"FBC" (space) message & send to 7575

قصور ہمارا اپنا بھی ہے

ملکی تاریخ کی ایک بڑی تباہی پوری قوم کا امتحان لے رہی ہے۔ خصوصاً ہمارے جو اہلِ وطن براہِ راست اِس آزمائش سے دوچار ہوئے ہیں، اُن کی زندگیاں تو جیسے ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوکر رہ گئی ہیں۔ ملک کا ایک تہائی کے قریب رقبہ مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا۔ پندرہ سو سے زائد انسانی جانیں سیلاب کی نذر ہو گئیں اور اِس تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ سیلاب سے بچ رہنے والے اب وبائی بیماریوں کی زد میں آرہے ہیں۔ بھوک سے نڈھال ہورہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ سوا تین کروڑ کے قریب ہم وطن اِس سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں جن میں سے کم از کم سات لاکھ خاندان اپنے گھروں سے مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب کی شکل میں یہ تباہی ہمارے ہم وطنوں کے لیے کتنی بڑی بڑی مصیبتیں لے کر آئی ہے۔ جن علاقوں میں سیلاب نے زیادہ تباہی مچائی ہے وہاں آٹھ لاکھ سے زائد مویشی بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ گویا گھروں کے ساتھ ساتھ سیلاب زدگان اپنے وسیلۂ روزگار سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ اپنے مویشیوں سے محرومی کے بعد سیلاب متاثرین کو اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے صفر سے آغاز کرنا پڑے گا۔ مختلف اندازوں کے مطابق سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ اِس نقصان میں مزید اضافے کے خدشات بھی موجود ہیں کیونکہ سیلاب سے متاثرہ بے شمار علاقوں میں ابھی تک بڑی مقدار میں سیلابی پانی موجود ہے۔ سندھ حکومت کے اندازوں کے مطابق بعض علاقوں سے سیلابی پانی کی مکمل نکاسی میں ایک سے تین ماہ کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اِس دوران سیلاب متاثرین کو مزید کیا کیا تکلیفیں سہنا پڑیں گی۔ مختصراً یہ جان لیجئے کہ ہمارا وطن ایک اتنی بڑی تباہی کا سامنا کررہا ہے کہ جس سے نمٹنا کسی بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ وہ بھی ایک ایسے ملک کے لیے جو معاشی طور پر اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لے رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی سیاستدان باہمی اختلافا ت کو بالائے طاق نہیں رکھ سکے۔ جہاں پوری توجہ سیلاب زدگان کی طرف مبذول کرنے کے بجائے بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
آج ہم ایک مرتبہ پھر ہم دنیا بھر کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اتنی بڑی تباہی سے نمٹنا اکیلے ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہم حسبِ روایت ہر در پر جا کر امداد کا سوال کر رہے ہیں کہ خدارا! اِس تباہی سے نمٹنے کے لیے ہماری مدد کریں لیکن ابھی تک اندازوں سے کہیں کم‘ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف عالمی امداد ہی مل سکی ہے۔ 2010ء کے سیلاب کی تباہی حالیہ سیلاب کی تباہی سے قدرے کم تھی لیکن تب پوری دنیا نے دل کھول کرہماری مددکی تھی لیکن اب صورت حال یکسر مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ آخر عالمی برادری کیوں ہمارے حوالے سے فراخدلی کا مظاہر ہ نہیں کررہی۔ اِس کی بڑی وجوہات میں 2005ء کے شدید زلزلے اور پھر 2010ء میں ایک بڑے سیلاب کے دوران ملنے والی امداد کا مناسب انداز میں استعمال نہ کیا جانا ہے۔ اِس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہم سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آخر آپ اِس طرح کی مصیبتوں سے بچاؤ کی مستقل تدابیر کیوں نہیں اختیار کرتے؟یہ سوال کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ گو کہ اس وقت نصف سے زیادہ ملک سیلاب کا سامنا کر رہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی دریا بپھرے نہیں تھے۔ تقریباً سبھی بڑے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ خطرناک صورت حال اختیار نہیں کرسکا، لیکن دعویٰ اس کے باوجود یہی کیا جا رہا ہے کہ ہمارے گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔ یہ بات اگرچہ بالکل ٹھیک ہے کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ ہمارے لیے بہت سنگین ہوچکا ہے لیکن یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ موجودہ صورتحال کم از کم گلیشیرز کے پگھلنے سے پیدا نہیں ہوئی۔ اگر موجودہ صورت حال گلیشیرز کے پگھلنے کے باعث پیدا ہوتی تو سبھی دریاؤں میں سیلاب آ جاتا۔ صورت حال تو یہ ہے کہ اس سیلاب میں بھی منگلا ڈیم پوری طرح نہیں بھر سکا۔ اِس مرتبہ دریائے سندھ میں سب سے بڑا ریلاتقریباً سات لاکھ کیوسک کا رہا جو دریائے سندھ جیسے بڑے دریا کے لیے زیادہ بڑا ریلا نہیں ہے۔ ماضی میں دریائے سندھ سے گیارہ لاکھ کیوسک سے زائد کا ریلا گزر چکا ہے۔ تاریخ کو کھنگالا جائے تو 1956ء، 1976ء، 1986ء اور 1992ء میں بھی بڑے سیلاب آ چکے ہیں لیکن تب بھی اتنی تباہی نہیں ہوئی تھی۔ 2010ء میں البتہ دریائوں نے بہت تباہی مچائی تھی۔ تب ایک طرف غیرمعمولی بارشوں کے باعث دریا بپھر گئے تھے اور دوسری جانب دریاؤں کے قدرتی راستوں میں بڑے پیمانے پر تجاوزات قائم ہوچکی تھیں۔ اِن تجاوزات کے باعث دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ آئی تو اُنہوں نے بستیوں کا رخ کرلیا اور پھر و ہ سب کچھ ملیا میٹ کرتے چلے گئے۔
تقسیم برصغیر سے پہلے جب انگریز دور میں ایک بڑا سیلاب آیا تو انگریز حکومت نے اِس حوالے سے تفصیلی تحقیقات کیں۔ اِنہی تحقیقات کے نتیجے میں یہ طے کیا گیا کہ فلاں فلاں دریا کے اردگرد اتنے فاصلے تک کوئی تعمیرات نہیں ہوں گی۔ اِن علاقوں کو دریاؤں کا علاقہ قرار دیا گیا جسے ہم ''کچے کا علاقہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ برٹش دور کے خاتمے تک تو کچے کے یہ علاقے تجاوزات سے پاک رہے اور دریاؤں میں سیلاب آتا بھی تو بہت کم تباہی ہوتی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک صورتحال بہتر رہی لیکن اب دریاؤں کے قدرتی راستوں میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہوچکی ہیں۔ دریائے سوات کے کنارے ایک ہوٹل کے دریا برد ہونے کی وڈیو تو سب نے دیکھی ہوگی۔ اُسے دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ہوٹل دریا کے بیچ تعمیر کیا گیا تھا۔ ایک طرف ہم دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں اور دوسری طرف خود کوئی اقدامات کرنے کے لیے ہی تیار نہیں۔ صرف کہتے رہنے سے بات نہیں بنتی‘ بچاؤکے لیے کچھ ہوتا بھی نظر آنا چاہئے۔ کیا امداد دینے والوں نے نہیں دیکھا ہوگا کہ کس طرح دریاؤں کے راستوں میں تعمیرات ہوئیں۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ اس مرتبہ زیادہ امدادڈالروں کے بجائے سامان کی شکل میں آرہی ہے۔ آخر اِس تبدیلی کی کوئی تو وجہ رہی ہوگی۔
اِس صور ت حال پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ ہماری غلطیوں، چشم پوشیوں اور تجاہلِ عارفانہ نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ہم دنیا بھر سے تو امداد کی اپیلیں کررہے ہیں لیکن خود ہمارے ملک کے امرا اِس حوالے سے بہت پیچھے نظرآرہے ہیں۔ کیا اُنہیں بھی یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت سے جنت ملتی ہے؟ افسوس کہ عمل کا وقت آیا ہے تو ہمارے اپنے لوگ ہمیں پچھلی صفوں میں بھی نظر نہیں آرہے۔ ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم گفتار کے غازی ہیں اورکردار میں بالکل صفر ہیں۔ زیادہ تر افراد محض دوسروں کو سدھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارا یہی طرزِ عمل سدِ راہ ہے کہ جس کے باعث آج اتنی بڑی مصیبت کے باوجود دنیا ہمارا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں دکھائی دے رہی۔ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں تو اُن سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔اگر ہمارے ہاں ہر ایک دہائی کے بعد بڑا سیلاب آجاتا ہے تو اِس سے بچنے کے لیے ہم نے اب تک کیا کیا ہے۔الٹا ہم نے دریاؤں کے راستوں پر ہی قبضہ جما لیا ہے۔ سندھ حکومت جو یہ کہہ رہی ہے کہ صوبے کے بعض علاقوں سے پانی کی مکمل نکاسی کے لیے ایک‘ دو ماہ کا عرصہ درکار ہوگا‘ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جن راستوں سے گزر کر سیلابی پانی نے سمندر میں گرنا تھا، وہ سب راستے بند ہو چکے ہیں۔ دنیا یہ سب کچھ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور صورتحال کو پوری طرح سمجھ بھی رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی آفت کے باوجود وہ پوری طرح متحرک نہیں ہو سکی بلکہ یہی سبب ہے کہ ہمیشہ ہماری مدد کرنے والے ہمارے دوست ممالک بھی اپنا ہاتھ پوری طرح سے ہماری طرف نہیں بڑھا رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں