نوابوں اور راجائوں سے کم نہیں تھے۔ وہ بھی ایسے ہاتھیوں پر سفر کرتے تھے جن پر موجود ہودوں کو لوہے کی زنجیروںسے محفوظ بنایا گیا ہوتا تھا۔ ہاتھیوں کے اردگرد گھڑ سوار بھی بڑی تعداد میں چل رہے ہوتے تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ نئے بادشاہ کے اِن رویوں کے باعث لوگوں نے سابقہ بادشاہ کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا شروع کر دیا۔ پچھلے بادشاہ کی طرح نیا بادشاہ بھی اِس حوالے سے کافی ہوشیار تھا، اِس نے بھی اپنی تعریف و توصیف کا مناسب انتظام کر لیا تھا۔ اِس کے حواری دن رات بادشاہ کا اقبال بلند ہو کے راگ الاپتے رہتے تھے۔ اِن حواریوں کی باتیں سن کر تو کبھی کبھی بادشاہ کو بھی یہ محسوس ہونے لگتا کہ رعایا اس سے بہت خوش ہے۔
اسی ریاست میں کچھ فلسفی، تاریخ دان، مورخ اور دانا قسم کے لوگ بھی تھے جو اس سارے منظر نامے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ بالآخر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سلطنت میں تو یہ سب کچھ ہونا معمول کی بات ہے کیونکہ جب سے سلطنت قائم ہوئی تھی‘ تب سے یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا تھا۔ سلطنت کے بانیان کے علاوہ ہر فرمانروا نے یہی کچھ کیا تھا۔ اِس سلطنت میں چند مواقع ایسے بھی آئے جب کچھ طاقتور گروہوں نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ سننے میں یہ سب عجیب لگے لگا لیکن جس سلطنت کی ہم بات کر رہے ہیں، وہاں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے جو اب تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکا ہے۔ جب تاریخ کے کچھ مزید اوراق کھنگالے گئے تو معلوم ہوا کہ اِس سلطنت میں ہر آنے والا دور ہی گزرے ہوئے دور سے زیادہ تکلیف دہ رہا۔ سلطنت کی رعایا کی بھی عجیب عادت رہی کہ وہ ہمیشہ ماضی میں زندہ رہنا پسند کرتی۔ وہ ہمیشہ گزرے وقتوں کو یاد کرتی رہتی کہ اِس سے تو پچھلا دور ہی اچھا تھا۔ جس دور میں وہ رہ رہی ہوتی تھی اُس دور کے حالات و واقعات سے وہ ہمیشہ نالاں رہتی تھی اور یہی خواب دیکھا کرتی تھی کہ آنے والا وقت بہت اچھا ہو گا۔ اُنہیں ہمیشہ یہی خواب دکھائے جاتے تھے کہ جب فلاں بادشاہ بنے گا تو وہ سلطنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا۔ سیدھی سادی رعایا اِن چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتی لیکن حاصل حصول کچھ بھی نہ ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ برسر اقتدار بادشاہ کی برائیاں کرنے، پرانے دور کو یاد کرنے اور ایک مرتبہ پھر اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی۔ رفتہ رفتہ سلطنت کی رعایا نے بھی بادشاہوں جیسے طور طریقے اپنانا شروع کر دیے۔ بات بات پر جھوٹ بولا جانے لگا۔ ناپ تول میں کمی کو تو جیسے جرائم کی فہرست ہی سے نکال دیا گیا تھا۔ ذخیرہ اندوزی معمول بن گئی تھی۔ ملاوٹ کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ دودھ تک جیسی چیز بھی اِس سے محفوظ نہ تھی۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ ہمیشہ خود کو اقوامِ عالم میں بہترین قرار دینے پر مصر رہتی تھی۔
اِس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت میں ہمیشہ افراتفری ہی پھیلی رہتی۔ ہر نئے بادشاہ کے دور میں وہی پرانی صورتحال نظر آتی۔ تمام دعووں کے باوجود نیا بادشاہ مہنگائی پر قابو پا سکا نہ ہی رعایا کو کوئی ریلیف دے سکا۔ دربارِ شاہی سے بددل اور متنفر رعایا بھی رفتہ رفتہ اخلاقی و سماجی اقدار کو خیرباد کہنے لگی۔ لوگ ایک طرف خود کو بہت اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے لیکن ساتھ ہی ساتھ بہتی گنگا میں بھی ہاتھ دھوتے رہتے۔ بہت کم لوگ خود کو سدھارنے یا اپنی طرف سے کچھ اچھا کرنے کوشش کرتے۔ وہاں دوسروں کی جائیدادوں پر قبضوں کا رجحان بھی عام تھا۔ ایک دوسرے کا حق مار لینا تو معمول بن چکا تھا۔ انصاف نامی چڑیا وہاں سے کب کی اُڑ چکی تھی۔ کوتوالی نظام بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا تھا۔ رشوت کے بغیر کوئی جائز کام بھی نہیں ہو پاتا تھا۔ یہ لوگ اپنے مسائل کے حال کے لیے ہمیشہ دربارِ شاہی کی طرف دیکھتے رہتے لیکن خود کچھ بھی کرنے کو تیار نہ ہوتے۔ یوں رفتہ رفتہ سب نے مل جل کر ریاست کو مسائل کے گرداب میں اس طرح پھنسا دیا کہ نکلنے کی کوئی راہ نہ سوجھتی تھی۔ تازہ ترین صورت یہ ہے کہ نیا بادشاہ دعویٰ تو کر رہا ہے کہ جلد حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن رعایا ان دعووں پر یقین نہیں کر رہی۔ اُلٹا حسب عادت گزرے ہوئے وقت کو یاد کیا جا رہا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پہلے والے بادشاہ کے دور میں اُس سے پچھلے بادشاہوں کے دور کو یاد کیا جا رہا تھا۔اب ہر جگہ یہی بات سنائی دیتی ہے کہ اِس ریاست میں تو جو وقت گزر جائے‘ وہی اچھا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں