"FBC" (space) message & send to 7575

معاملات بگاڑ کی انتہائی سطح پر

ہوسِ اقتدار اور سیاسی معاملات میں ہونے والی مداخلت سے معاملات انتہائی گمبھیر ہو چکے ہیں اور ان میں جلد بہتری کی بظاہر کوئی اُمید نظر آرہی ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام کوئی نئی بات نہیں لیکن موجودہ صورت حال انتہائی خراب دکھائی دے رہی ہے‘ جس جماعت کو انتہائی لاڈ پیار سے اقتدار میں لایا گیا تھا‘ اب وہی گلے پڑی ہوئی ہے۔ اس جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے انتہائی قریبی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی پروا بھی نہ کی گئی ۔ تب صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی بھی طرح سے تحریک انصاف کو اقتدار مل جائے۔ اس مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن اُس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ بہت ہی خوفناک کہانی ہے۔ اصولی طور پر تو اقتدار میں آنے کے بعد اس جماعت کو اپنے اور ملک کے معاملات خود چلانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن یہ ہر موقع پر اوروں کی طرف ہی دیکھتی رہی۔ اس جماعت نے ملکی معاملات تو کیا چلانے تھے‘ اُلٹا سب کچھ ہی ہلا کر رکھ دیا۔ ببانگ دہل یہ کہا جانے لگا کہ اب عمران خان کے علاوہ کوئی دوسری ''چوائس‘‘ موجود ہی نہیں۔ اِس تناظر میں راقم نے اپنے ایک آرٹیکل ''چوائس ہمیشہ موجود رہتی ہے‘‘ میں تفصیل سے اِس بابت بیان کیا تھا کہ مقتدرہ کے پاس ہمیشہ پلان بی موجود رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے کتنے ہی حکمران آئے اور چلے گئے جو خود کو ملک کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ محترم عمران خان بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور وقت ہاتھ سے نکلتا گیا۔ جب معاملات انتہائی خراب ہوگئے تب اُن کے حامیوں نے بھی اپنے ہاتھ اُٹھا لیے جس کے ساتھ ہی حکومت دھڑام سے گر گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران سوائے انتقامی سیاست کے کچھ بھی دیکھنے کو نہ ملا۔ اپوزیشن کے تقریباً سبھی نمایاں رہنماؤں نے جیل یاترا کر لی لیکن کسی سے بھی کچھ حاصل وصول نہ ہو سکا۔
پانی سر سے گزرنے لگا تو پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہمارے ملک میں ہوتا آیا ہے۔ خود کو واحد ''چوائس‘‘ قرار دینے والے آج اپنے ناموں کے ساتھ سابق کا لاحقہ لگا کر گھوم رہے ہیں۔ اُنہیں اقتدار میں لانے والے ہی آج اُن کی تنقید کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور ملکی حالات ہیں کہ بگڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اب جو حکمران اقتدار میں آئے ہیں تو وہ بھی حالات کو بہتر بنانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب گیارہ‘ بارہ جماعتوں کے اتحاد سے حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے تو اِن جماعتوں کو حصہ بھی تو دینا لازم ہے۔ حکومت ملنے کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کا تو وجود ہی جیسے ختم ہوکر رہ گیا ہے اور اقتدار میں شامل بڑی جماعتیں خود ہی وزارتوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ اتحاد میں شامل مختلف جماعتوں کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔گویا ملک میں چند ماہ پہلے جس سیاسی عدم استحکام کا آغاز ہوا تھا‘ وہ آج بھی برقرار ہے۔ اس میں مزید شدت پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد آئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ان انتخابات کے دوران ووٹرز نے تحریک انصاف پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے غیرملکی سازش کے بیانیے کا اتنا زیادہ ڈھول پیٹا کہ عام آدمی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ایسے میں ووٹرز یہ بھی بھول گئے کہ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو وعدے کیے تھے‘ وہ انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی تھی۔ پچاس لاکھ گھروں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا نہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ پورا ہوا۔ بیرونی ممالک کے بینکوں میں پڑے ہوئے دوسو ارب ڈالر بھی واپس نہ لائے جا سکے۔ آج اِن وعدوں کے بارے میں کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گویا ہمیشہ کی طرح بہت جلد ہم سب کچھ بھول بھال گئے ہیں۔ اب صرف غیرملکی مداخلت کے بیانیے کا چورن بک رہا ہے۔ یوں بھی جب ہمارے ترکش میں کوئی تیر باقی نہیں رہتا تو پھر امریکہ کی مخالفت کا بیانیہ ہی کام آتا ہے۔
ان تمام حالات کا سب سے زیادہ اثر معاشی معاملات پر دیکھنے میں آرہا ہے۔ ظاہر ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوگی۔ یہ اسی کے باعث ہے کہ ڈالر کی بلند پرواز نے روپے کو دور کہیں کھائی میں پھینک دیا ہے۔ اب عمران خان یہ تو کہہ رہے ہیں کہ جب اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی تو تب ڈالر کی قدر 178روپے تھی لیکن آج آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے باوجود یہ 224روپے تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف وہ یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ جب نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تھی تو تب ڈالر 118روپے میں مل جاتا تھا۔ وہ یہ بتانے سے بھی گریز کرتے ہیں کہ اُن کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی جس کے باعث معاشی حالات بگڑنا شروع ہوئے۔ بیشتر صورتوں میں یہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کا نتیجہ ہی ہے کہ آج ملک کے معاشی معاملات انتہائی بگاڑ کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت بھی حسبِ وعدہ معاشی بہتری لانے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس دور میں مہنگائی کی رفتار میں کہیں زیادہ تیزی آچکی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی زیادہ دلچسپی اپنے خلاف کیسز ختم کرانے پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ حالات کی ہلکی سی کروٹ بھی اُنہیں اقتدار سے محروم کر سکتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جانے والے آنے والوں اور آنے والے جانے والوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اسی چکر میں ملکی معاملات ہرگزرتے دن کے ساتھ بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ تما م اعشاریے بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں کے دوران معاملات میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا جس کے لیے عوام کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
ان تمام حالات کو مدِنظر رکھا جائے تو بہت سے دیگر سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب 2018ء سے پہلے نواز شریف کی حکومت کافی بہتر طور پر چل رہی تھی تو ایسا کیا ہوا کہ اس کا جانا ٹھہر گیا۔ نواز شریف کی حکومت کے بعد جن کی حکومت بنی ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اب لاڈلے دردِ سر بنے ہوئے ہیں اور سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن لاڈلوں کا دباؤ سبھی محسوس کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ شاید اس دباؤکے نتیجے میں اُس کے لیے دوبارہ کوئی سافٹ کارنر پیدا ہوجائے گا‘ اگرچہ بظاہر اس کا امکان بہت کم دکھائی دے رہا ہے۔ گویا اس وقت کوئی راستہ سجھائی ہی نہیں دے رہا اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کو ملکی معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ بلاشبہ ان حالات کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ سیاسی معاملات میں مداخلت بھی ہے۔ اللہ کرے کہ اب ہی کوئی سبق سیکھ لیا جائے اور سبھی اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائض انجام دیں۔ بے جا مداخلت کے ذریعے کسی کو اقتدار میں لانا چاہیے نہ ہی اقتدار سے رخصت کرنا چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملکی حالات میں بہتری آئے تو اِس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ جمہوری عمل بغیر کسی مداخلت کے جاری رہے۔ اگر ہم اس راستے پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ ہمارے ہاں حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ دیکھا جائے تو مفادات کا کھیل جس حد تک پہنچ چکا ہے‘ اُس کے پیش نظر بظاہر تو یہ بات خواب ہی محسوس ہوتی ہے کہ ہم اپنے اپنے مفادات کو تج کر ملکی مفادات کو ترجیح دینا شروع کردیں گے لیکن اُمید کا دامن بہرحال تھامے رکھنا چاہیے۔ اگریہ نہیں ہوگا تو پھر بے یقینی‘ افراتفری اور عدم اعتماد جیسی قباحتیں اس طرح اپنی جگہ بنائے رکھیں گی جس کا خمیازہ بہرحال ملک اور یہاں کے عوام کو ہی بھگتنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں