"FBC" (space) message & send to 7575

فکر کی کوئی بات نہیں

بھوک، افلاس، غربت اور ناانصافیوں سے تنگ آئے فرانسیسیوں نے انقلاب کا پرچم بلند کر دیا تھا۔ شاہی اہلکاروں کو چن چن کر مارا جا رہا تھا۔ اِس افراتفری میں تقریباً دو سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اِسی دوران جاسوسوں نے بادشاہ لوئی شانز کو خبردار کیا کہ بغاوت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی بھی وقت شاہی محل پر حملہ ہو سکتا ہے‘ اِس لیے بہتر ہے کہ اِسے چھوڑ کر کسی دور دراز علاقے میں پناہ لے لی جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ شاہی خاندان رات کے اندھیرے میں محل چھوڑ کر پیرس سے دو سو میل دور مومیدی کے علاقے میں چلا جائے گا۔ تقریباً دو سو تیس سال پہلے‘ 20 اور 21 جون 1791ء کی درمیانی شب کو مقررہ وقت پر محافظوں نے چھوٹی اور پرانی دِکھنے والی بگھیاں شاہی محل کے دروازے پر کھڑی کر دیں۔ اِنہیں دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اِس میں شاہِ فرانس کا خاندان سفر کر رہا ہے۔ جب ملکہ میری آنتونیت نے یہ بگھیاں دیکھیں تو اُس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔ وہ چلا کر بولی کہ فرانس کی ملکہ اب ایسی بگھیوں میں سفر کرے گی؟ اِس کے ساتھ ہی اُس نے حکم دیا کہ شاندار اور شاہی خاندان کے شایانِ شان بگھیاں لائی جائیں۔ حکم کی تکمیل ہوئی اور بڑی شاہی بگھیاں ملکہ کے سامنے کھڑی کر دی گئیں۔
شاہی خاندان مومیدی کی طرف سفر شروع کر دیتا ہے۔ جب یہ لوگ رات کے اندھیرے میں شاہی محل سے کافی دور ایک گاؤں کے قریب سے گزر رہے تھے تو دیہاتیوں نے اتنی شاندار بگھیوں کو دیکھ کر قافلے کو روک لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی بگھیوں میں امیر کبیر لوگ ہی سفر کر سکتے ہیں۔ اِن افراد میں دخوئے نام کا ایک شخص بھی شامل تھا جو فرانسیسی فوج میں خدمات سر انجام دینے کے بعد گاؤں میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے طور پر ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا۔ اُس نے کرنسی نوٹ پر موجود تصویر سے بادشاہ کو پہچان لیا اور انقلابیوں کو علاقے میں بادشاہ کی موجودگی کی اطلاع کر دی‘ جنہوں نے چند ہی گھنٹوں میں سب کو دھڑ لیا۔ بعد ازاں اِن سب کے سر قلم کر دیے گئے۔ گویا ملکہ کی پروٹوکول کی ضد پورے شاہی خاندان کی موت کا سبب بن گئی۔ آج بھی بعض تجزیہ کاروں کا یہ ماننا ہے کہ اگر خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے والا شاہی خاندان اِس موقع پر پروٹوکول کی ضد نہ کرتا تو شاید سب کی جانیں بچ جاتیں۔ مگر کیا کیا جائے‘ ہٹو بچو کی آوازیں سننے کا مزہ ہی اتنا زیادہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے لیکن حکمرانوں کا طمطراق سبھی کو دکھائی دینا چاہیے۔ یہ ایسا نشہ ہے کہ اس کے زیر اثر آ جانے والے متعدد صورتوں میں دوسروں کو انسان سمجھنے پر بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ معاملہ ہمارے جیسے ممالک میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ حکمرانوں یا دیگر حکومتی اہلکاروں کے پروٹوکول کی ایسی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اِن کے گارڈز کی جانب سے عام آدمی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس کے مظاہر اکثر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ویسا ہی نظر آتا ہے جو ازمنہ قدیم میں شہنشاہوں کے ادوار میں ہوا کرتا تھا۔
13ویں صدی عیسوی میں جب بلبن دہلی کے تخت پر بیٹھا تو اُس نے اپنے لیے سیستان سے دیو ہیکل پہلوان نما محافظ بلوائے تھے۔ اِن محافظوں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ہمیشہ غصے میں دکھائی دیں۔ یہ محافظ بڑی بڑی تلواریں اُٹھائے بادشاہ کے آگے پیچھے اُس کی حفاظت پر مامور رہتے تھے۔ وہ ہر وقت دوسروں کو غصے سے گھورتے رہتے تھے تاکہ ان کی دہشت قائم رہے۔ بلبن کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اپنے 20 سالہ دور اقتدار میں اپنے دربار میں وہ کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنسا تھا تاکہ اُس کا رعب اور دبدبہ قائم رہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن ... ہمارا ملک آج کے دور میں بھی اِس علت سے نجات حاصل نہیں کر سکا۔ صدر، وزیراعظم یا دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی نقل و حرکت کے دوران گھنٹوں شاہراہوں کو بند رکھنا، اپنے ساتھ محافظوں کی فوج ظفر موج لے کر چلنا۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے دوسروں کو حقیر گرداننا۔ سب رویے ویسے کے ویسے ہیں جیسے شاہی ادوار میں ہوا کرتے تھے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی‘ جس میں دیکھا گیا کہ ایک وزیرکے ملازمین پروٹوکول کی متعدد گاڑیوں کے ہمراہ ایک ہوٹل سے کھانا لینے کے لیے پہنچے تھے۔ اِن ملازمین نے لگ بھگ آدھے گھنٹے تک وفاقی دارالحکومت کی پوری شاہراہ بند کیے رکھی اور جب تک کھانا نہیں مل گیا‘ تب تک وہ گاڑیاں سڑک ہی پر کھڑی رہیں۔ اندازہ لگائیے کہ وزیرصاحب ابھی گاڑی میں موجود نہ تھے۔ اگر وہ بنفس نفیس موجود ہوتے تو کیا صور تحال ہوتی‘ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ جب ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں تو بھاگ بھاگ کر شاہراہیں عبور کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہاں 40‘ 40 گاڑیوں کے قافلے میں سفر کرتے ہیں۔ گزشتہ سال جب اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی سکیورٹی پر خرچ ہونے والے اخراجات کی تفصیلات سامنے آئی تھیں تو عقل دنگ رہ گئی تھی۔ عوام کو سادگی کا درس دینے والوں کی صرف سیکورٹی کے اخراجات کروڑوں میں تھے۔ صدرِ مملکت، وزیراعظم، وزرا اور معاونین کی سکیورٹی اور پروٹوکول کے سالانہ اخراجات 45 کروڑ 43 لاکھ روپے بتائے گئے تھے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی سکیورٹی پر سالانہ لگ بھگ 46 کروڑ روپے رقم خرچ ہوتی ہے۔ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز حضرات کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر اُٹھنے والے سالانہ اخراجات کا اندازہ خود لگا لیں۔ تب کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اُن کی حکومت نے سکیورٹی اور پروٹوکول پر اُٹھنے والے اخراجات میں گزشتہ ادوار کی نسبت خاطر خواہ کمی کی ہے۔ ہمارے حکمران ہمیشہ عوام کو سادگی اپنانے کا درس دیتے رہتے ہیں۔ جب تک ہم خود کو دوسروں کے سامنے بطور مثال پیش نہیں کریں گے‘ دوسرے ہماری باتوں پر کیسے یقین کر سکتے ہیں۔ صرف حکمرانو ں پر ہی کیا موقوف‘ ہمارے یہاں درس و تعلیم سے وابستہ ایسے افراد بھی ہیں جن کا شاہانہ طرز زندگی دیکھ کر انگلی دانتوں تلے داب لینے کو جی چاہتا ہے۔ پروٹوکول کا یہ نشہ اب عوامی سطح پر بھی پوری طرح سے اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ پرائیویٹ گارڈز رکھنے کا رجحان عام ہو چکا ہے جن کی طرف سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پروٹوکول اب سکیورٹی سے زیادہ اپنی طاقت اور دبدبے کے اظہار کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جس کا جتنا بڑا منصب ہوتا ہے‘ اُس کی پروٹوکول کی خواہش بھی اُتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے گا لیکن ہوا وہی کچھ جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ یہ صورتحال آج بھی پوری طرح سے برقرار ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے تو ہم پروٹوکول کے نام پر خرچ کی جانے والی رقم میں کمی لا کر کوئی اچھا ''gesture‘‘ کیوں نہیں پیش کرتے؟ کم از کم اس سے عوام میں یہ پیغام تو جائے گا کہ حکومت خود بھی اپنے اخراجات میں کمی لانے میں سنجیدہ ہے۔ یہ کہانیاں بھی زبان زد خاص و عام ہیں کہ جب ہمارے حکمران غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو اُن کے کیسے شاہانہ ٹھاٹ ہوتے ہیں۔ یہ تفصیل پھر کسی وقت بیان کریں گے لیکن یہ صورتحال بہرحال افسوس ناک ہے۔ حکمرانوں نے خود کو تو پوری طرح محفوظ کر رکھا ہے لیکن عوام ہرگزرتے دن کے ساتھ غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ صورت حال مستقبل میں بھی اِسی طرح برقرار رہے گی کیونکہ یہ کون سا فرانس ہے۔ ہمارے یہاں انقلاب کے نعرے تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن انقلاب آئے گا کبھی نہیں۔ اگر یہ خدشہ ہوتا کہ ہمارے خطے میں بھی بھوک اور افلاس سے تنگ آئے عوام انقلاب کا پرچم تھام سکتے ہیں تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری اشرافیہ کو خوفزدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُسے کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو چاہے‘ کرتی رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں