"FBC" (space) message & send to 7575

یہ ہیں ہمارے افغانی بھائی

ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے میں پاکستان بمقابلہ افغانستان میچ کے دوران اور اس کے بعد ہمارے 'افغانی بھائیوں‘ نے ایک مرتبہ پھر جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اُس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ پہلے افغانستان کے ایک باؤلر (فرید احمد) کی طرف سے پاکستانی بلے باز آصف کے ساتھ بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا‘ پھر میچ میں شکست کا سامنا کرنے کے بعد سٹیڈیم میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی گئی۔ محض سٹیڈیم کے اندر ہی نہیں بلکہ سٹیڈیم کے باہر بھی افغان شائقین کی جانب سے پاکستانی ٹیم کے سپورٹرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران خوب نعرے بازی کی گئی اور منفی جذبات کا کھل کر اظہار کیا گیا۔ یہ طرزِ عمل بھارتی تماشائیوں کی طرف سے اپنایا جاتا تو ہمیں کچھ افسوس نہ ہوتا کیونکہ بیشتر بھارتی اپنی پاکستان دشمنی کا کھل کر اظہار کرتے رہتے ہیں۔اگرچہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد دونوں ممالک کے حکمرانوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے تھے۔ تب کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو جب کبھی بھی پاکستان کی فضاؤں سے گزر کر کسی دوسرے ملک جاتے یا وہاں سے واپس آتے تو اکثر اوقات اُن کا سٹے کراچی میں ہوتا تھا۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی یہی طرزِ عمل ہوا کرتا تھا اور دہلی میں کھلے دل سے ان کی میزبانی کی جاتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو تعلقات میں دوبارہ بہتری کی کچھ اُمید پیدا ہوئی تھی لیکن پھر کارگل کے معرکے کی وجہ سے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے اور اب بی جے پی اور مودی سرکار کے ہوتے ہوئے کسی بہتری کی امید بھی عبث ہے۔
دوسری طرف ہم ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ افغانی ہمارے بھائی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ہرمشکل میں اُن کا ساتھ دیا۔ کسی زمانے میں افغانستان کو تزویراتی گہرائی کے حوالے سے بھی بہت اہم قرار دیا جاتا تھا۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے وقت بھی ہم نے اپنے افغانی بھائیوں کی بھرپور مدد کی۔ چالیس لاکھ کے قریب افغانی مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ پورا ملک اُن کے لیے کھول دیا اور اُنہیں ہر جگہ پر کاروبار کرنے کی اجازت دی۔ وہ اپنے ساتھ جو کلاشنکوف کا کلچر لے کر آئے تھے‘ اُس پر بھی زیادہ اعتراض یا گرفت نہیں کی گئی۔ اس کے بعد ملک میں جگہ جگہ دھماکے ہوتے رہے جس دوران بے شمار ہم وطن اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اس ساری سعیٔ لاحاصل میں اتنا ضرور ہوا کہ ہمارے افغانی بھائی سوویت حملہ آوروں کو اپنے ملک سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ گاہے گاہے کچھ افراد سوویت یونین کے ٹوٹنے کا کریڈٹ بھی لیتے رہتے ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان جنگ میں افغانیوں کی فتح اور سوویت یونین کے زوال کا سبب ہماری معاونت تھی مگر اُس کے بعد کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ افغانستان میں جو بھی حکومت برسرِ اقتدار آئی، اُس کی طرف سے مسلسل گرم ہوا کے جھونکے آتے رہے۔ ہماری بھرپور حمایت اور قربانیوں کا اُن کی طرف سے رتی برابر بھی احساس نہ کیا گیا۔ اِس بے مروتی پر وہاں کے مدارس کے طلبہ کو شدید غصہ آیا اور اُنہوں نے افغان حکمرانوں کو سزا دینے کے لیے وہاں جہادی تحریک کا آغاز کردیا۔ اِس جہاد کے نتیجے میں طالبان کے نام سے ایک گروہ منظم ہوا اور بالآخر پورے افغانستان میں برسرِ اقتدار آگیا۔ تب کے افغان حکمران نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر سے نکال کر سرعام پھانسی دے دی گئی۔ سرحد کے اِس پار سے اس وقت طالبان کی حکومت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے اور پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ ہمارے کئی دانشور وہاں کی امن وامان کی صورتحال کو بہترین قرار دیتے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ خود وہاں جانے کو کبھی تیار دکھائی نہ دیے۔
اِس ساری محنت پر نائن الیون کے حملوں نے پانی پھیر دیا۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر پالیسی تبدیل کرکے اتحادی افواج کی مدد کرنا پڑی جس کے نتیجے میں ہمارے 'دوست‘ ہم سے ناراض ہو گئے۔ ایک مرتبہ پھر ملک میں دہشت گردی کا دور شروع ہوگیا۔ ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے رہے اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان پر لفظی گولہ باری کرتی رہی۔ نہ صرف زبانی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف تھا بلکہ بھارت کو بھی افغانستان میں کھل کھیلنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔ اس دوران ہماری مغربی سرحد پر جو کچھ ہوتا رہا‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہر بڑے افغان شہر میں بھارت کے کھلنے والے قونصل خانے کن مقاصد میں استعمال ہوتے تھے‘ یہ معاملہ اب پوشیدہ نہیں رہا۔ غرض امریکہ اور اتحادی افواج کا ساتھ دے کر بھی ہمیں افغانستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میسر نہ آ سکا۔ بیس سال کی لاحاصل جدوجہد کے بعد اتحادی افواج افغانستان سے رخصت ہوئیں تو استعمار کے ایجنٹوں کو بھی اقتدار سے رخصت کردیا گیا۔ افغان طالبان نے ایک بار پھر افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ ہماری جانب سے کچھ طبقات نے اس پر خوشی کے شادیانے بجائے مگر اتحادیوں کے انخلا کے ساتھ ہی پورے افغانستان میں مردنی چھا گئی۔ لوگ افغانستان سے باہر نکلنے کے لیے جہازوں سے لٹک لٹک کر مرنے لگے۔ آج بھی یہ عالم ہے کہ افغانستان سے باہر کسی بھی جگہ پر کوئی افغانی طالبان کا جھنڈا لہراتا دکھائی نہیں دے گا۔ شارجہ کے کرکٹ سٹیڈیم میں بھی تمام افغانیوں نے افغانستان کا پرانا جھنڈا ہی پکڑا ہوا تھا۔ وہی جھنڈا‘ جسے افغانستان میں لہرانا اب ممنوع قرار دیا جا چکا ہے اور حکومت کی طرف سے باقاعدہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ محض طالبان کا جھنڈا لہرایا جائے۔ کرکٹ سٹیڈیم میںکسی ایک افغانی کے ہاتھ میں بھی طالبان کا جھنڈا دکھائی نہیں دیا۔ خیر اس کی جو بھی وجہ رہی ہو‘ کم از کم ہمیں اپنے افغانی بھائیوں کے اِس طرز عمل پر شدید دکھ ہوا۔ ہماری اتنی قربانیوں کے باوجود بھی وہ کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی اور دبئی میں ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے میچز میں بھی پاکستان سے شکست کھانے کے بعد افغان تماشائیوں نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
کچھ روز پہلے ہی ہمیں ایک صاحب بتا رہے تھے کہ اب کسی پاکستانی کا افغانستان جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ معلوم نہیں سرحد کے اُس پار ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اُن کی مشکلات کے لیے کسی نہ کسی طور پاکستان بھی ذمہ دار ہے۔ شاید اِسی سوچ کے تحت کرکٹ سٹیڈیمز میں افغانیوں کی طرف سے پاکستان کے حوالے سے انتہائی ناشائستہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے لیے پاکستان نے کیا کچھ نہیں کیا۔ آج بھی وہاں پکنے والی روٹی کے لیے درکار گندم سے لے کر سبزیوں اور ترکاریوں تک‘ کتنی چیزیں ہیں جو افغانستان خود پیدا کرتا ہے؟ کسے نہیں معلوم کہ زیادہ تر چیزیں پاکستان سے سمگل ہو کر افغانستان جاتی ہیں۔ دنیا کی کون سی ایسی چیز ہے جو افغانستان خود امپورٹ کرتا ہے؟ سارا کچھ پاکستان اور دیگر ملکوں سے سمگل ہوکر وہاں پہنچتا ہے۔ افغان پناہ گزین‘ جنہیں سوویت یونین کے حملے کے وقت پاکستان میں پناہ دی گئی تھی‘ معاشرے کی جڑوں تک میں سرایت کر چکے ہیں۔ آئے روز کئی ایسے افغان باشندے پکڑے جاتے ہیں جنہوں نے جعل سازی سے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک بنوا لیا ہوتا ہے۔ یقینا ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آج ایک بھی افغان پناہ گزین اپنے ملک میں واپس جانے کو تیار نہیں ہے اور جس ملک میں وہ پناہ لیے ہوئے ہیں‘ اس کے حوالے سے ان کی نفرت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پاکستان میں کئی بار پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی سکیمیں شروع کی گئیں مگر چند سو یا چند ہزار سے زائد افراد کو واپس افغانستان نہیں بھیجا جا سکا، بلکہ جو افراد وہاں گئے‘ کچھ ہی عرصے بعد وہ بھی واپس آ گئے۔ طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد افغانستان کے حوالے سے پاکستان نے او آئی سی کے ایک ہنگامی اجلاس کی میزبانی کی جبکہ افغان مسئلے کو پوری دنیا میں شدت کے ساتھ اجاگر کیا مگر اس سارے خلوص کا جو صلہ ملا‘ وہ کرکٹ سٹیڈیمز میں افغانیوں کے سلوک سے واضح ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں