"FBC" (space) message & send to 7575

احتساب صرف دوسروں کا؟

بدعنوانوں کا احتساب کرنے کے لیے نیب انتہائی بااختیار وفاقی ادارہ ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو اکتوبر 2017ء میں اس وقت اس ادارے کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا جب شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیراعظم تھے۔ اپنی میعاد مکمل ہونے پر اِنہیں گزشتہ برس 6 اکتوبر کو ریٹائر ہونا تھا لیکن اِس دوران تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جاری ہونے والے دو صدارتی آرڈیننس کی بدولت وہ جون 2022ء تک کام کرتے رہے۔ بطور چیئرمین نیب اُنہوں نے بدعنوانی کے مرتکب بے شمار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی منظوری دی۔ اِس دوران یہ دعوے بھی سامنے آتے رہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ادارے میں انقلابی اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کے باعث ادارے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اِس عرصے کے دوران نیب نے 533 ارب روپے کی ریکوری کی جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ الگ بات کہ جب قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ریکور کی جانے والی رقم اور اِسے سٹیٹ بینک میں جمع کرانے کے شواہدمہیا کرنے کی ہدایت کی تواِس کا کوئی ثبوت کمیٹی میں پیش نہ کیا جاسکا۔ یہ طرزِ عمل بھی ہمارے ملک کی انفرادیت میں شمار ہو گا کہ کہ یہاں بس دعووں سے کام چلایاجاتا ہے۔ اب لوگ خود ہی تحقیق کرتے رہیں کہ اِس دعوے میں کتنی صداقت تھی۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کی چیئرمینی کے دور میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ حکومتی ایما پر نیب کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور خورشید شاہ سمیت متعدد سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات درج کیے گئے لیکن ایک پائی کی بھی ریکوری نہ ہوسکی۔ سعد رفیق کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ اس ادارے کو سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اِس تاثر کو زائل کرنے کیلئے جب چیئرمین صاحب نے تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا تو اُن کی ایک مبینہ قابلِ اعتراض وڈیو منظرِعام پر آگئی؛ تاہم بعد میں وڈیو کی تحقیقات کا معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔
محترم چیئرمین صاحب پر نہ صرف نیب کے دورِ چیئرمینی کے حوالے سے ہراساں کرنے کے الزامات لگے بلکہ لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی ان پر اسی نوعیت کے الزامات لگائے گئے۔ حسبِ روایت ایسے الزامات کی بھرپور تردید بھی سامنے آتی رہی لیکن معاملات تب مشکوک ہونا شروع ہوگئے جب قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اِس پر تحقیقات شروع کیں۔ تفصیلات سامنے آنے کے بعد جب محترم کو قائمہ کمیٹی کی جانب سے طلب کیا گیا تو اُنہوں نے پیش ہونے سے گریز کیا۔ الزامات کے حوالے سے ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی تردد نہیں کہ اُن پر عائد کیے جانے والے الزامات غلط ہوں گے لیکن جب الزامات سامنے آئے تو اُنہیں اپنی صفائی پیش کرنا چاہیے تھی۔ اِس کے بجائے ان کی جانب سے جو رویہ اپنایا گیا‘ وہ ناقابلِ فہم تھا۔ واضح رہے کہ یہ رویہ اُس شخصیت کی طرف سے اپنایا گیا جو طویل عرصے تک دوسروں کا ''احتساب‘‘ کرنے کی ذمہ داریاں اداکرتی رہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طلب کیے جانے پر وہ کمیٹی میں پیش ہوتے اور اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرتے۔ بالکل ویسے ہی جیسے احتساب کے مقدمات کا سامنا کرنے والوںکو نیب کی طرف سے طلب کیا جاتا ہے اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے شمار ایسے کیسز ہیں جن میں نیب کی طرف سے کسی پر کوئی الزام عائد کیا گیا لیکن بعد اُسے ثابت نہ کیا جاسکا۔ دوسروں کا احتساب کرنے والوںکی جب اپنی باری آئی تو رویے یکسر تبدیل ہوگئے۔ موصوف کے اِس رویے کے پیشِ نظر کمیٹی کی طرف سے سفارش کی گئی ہے کہ اُنہیں لاپتا افراد کے کمیشن کی سربراہی سے بھی ہٹا دیا جائے۔ اِس پر انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ اپنے وکیل کی وساطت سے یہ استدعا کی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے وہ میٹنگ منٹس کالعدم قرار دیے جائیں جن میں ان کے موکل کو لاپتا افراد کمیشن کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس حکم کو عدالت کی جانب سے ستمبر تک معطل کیا گیا ہے اور اب یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے‘ لہٰذا اس پر مزید گفتگو نہیں ہو سکتی۔ اس سب کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ ہمیشہ دوسروں ہی کا احتساب کرنا چاہتے ہیں اور جب اپنی باری آتی ہے تو خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے سے گریز کا رویہ اپنانے لگتے ہیں۔
اسی حوالے سے ایک دوسرے معاملے کی جانب توجہ مبذول کرانا بھی نہایت ضروری ہے۔ کچھ سرکاری دستاویزات کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز کے فنڈز کا آڈٹ کرنے کی اجازت دینے سے اعلیٰ عدالت کی جانب سے انکار کردیا گیا ہے۔ آڈیٹرجنرل آف پاکستان کو اِن فنڈز کا آڈٹ کرنے کی ہدایت قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے کی گئی تھی۔ جب اِس حکم کی تکمیل کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے متعلقہ ذمہ داران سے رابطہ کیا گیا تو اُن کی طرف سے اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔ اجازت نہ دینے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اول تو یہ معاملہ زیرِسماعت ہے اور دوسرا یہ کہ بینچ سے منظوری ملنے کے بعد نیشنل بینک اور سٹیٹ بینک سے ڈیٹا حاصل کرنا ہوگا۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ اِن فنڈز کا آڈٹ شاید کبھی نہیں ہوسکے گا۔ واضح رہے کہ یہ وہ فنڈز ہیں جو ہمارے ایک سابق چیف جسٹس کی اپیل پر جمع ہوئے تھے۔ اس وقت بھی دبے دبے لفظوں میں اس پر احتجاج ہوا تھا کہ فنڈز جمع کرنا عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور کے ایک لٹریری فیسٹیول میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فنڈز جمع کرنے کا مقصد ڈیم تعمیر کرنا نہیں بلکہ اِس حوالے سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ آڈٹ کی اجازت سے فی الوقت انکار پر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اگر رقم محفوظ ہے تو پھر اِس کا آڈٹ کرنے کی اجازت دینے میں کیا امر مانع ہے؟یوں بھی یہ وہ رقم ہے جو عوام کی طرف سے جمع کرائی گئی تھی‘ حیرت اس بات پر ہے کہ ہم ہمیشہ صرف دوسروں کو سنوارنے کی کوشش ہی کیوں کرتے ہیں۔ ہم اپنے اندر موجود خامیاں دورکرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے سے گریز کا رویہ کیوں اپناتے ہیں۔ کیا یہی وہ وجوہات نہیں کہ اب ہمارے معاشرے میں قانون کی بالادستی ایک خواب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ یقینا ایسی ہی وجوہات کے سبب آج فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے ہمارا نظامِ عدل دنیا میں 130ویں نمبر پر ہے۔ یقینا یہ صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہمارا مشرقی ہمسایہ‘ جو دن رات ہمارے لیے مسائل کھڑے کرنے کی فکر میں غلطاں رہتا ہے‘ وہ بھی فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے ہم سے کہیں آگے ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک مسلم ملک میں فراہمیٔ انصاف کی صورت حال اتنی ابتر ہے۔ یقینا یہ خود کو احتساب سے بالاتر سمجھنے جیسے رویوں کی وجہ ہی سے ہے۔ یہاں تو کچھ طبقات سرے سے قانون کے خود پر نفاذکو مانتے ہی نہیں۔ کوئی بھی حکومت ہو‘ وہ بھی اس معاملے میں سنجیدہ رویہ نہیں اپناتی اور معاملات کو جیسے ہیں‘ جہاں ہیں کی بنیاد پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ کوئی ایسا حکمران یا ایسی حکومت نہیں آئی ‘جو بلاتفریق انصاف کا نعرہ نہ لگاتی ہو مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ جب خود پر بن آتی ہے تو تمام اخلاقیات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سات دہائیوں سے زائد کے ملکی سفر میں ہم نے عروج سے زیادہ زوال کی جانب سفر کیا ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ اس کے پیشِ نظر معاملات آگے بھی ایسے ہی چلتے دکھائی دے رے ہیں۔ سرِ دست اِن میں بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں