"FBC" (space) message & send to 7575

سیلاب سے جنگلی حیات کا نقصان

سیلاب کے باعث آنے والی تباہی کا ایک انتہائی خوفناک باب تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی رہے ہیں۔ ملک کا ایک تہائی کے قریب رقبہ زیرِ آب آ گیا ہے۔ پندرہ سو سے زائد افراد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ انسانی جانوں کا زیاں ایسا نقصان ہے کہ جس کا مداوا کسی صورت ممکن نہیں۔ کل تک جو دوسروں کی مدد کرتے تھے‘ آج وہ خود بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کسی کومعلوم نہیں کہ متاثرہ افراد کے غم کب تک کم ہوپائیں گے۔ اِس صورتحال نے پہلے سے اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی جنگلی حیات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ سندھ کے علاقوں میں دریائے سندھ کے کنارے‘ دریائی جنگلات میں بہت بڑی تعداد میں ہرن، مور، جنگلی بلیاں اور گیدڑ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ جب سیلاب آیا تو اِن جانوروں کی بڑی تعداد تو سیلاب میں بہہ گئی۔ باقی ماندہ جانورجب اپنے بچاؤکے لیے اِن علاقوں سے باہر نکلے تو بڑی تعداد کو یا تو پکڑ لیا گیا یا شکار کرلیا گیا۔ سندھ حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق اِن جنگلات میں ہرن کی مقامی قسم 'پھاڑا‘ کی تعداد لگ بھگ 16سو کے قریب تھی۔ اندازہ ہے کہ پچاس فیصد کے قریب تعداد سیلاب میں بہہ گئی ہے جبکہ بے شمار ہرنوں کوپکڑ لیا یا شکار کرلیا گیا ہے۔ اب تک 130کے قریب پھاڑے ہرن لوگوں کے گھروں سے برآمد کیے جاچکے ہیں۔ زیادہ لمبی پرواز نہ کرنے کے کالے اور بھورے تیتروں کے ساتھ بھی یہی سلوک دیکھنے میں آیا ہے جن کی اچھی خاصی تعداد سیلاب کی نذر ہوگئی ہے اور بے شمار کو پکڑ لیا گیا ہے۔سانپ اور چھپکلیاں وغیرہ ہم کھانہیں سکتے ورنہ شاید اُن کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا۔ یہ الگ بات کہ پانی کے باعث اِن کے بل زیرآب آ گئے اور اِن حشرات الارض کی بھی بڑی تعداد ہلاک ہوگئی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا طرزِ زندگی ایسا ہی بن چکا ہے کہ کھانے والی کوئی چیز مل جائے سہی‘ پھر وہ بھلا ہم سے بچ کر کہاں جاسکتی ہے۔ موسم سرما کے دوران جب ہمارے ہاں سائبریا سے مہمان پرندے آتے ہیں تو اُن کا اِس قدربے دردی سے شکار کیا جاتا ہے کہ اس صورت حال پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے اس طرزِ عمل نے جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ہم اندازہ ہی نہیں کرپارہے کہ جنگلات اورجنگلی حیات کی تباہی آگے چل کر ہمارے لیے کیسی کیسی مصیبتیں کھڑی کرنے والی ہے۔ شاید ویسی ہی مزید مصیبتیں‘ جن میں سے چند ایک کا توہم اِن دنوں بھی سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں کبھی بتایاہی نہیں گیا کہ قدرت کے فطری نظام کے استحکام کے لیے جنگلی حیات کس قدر اہم ہیں۔ فطرت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جنگلی حیات اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ کارخانۂ قدرت میں کچھ بھی بے مقصد نہیں بنایا گیا۔ اگرربِ کائنات نے جنگلی حیات کو وجود بخشا ہے تو یقینا اِن کا کوئی مقصد بھی ہو گا۔ اگر اِن کی رہائش کے لیے جنگلات بنائے گئے ہیں تو یہ بھی بلامقصد نہیں ہوں گے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگلی حیات کی موجودگی صرف اِس لیے ضروری نہیں ہے کہ ہمیں رنگ برنگے اور خوب صورت پرندے یا جانور دیکھنے کوملتے ہیں۔ اِن کی موجودگی اور بقا اِس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ہمارے پورے ماحولیاتی نظام کا اہم ترین حصہ ہیں۔ اگرجنگلی حیات کا وجود نہ رہے تو جان لیجئے کہ پھر پورا ماحولیاتی نظام غیرمتوازن ہو جائے گا۔ اِس کی صرف ایک مثال لیتے ہیں۔ کچھ دہائیوں قبل تک ہمارے ہاں گدھ کافی تعداد میں پائے جاتے تھے ۔ تب اِنہیں نحوست کی علامت گمان کیا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ نحوست کی علامت سمجھے جانے والے گدھ ہماری اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں سے غائب ہوگئے۔ تب ہمیں معلوم پڑا کہ گِدھوں کا ماحولیاتی نظام میں کتنا اہم کردارتھا، یہ مردہ جانوروں کو چٹ کرجاتے تھے۔ آج مرداروں کوچٹ کرنے والے گِدھ نہیں رہے تو اِن سے اُٹھنے والی بدبواور تعفن ہفتوں تک آلودگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ اب گِدھوں کی تعداد بڑھانے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلے جارہے ہیں۔ ہم جنگلی حیات کی بقاکے لیے تب فکر مند ہوں گے جب ہمیں اِن کی اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اِس بات کی کوئی اُمید دکھائی نہیں دے رہی۔ ہم تو یہ بھی نہیں کر سکے کہ کم از کم اپنی آنے والی نسلوں کو ہی اِس کے بارے میں بتاتے جائیں۔
بھارت کی طرف دیکھیں تو اس نے اپنے ہاں جنگلی حیات کو بہت اچھی طرح محفوظ کیا ہے۔ وہاں بھی اگرچہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے لیکن اِس کے باوجود بھارت اپنے جنگلات کے رقبے کو برقرار رکھنے یا اِس میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق‘ کسی بھی ملک کا کم از کم ایک تہائی رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ جنگلات کے حوالے سے اپنی صورت حال کا اندازہ اِس امر سے لگا لیجئے کہ ہمارے ہاں صرف تین سے چار فیصد رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔ بھارت میں یہ رقبہ اٹھارہ سے بیس فیصد پر محیط ہے۔ اِسی تناسب سے وہاں جنگلی حیات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ بھارت نے ایک اور بڑی کامیابی یہ حاصل کی ہے کہ بھارتی جنگلات سے معدوم ہوچکے چیتوں کو سترسالوں کے بعد اپنے ملک میں واپس لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی سالگرہ والے دن آٹھ چیتوں کو نیشنل پارک میں چھوڑا۔ ان میں سے تین نر اور پانچ مادہ چیتے ہیں۔ اِن چیتوں کو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے 'کونو نیشنل پارک‘ میں چھوڑا گیا ہے۔ 3 لاکھ 44 ہزار مربع کلومیٹر سے بھی زائد رقبے پر محیط یہ پارک 1981ء میں قائم کیا گیا تھا۔ ظاہری سی بات ہے کہ اِس کے قیام کا مقصد جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنا اور مختلف اقسام کی جنگلی حیات کو افزائش کے لیے بہتر قدرتی ماحول فراہم کرنا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہرسال تقریباً 15 سے 18 لاکھ سیاح اِن چیتوں کو دیکھنے کے لیے آیا کریں گے۔ یہاں سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف آٹھ چیتوں کی بدولت سیاحت کو کتنا فروغ حاصل ہو گا۔ اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے بے شمار لوگوں کیلئے روزگار کا بھی انتظام ہو گا۔ کہنے کو یہ صرف آٹھ چیتے ہیں لیکن اِنہوں نے بھارت میں جنگلی حیات کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا نے ان چیتوں کو نیشنل پارک میں چھوڑے جانے کے ایونٹ کو کور کیا ہے۔ یہ تمام گفتگو کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں بھی جنگلی حیات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ جو جنگلی حیات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اُنہوں نے چیتے لانے کے لیے ایک طویل سفر کو کامیابی سے طے کیا ہے۔ جنہیں اِس سے دلچسپی نہیں وہ رہی سہی جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے تک لاہور کے سرحدی علاقوں میں پاڑہ اور نیل گائے وغیرہ کافی تعداد میں پائی جاتی تھیں۔ اب اِن کا نام ونشان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ عرصہ پہلے تک چکوال کے علاقوں میں پینگولین نامی جانور بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا۔ چین کو یہ جانور بھایا تو یہاں سے پکڑ پکڑ کے یہ جانور فروخت کیا جانے لگا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ یہ جانور معدومیت کے کنارے تک آن پہنچا۔ پینگولین دیمک کو چٹ کرجاتا ہے۔ خطے میں پینگولین کی کمی ہوئی تو وہاں مکانوں اور جنگلات کو دیمک لگنے کی رفتار کہیں تیز ہو گئی۔ وہ وقت بھی زیادہ پرانا نہیں جب قسم قسم کے پرندے لاہور میں مکانوں کی منڈیروں پر چہلیں کرتے پھرتے تھے لیکن آج تو جیسے سب کچھ ہی ختم ہوگیا ہے۔ کچھ باقی رہ گیا ہے تو وہ کنکریٹ کے جنگل۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں کنکریٹ کی بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں۔ اِن حالات میں جنگلی حیات کب تک اپنا بچاؤ کریں گی۔ یوں بھی عمومی طور پر ہمارے ہاں جانوروں سے پیار کرنے والے لوگ خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے ہمیں اِن کے بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں ہیں۔ ہمیں تو بس ان جانوروں اور پرندوں سے پیار ہے جنہیں ہم بھون کر کھا سکیں۔ ہماری سوچ پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ ہی پر ختم ہوجاتی ہے۔ ہم یہ تک جاننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ ہماری اِن کوششوں کی وجہ سے ہمارا ایکو سسٹم بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ جہاں انسانوں کو ہی اہمیت نہ دی جاتی ہو وہاں جنگلی حیات بھلا کیا معنی رکھتے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں