"FBC" (space) message & send to 7575

وطن کی فکر کر ناداں

گہرے انتشار سے اُٹھتی بے یقینی کی لہروں نے گویا پورے ملک کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسی افراتفری کہ جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ اِس صورتحال کا وہی نتیجہ نکل رہا ہے‘ جو نکل سکتا ہے۔ عمران خان پر ہونے والے حملے نے انتشار کو مزید گہرا کردیا ہے جس کے بعد سے الزام تراشیوں کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔ باہمی احترام اور رواداری کے سلسلے تو عرصہ ہوا ختم ہوچکے لیکن جو صورتحال اب پیدا ہوچکی ہے‘ وہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وزیرآباد واقعے کے بعد لاہور اور پشاور سمیت کچھ علاقوں میں ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے جو خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ غالباً اس قسم کی صورتحال آخری بار 1977ء میں دیکھی گئی تھی جب ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری تھااور جن کا اختتام بالآخر ضیاء الحق کے مارشل لاء پر ہوا۔ بھٹو کے خلاف مظاہرین کو نفاذِ نظام مصطفی کے نام پر میدان میں اتارا گیا لیکن پھر جلد ہی بلی تھیلے سے باہر آگئی جس کے بعد ملک پر ایک طویل تاریک رات مسلط ہوگئی۔ ایسی تاریک رات جس نے ملکی حالات پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔ متعدد صورتوں میں ہم ابھی تک اُس دور کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اِس تحریک میں حصہ لینے والے بعد میں ایسے خیالات کا اظہار کرتے پائے گئے کہ اُنہیں معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ انجانے میں استعمال ہورہے ہیں۔ ہمارا یہی المیہ ہے کہ ہم اتنے جذباتی واقع ہوئے ہیں جنہیں چند مخصوص نعروں کے استعمال سے کبھی بھی میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔ یہی کچھ بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔ اس تحریک کے دوران مظاہرین کا جوش اور جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ جیسے اپنے مقصد کے حصول کیلئے وہ پوری دنیا سے بھڑ جائیں گے۔ تحریک شروع کرانے والوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا اور پھر ''تو کون‘ میں خواہ مخواہ‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔ قربانیاں دینے والوں کو یہ پوچھنے کی جرأت بھی نہ ہوسکی کہ وہ نظام بدلنے کا وعدہ کیا ہوا؟کسی میں اتنی ہمت تھی ہی نہیں کہ اقتدار میں آنے والے سے پوچھ سکتاکہ تحریک میں خون بہانے والوں نے اس مقصد کیلئے قربانی دی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ شعور سے کام نہ لینے والوں کوطاقتور استعمال کرتے رہے ہیں اور شاید ہمیشہ کرتے رہیں گے۔
آج کے حالات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں‘ جن کی سنگینی میں وزیرآباد سانحے نے مزید اضافہ کردیا ہے۔ اِس واقعے نے اُڑتی ہوئی گرد کو مزید گہرا کیا ہے جس کی دھندلاہٹ میں سب کچھ دھندلا کررہ گیا ہے۔ واقعے کے فوراً بعد چند شخصیات کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ فوری الزامات عائد کرنے سے پہلے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنے کا بھی تکلف نہیں کیا گیا۔ ہرطرف سے یہ آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ فلاں‘ فلاں‘ فلاں اِس واقعے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد گرفتار حملہ آور کے بیانات ایک‘ آدھ گھنٹہ بعد ہی میڈیا پر چلنے لگے۔ اِن بیانات میں ایک ہائی پروفائل کیس کا ملزم ایک کے بعد ایک موقف اختیار کرتا نظرآیا۔ یہ بات تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یکے بعد دیگرے ملزم کے بیانات سامنے لائے جانے کے پس پردہ کوئی مقصد پنہاں رہا ہو گا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ابھی واقعے کی گرد بھی نہ بیٹھی ہو اور حملہ آور کے بیانات میڈیا و سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائیں اور بیانات بھی ایسے جن میں تضادات نمایاں ہیں۔
اپنے بیانات میں ملزم نے اپنی اس گھنائونی حرکت کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ اِسی حوالے سے بعد میں وفاقی وزیرداخلہ سمیت کئی وزرا نے بھی یہ بیان دیا کہ ملزم نے جذبات سے مغلوب ہوکر یہ حرکت کی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی بھرپورکوششیں کی جا رہی ہیں کہ یہ سب کچھ تحریک انصاف والوں کی اپنی حرکتوں کا نتیجہ ہے۔ بعض افراد کی طرف سے قرار دیا گیا کہ عدم رواداری کے جس کلچر کو تحریک انصاف نے فروغ دیا‘ اب اُسے اس کے جواب کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ فریقین کی طرف سے کوئی بھی انتظار کرنے کو تیار نہیں کہ کچھ تحقیقات ہوجائیں‘ حالات و واقعات واضح ہوجائیں‘ اس کے بعد ہی اپنا موقف بیان کیا جائے۔ بس الزامات کی ایک دوڑ ہے جس میں ہرکوئی دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دے رہا ہے۔ اِسی دوران سب سے افسوسناک صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ عوام اور ریاستی اداروں کے مابین فاصلے مزید بڑھ گئے۔
جہاں اس صورتحال پر ہمارے دوست ممالک تشویش کا اظہار کررہے ہیں‘وہیں یہ حالات ہمارے دشمنوں کے لیے انتہائی خوشی کا باعث بن رہے ہیں۔ غیرملکی میڈیا میں ہمارے حالات پر مفصل رپورٹس شائع ہورہی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ کس طرح پاکستان اپنے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے مسلسل فرقہ واریت اور قتل وغارت گری کا شکار رہا ہے۔کس طرح ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول سیاستدان کو ایک کمزور سے مقدمے میں پھانسی کے پھندے پرلٹکا دیاگیا تھا۔ کس طرح بینظیربھٹو کو راستے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ بھٹو خاندان پر ایک کتاب کے مصنف بینٹ جونز نے یہاں تک قرار دیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی تشدد کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں قاتلوں کو سزائیں نہیں ہو پاتیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا تجزیہ کہتا ہے کہ پندرہ سال پہلے بینظیربھٹو جیسی مقبول سیاستدان کو قتل کیا گیاتھا جس کے بعد پاکستان میں شدید عدم استحکام پیدا ہوگیا تھا، اب عمران خان پر حملہ ہوا ہے تو یہ واقعہ بھی طویل عرصے تک پاکستان کے سیاسی توازن میں بگاڑ کا باعث بنا رہے گا۔ بھارت کا میڈیا اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرنے کیلئے اس موقع کو بھی خالی نہیں جانے دے رہا۔ بعض چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی طرف سے طنز کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی اِسے آخری قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ آنے والے دنوں کے دوران سیاسی انتشار میں مزید اضافہ ہو گا۔ تجزیہ کار کے مطابق پاکستان میں یہ حالات تب تک برقرار رہیں گے جب تک سٹیک ہولڈرز کے مابین ادارہ جاتی عدم توازن کو دور نہیں کیا جاتا۔ دیگر غیرملکی میڈیا میں بھی وزیرآباد واقعے کو نمایاں کوریج دی گئی اور سب نے اپنے اپنے انداز میں حالات کا تجزیہ کیا۔ اِن تمام تجزیوں میں یہ بات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئی کہ مجموعی طور پر ہمارے ملکی حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ گویا ہمارے حوالے سے یہ تاثر مضبوط ہوچکا ہے کہ یہاں حالات ہمیشہ خراب ہی رہتے ہیں۔
اِن حالات پر ہم کسے ذمہ دار ٹھہرائیں؟ ایک طویل عرصے تک 'غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے‘ کا کہہ کر دامن جھاڑ لیا کرتے تھے۔ اگرچہ ایسے عناصر کی موجودگی سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن اندرونی ہاتھ بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اب چیزیں کچھ اِس اندازسے واضح ہوچکی ہیں کہ کسی دوسرے کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان ایک سخت بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں جس نے عوامی سطح پر کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ 'امپورٹڈ حکومت‘ کا بیانیہ بھی وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ ایسے میں شاید خان صاحب کو یہ زعم ہے کہ مسلسل تنقید کے ذریعے وہ اداروں کو مکمل دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سوائے حکومت کے کسی بھی دوسری طرف سے اداروں کا دفاع ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت کا دفاع اِس لیے کارگر ثابت نہیں ہورہا کہ گزرے دنوں میں یہ لوگ خود بھی اداروں پر جارحانہ انداز میں تنقید کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ تاثر بہت واضح ہے کہ حکومت ملنے کے بعد اب اِنہیں ادارے اچھے لگنے لگے ہیں۔ عمران خان کا حال بھی اس سے جدا نہیں۔ کرسی پاس رہنے تک اِنہیں سبھی ادارے بہت اچھے لگتے تھے۔ جب سے اقتدار کی کرسی چھن گئی ہے‘ الیکشن کمیشن جانبدار ہوگیا ہے‘ ادارے مخالفین کے حق میں جھک گئے ہیں‘ ان کے خلاف فیصلے سنائے جانے میں ناانصافی برتی جانے لگی ہے۔ گویا ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر! ملکی مفاد کے نام پر سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں اورکسی کو بھی عوام یا ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں