"FBC" (space) message & send to 7575

اقتدار کی میز

میاں نواز شریف تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر متمکن تھے۔ ان کی حکومت بننے کے ایک سال بعد ہی دھرنوں کا آغاز ہو گیا اور اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا گیا مگر مقاصد حاصل نہ ہو سکے۔ دھرنا اگرچہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گیامگر حکومت پر دبائو بنانے کی پالیسی کارگر ثابت ہوئی۔ پھر کثیرالجہت محاذ کھولے گئے، اسی دوران پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا تو عدالت میں پاناما کی بنیاد پر کیس دائر کر دیا گیااور پھر تاریخیں، جے آئی ٹی اور تحقیقات۔ آخرِ کار پاناما لیکس کی آڑ میں پہلے نواز شریف کو 28 جولائی 2017ء کو وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا گیا‘ اس کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہمیشہ کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ لارجر بینچ کے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ شواہد کی روشنی میں نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے جس کے باعث وہ تاحیات نااہل قراردیے جاتے ہیں۔ اِس سے پہلے ایسی صورت حال پیدا کردی گئی تھی گویا میاں نواز شریف کے مزید وزیراعظم رہنے سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس ماحول میں بیشتر ذہنوں میں یہ خیال پختہ ہوگیا تھا کہ میاں نواز شریف کے جانے ہی میں ملک و قوم کا بہترین مفاد ہے۔ خدالگتی بات یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تب ملک کے معاشی حالات کافی بہتر تھے۔ ڈالر قابو میں تھا اور مختلف ترقیاتی منصوبے بھی تیزرفتاری سے چل رہے تھے۔ دنیا کے اہم ممالک سے ہمارے تعلقات خاصے بہترتھے اور مختلف معاملات میں ہمارے قومی مؤقف کو وزن بھی ملتا تھا۔ اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ اورنج لائن ٹرین سمیت کئی ترقیاتی منصوبوں پر سوالات بھی اُٹھ رہے تھے لیکن مجموعی طور پر آج کی نسبت ملک کے حالات کافی بہتر تھے۔ اِن حالات میں نواز شریف کو سیاست سے نکال باہر کرنا کارِآسان نہ تھا لیکن یہ ہونی بھی ہو کر رہی۔ ملکی روایات کے عین مطابق وہی کچھ ہوا جو ماضی میں بھی ہوتا آیا تھا۔ نواز شریف قابلِ سزا ٹھہرے اور ملکی معیشت پٹڑی سے اُتر گئی۔
یہ مقصد حاصل ہونے کے بعد اب عمران خان ہی واحد آپشن رہ گئے تھے۔ ویسے بھی ان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ ملک کے مسائل کو وہ بہتر طور پر جانتے ہیں اور انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں پر مشتمل ایک ایسی ٹیم تیار کر رکھی ہے جو دِنوں میں ملک کی حالت بدل سکتی ہے۔ جس طرح نواز شریف کو نااہل قراردیے جانے سے پہلے اُن کے خلاف مضبوط مہم چلائی گئی تھی بالکل اُسی طرح عمران خان کے برسرِاقتدار آنے سے پہلے ایک مہم چلائی گئی کہ ملک کی تقدیر عمران خان سے وابستہ ہوچکی ہے۔ الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا۔ اس وقت ملتان سے تعلق رکھنے والی ایک قدآور سیاسی شخصیت نے یہ کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت سے انکار کر دیا تھاکہ سیاسی لحاظ سے وہ عمران خان سے زیادہ قدآور ہیں۔ یہ شخصیت کچھ عرصے تک تو اپنے موقف پر ڈٹی رہی لیکن پھر حالات کے آگے جھکتے ہی بنی۔ تب ہرطرف عمران خان‘ عمران خان ہورہی تھی۔ نوجوان نسل تو ان کی گرویدہ تھی ہی‘ ایک ایسی ہوا چلی کہ ہر کوئی کہنے لگاکہ اگر ملک کو بچانا ہے تو پھر عمران خان کو لانا ہے۔
اسی اثنا میں 2018ء کے انتخابات ہوئے جن کی شفافیت پر آج تک سوال اٹھایا جاتا ہے۔ الیکشن کا رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) بیٹھ گیا، نتائج میں تاخیر ہوئی تو الزامات لگائے جانے لگے کہ سسٹم کو جان بوجھ کر بٹھایا گیا تاکہ نتائج میں تبدیلی ہو سکے۔ کچھ ایسی وڈیوز بھی سامنے آئیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو انتخابی مراکز سے باہرنکال دیا گیا۔ قصہ مختصر عمران خان برسرِاقتدار آگئے۔ ابتدا میں تو اپوزیشن(موجودہ حکومتی اتحاد) نے حلف نہ اٹھانے اور اسمبلیوں کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا مگر پھر حلف اٹھا لیا گیا البتہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ہلکی آنچ پر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس دوران ایسے مواقع آتے رہے کہ سیاسی مہروں کے ذریعے پی ٹی آئی کی راہیں آسان بنائی گئیں۔ سب جانتے ہیں کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے لیے تحریک انصاف کا اُمیدوار کامیاب ہوا تھا۔ البتہ اس سیاسی کھیل میں ملک کی معیشت تیزی سے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھی اور سیاست‘ سیاست کے چکر میں بالآخر وہ وقت آ گیا کہ ملکی معیشت کا سانس اکھڑنے لگ گیا۔
یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد کچھ عرصے تک معاملات بخوبی چلتے رہے۔ ہرطرف ایک پیج کا شور تھا۔ اس وقت کی حکمران جماعت برملا یہ کہا کرتی تھی کہ ہمارے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے مگر پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ ایک پیج پر فاصلے پیدا ہونے لگے۔ بات مزید آگے بڑھی تو ایک مرتبہ پھر وہی کھیل شروع ہوگیا جس کی جڑیں گہرائی تک سرایت کر چکی تھیں۔ اب کی بار بس چہرے تبدیل ہوئے تھے‘ کھیل وہی پرانا تھا۔ نواز شریف کو ہٹانا مقصود تھاتو اُن کے خلاف مہم چلائی گئی تھی لیکن اب باری عمران خان کی تھی۔ وہی پرانی باتیں شروع ہو گئیں کہ عمران خان کا مزید برسرِ اقتدار رہنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ عمران خان نے یہ کردیا، عمران خان نے وہ کردیا۔اب تو تبھی بات بنے گی جب عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے گا ورنہ ملک عالمی تنہائی کا شکار ہو جائے گا، معیشت پاتال سے جا لگے گی۔ نواز شریف کے خلاف مہم پر عمران خان خوشی سے اُچھلتے کودتے تھے مگر اب خوش ہونے کی باری نواز شریف اور دیگرعمران مخالف سیاسی قوتوں کی تھی۔ ہرطرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ ملک بچانا ہے تو عمران خان کو ہٹانا ہے۔ آن کی آن میں پی ڈی ایم کے مردہ وجود میں جان پڑ گئی۔ محترم مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کو فعال کیا اور عمران ہٹاو مہم عملی مرحلے میں داخل ہوگئی۔بارہ‘ تیرہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر تحریک انصاف کے خلاف کمربستہ تو تھیں ہی‘ تحریک انصاف اندرونی طور پر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ عمران خان اور اعلیٰ جماعتی قیادت نے بچنے کے لیے ہرممکن ہاتھ پاؤں مارے لیکن بے سود۔ یہ تمام مناظر دیکھ کر آئی جے آئی موومنٹ ذہن میں اُبھرتی رہی کہ تب کس طرح سے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اتحاد قائم کیا گیا تھا۔ عین اس موقع پر جب آئی جے آئی اور ذوالفقار علی بھٹوکے درمیان معاملات طے پانے لگے تو عوامی حکومت کاتختہ ہی اُلٹ دیا گیا۔ پھر اپوزیشن اتحاد تاریخ کا حصہ بن گیا اور جمہوری بساط لپیٹ دی گئی۔
یہ دوتین مثالیں ماضی قریب کی ہیںورنہ ہماری سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے واقعات کے رونما ہونے کے دوران عوام تماشائی بنے صرف زندہ باد‘ مردہ باد کے نعرے ہی لگاتے رہتے ہیں۔ شاید قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا کردیے جاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی زیرِ گردش باتوں پر یقین سا آنے لگتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ عمران خان کی حکومت پر سب سے بڑی چارج شیٹ یہ تھی کہ اُن کے دور میں ہونے والی مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کردیا۔ تب محترم فضل الرحمن پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے پہلے سال ہی مہنگائی کے خلاف مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ گئے اور دھرنا دیا۔ یہ اُسی سے ملتی جلتی صورتحال تھی جب نواز حکومت کے خلاف عمران خان اور طاہرالقادری لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے تھے اورملکی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دیا تھا۔ صرف جے یو آئی ہی نہیں‘ پیپلز پارٹی کراچی سے مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد داخل ہوئی اور مسلم لیگ نواز نے لاہور سے ''مہنگائی مکائو‘‘ مارچ کا آغاز کیا۔ آج مہنگائی عمران خان کے دور سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے لیکن اب کوئی مہنگائی کی بات نہیں کر رہا۔ ڈالر کہیں سے کہیں جا پہنچا ہے لیکن سب ٹھیک چل رہا ہے۔ وہی اسحاق ڈار جنہیں ملکی معیشت کا دشمن قرار دیا جاتا رہا ‘آج چوتھی مرتبہ وزیرخزانہ بن چکے ہیں۔ نواز شریف جنہیں ہمیشہ کیلئے سیاست سے نااہل کردیا گیا‘ ایک مرتبہ پھر اُن کی واپسی کا شورمچا ہوا ہے۔ ہم عوام ایک مرتبہ پھر زندہ باد‘ مردہ باد کے نعرے لگا رہے اور ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ پورے کھیل میں ہمارا کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ اگر ایک مرتبہ پھر اقتدار کی میز گھمائی جاچکی ہے تو اِس کے گھومنے میں ہمارا کوئی کردار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں