"FBC" (space) message & send to 7575

لوٹا کریسی مسترد

پنجاب اسمبلی کی خالی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسلم لیگ کی صفوں میں جیسے بھونچال کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ حکمران اتحاد کو یہ توقع تو تھی کہ مقابلہ کانٹے کا ہوگا لیکن ایسے نتائج کے بارے میں تو شاید سوچا بھی نہیں گیا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ حالات ایسی صورت میں مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اِس جماعت نے 16 میں سے 15 ضمنی انتخابات میں کامیابی سمیٹی تھی۔ اب جبکہ یہ جماعت اقتدار میں ہے تو اِس کے باوجود کہ کامیابی کے لیے سرکاری وسائل استعمال کیے جانے کے باتیں تواتر سے سامنے آتی رہیں‘ یہ 20 نشستوں میں سے صرف چار سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو سکی۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ جن نشستوں پر انتخابات ہوئے وہ پہلے تحریک انصاف کی سیٹیں تھیں‘ دیکھا جائے تو مسلم لیگ تحریک انصاف کی چار نشستوں پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن اصل مسئلہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تھا جس سے اب بظاہر مسلم لیگ (ن) ہاتھ دھو بیٹھی ہے اور اب چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد اب پنجاب اسمبلی میں نشستوں کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ 15نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی نشستوں کی تعداد 178 ہو گئی ہے۔ قاف لیگ کی 10 نشستیں ملا لی جائیں تو تحریک انصاف اور قاف لیگ کے اتحاد کے پاس 188سیٹیں ہیں۔ گویا 371 کے ایوان میں اِس اتحاد کو وزارتِ اعلیٰ کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل ہو گئی ہیں۔ نئی صورت حال کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور اِس کے اتحادیوں کے پاس اب 175 نشستیں ہے۔ یہ کل ملا کر 369 بنتی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دو منحرف اراکین کی طرف سے استعفے دیے جا چکے ہیں۔
اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ پنجاب کی ان 20 نشستوں کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات میں بہت کچھ نیا ہوا ہے۔ بہت سی نئی جہتیں سامنے آئی ہیں جبکہ متعدد سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کے فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ آج سے کچھ ماہ پہلے جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی تو تب بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اِس کے حق میں نہیں تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ ایسے موقع پر جب تحریک انصاف عوام میں خاصی غیر مقبول ہو چکی ہے‘ اِسے حکومت سے باہرکرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کافی تگ و دو کے بعد میاں نواز شریف مان تو گئے لیکن اُن کی یہی رائے تھی کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے فوراً بعد انتخابات کرا دیے جائیں۔ ایک موقع پر اِس بات پر اتفاق بھی کر لیا گیا تھا لیکن بعد میں حکمران اتحاد نے مدت پوری کرنے کی ٹھان لی۔ اِسی دوران جس مہنگائی کے خلاف عمران خان کے لتے لیے جاتے تھے، اُس میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا جس سے تحریک انصاف کے اِس بیانیے کو تقویت ملی کہ مہنگائی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ اِسی دوران عمران خان یہ بیانیہ بھی ڈویلپ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اُن کی حکومت کو غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ختم کیا گیا۔ عوام نے بھی اُن کے اِس بیانیے کو پذیرائی بخشی۔ ایسی صورت حال پیدا ہونا شروع ہو گئی کہ غیر ملکی مداخلت کے بیانیے کی مضبوطی کے بعد مہنگائی کا عنصر بھی پس پردہ جانا شروع ہو گیا۔ تحریک انصاف نے جب یہ دیکھا کہ اُس کا غیر ملکی مداخلت والا بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے تو اُس نے اپنی تمام تر توجہ اِسی پر مرکوز کر دی۔ پوری جماعتی مشینری کو متحرک کر دیا گیا اور خود عمران خان ایک ایک دن میں چار‘ چار جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔ عوام میں یہ تاثر بھی جڑ پکڑ گیا تھا کہ سب جماعتیں کسی اشارے پر متحد ہوئی ہیں اور سب نے مل کر عمران خان کی حکومت کو ختم کیا ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف غیر ملکی مداخلت کے بیانیے پر کھیل رہی تھی تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) حالات کا بروقت ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ اگرچہ مریم نواز شریف نے کافی جارحانہ انتخابی مہم چلائی لیکن وہ ووٹرز کو (ن) لیگ کی طرف مائل کرنے پر ناکام رہیں۔ اِس پر مستزاد‘ سوائے ایک نشست کے (ن) لیگ نے تمام نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹس دیے۔ عوامی سطح پر اِس اقدام کو ناپسند کیا ہی گیا، خود پارٹی کے اندر بھی اِس اقدام کی شدید مخالفت دیکھنے میں آئی۔ اعلیٰ قیادت اپنے ناراض رہنماؤں کو اِیسے وعدوں پر منانے کی کوشش کرتی رہی کہ اُنہیں عام انتخابات میں ایڈجسٹ کیا جائے گا لیکن یہ سب تدبیریں ناکام رہیں۔ اِس کے واضح اثرات ووٹنگ کے روز دیکھنے میں آئے جب مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ کارکن اور رہنما اپنی پارٹی کے اُمیدواروں کے شانہ بشانہ چلنے سے گریزاں نظر آئے۔ بے شمار لیگی رہنماؤں اور کارکنوں نے پی ٹی آئی کے منحرف اُمیداروں کی انتخابی مہم چلانے کے بجائے گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ یہ اِسی کا نتیجہ رہا کہ متعدد لیگی وزرا کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر میدان میں اُترنا پڑا۔ گویا مسلم لیگی قیادت کا لوٹوں کے ذریعے حکومت ختم کرنے اور پھر اِنہیں پارٹی کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ انتہائی غلط ثابت ہوا۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں لیگی قیادت نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اُس سے غلطی سرزد ہوئی ہے لیکن تب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم نے خود لاہور کے چاروں حلقوں میں یہ بات محسوس کی کہ لیگی اُمیدوار صرف اپنے چند سپورٹرز کے ساتھ حرکت میں تھے جبکہ اُن کے ساتھ پارٹی کے مصدقہ کارکنان بہت کم تعداد میں دکھائی دیے۔ کئی مقامات پر ان اُمیدواروں کو ''لوٹا‘ لوٹا‘‘ کے نعرے بھی سننے پڑے۔ البتہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے قطع نظر‘ یہ بات سراہے جانے کے قابل ہے کہ ووٹرز نے لوٹا کریسی کو یکسر مسترد کیا ہے۔ اِس سے پہلے‘ اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین کو ڈی سیٹ کیا جانا بھی بہت اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اِس سے ملکی سیاست پر یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اِن حالات میں لاہور کے حلقہ پی پی 168 سے مسلم لیگی اُمیدوار اسد کھوکھر کی کامیابی نے کسی حد تک لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا بھرم رکھ لیا ہے۔ اگرچہ اسد کھوکھر بھی تحریک انصاف ہی سے مسلم لیگ (ن) میں آئے تھے لیکن بہرحال وہ کامیابی سمیٹنے میں کامیاب رہے اور وہ بھی کافی واضح مارجن سے۔ ووٹنگ کے روز ہم نے اُن کے حلقے میں کافی وقت گزارا‘ جس دوران اِس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک اسد کھوکھر کامیابی حاصل کر لیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ حلقے کے ووٹرز نے پارٹی وابستگی کو پس پشت رکھتے ہوئے اسدکھوکھر کی شخصیت کو ووٹ دیا۔ اِس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اگر اُمیدواروں کا اپنے حلقے کے عوام سے قریبی رابطہ استوار رہے تو وہ اِس عنصر کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ کامیابی سمیٹنے کے بعد اپنے ووٹرز کو یوں فراموش کر دیتے ہیں جیسے اب اُنہوں نے کبھی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لینا۔ جب جیتنے والے اپنے ووٹرز سے میل ملاقات نہیں رکھتے تو پھر وقت پڑنے پر ووٹرز بھی حساب چکتا کر دیتے ہیں۔ اِس بھی آگے بڑھ کر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وقت آنے پر ووٹرز اُن کی حکمت عملی کو بھی ناکام بنا دیتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مرضی کے بغیر ملک میں پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے آئی ہے جس کے نتیجے میں پرویز الٰہی کا دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کو ہے۔ آگے چل کر جو ہونا ہے‘ وہ تو اب سب کو نظر آ رہا ہے لیکن اِس بات کو ضرور سراہا جانا چاہیے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ اب لوٹوں کا دور گزر چکا ہے۔ اللہ کرے کہ ووٹرز کی نئی سوچ کو سیاسی جماعتیں بھی اہمیت دیں اور ہماری سیاست سے چھانگا مانگا کا کھیل ختم ہو جائے۔ اللہ کرے کہ انتخابات کو 'مینج‘ کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے۔ صرف اِسی صورت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں